"KMK" (space) message & send to 7575

ملتان ٹریفک پولیس کا چھوٹا سا القادر ویلفیئر ٹرسٹ

ملک میں اس وقت ہر طرف لوٹ مار کا عالم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سب کے پاس وقت کم ہے اور اس کم وقت میں ٹارگٹ پورا کرنا ہے۔ حکمرانوں کا طریقہ کار ذرا الگ ہے اور سرکاری افسروں اور اہلکاروں کا طریقۂ واردات مختلف ہے۔ لیکن دونوں میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ پیسہ عوام کی جیب سے نکلوانا ہے۔ سرکار اپنے اللے تللے پورے کرنے کیلئے ٹیکس پر ٹیکس لگا رہی ہے۔ اپنے بڑھتے ہوئے اخراجات پورے کرنے کا سرکار کے پاس واحد طریقہ یہی ہے کہ وہ ان ٹیکسوں میں مزید اضافہ کر دے تاکہ ان کا موج میلہ چلتا رہے۔ عوام کی حالت سے کسی کو غرض نہیں ہے۔
سرکار کے افسروں اور اہلکاروں کا طریقۂ واردات خیر سے بڑا سادہ ہے۔ کام نہ کرنے کی تنخواہ لینی ہے اور ہر کام کرنے کے پیسے حاجت مند سے وصول کرنے ہیں‘ تاہم ملتان ٹریفک پولیس نے اس کا ایک ایسا غیرقانونی طریقہ نکالا ہے جو بظاہر خاصا قانونی ہے۔ ٹریفک پولیس نے ہائیکورٹ کے ایک حکم نامے کو جواز بنا کر دھڑا دھڑ جرمانوں اور چالانوں کی صورت میں عوام الناس سے پیسے بٹورنے شروع کر رکھے ہیں۔ یہ 'پیسے بٹورنا‘ اس لیے لکھا ہے کہ ان چالانوں اور جرمانوں کے پیچھے جو کہانیاں ہیں وہ سن کر ان جرمانوں اور چالانوں کیلئے 'پیسے بٹورنا‘ سے بہتر لفظ کم از کم اس عاجز کو تو نہیں سوجھ رہا۔
ملتان شہر میں تھوڑا عرصہ پہلے تک چار عدد فورک لفٹر دندناتے پھر رہے تھے۔ ادھر کسی نے چند لمحے کیلئے گاڑی روکی ادھر ان فورک لفٹروں نے وہ گاڑی اٹھا کر ساتھ والی فٹ پاتھ پر رکھ دی اور اسے فٹ پاتھ سے اتارنے کا عوضانہ عرف جرمانہ مبلغ دو ہزار روپے وصول کر لیا۔ اٹھائی گئی گاڑی کے مالک کا جرم یہ ہوتا تھا کہ اس نے غلط جگہ پر گاڑی پارک کی تھی۔ اس غلط جگہ پر پارک کی گئی گاڑی کو اٹھا کر فٹ پاتھ پر رکھ دیا جاتا ہے یعنی لوگوں کے پیدل چلنے کی جگہ پر گاڑی رکھ دی جاتی ہے۔ بندہ پوچھے کیا فٹ پاتھ پر گاڑی کھڑی کرنا غلط پارکنگ سے کم جرم ہے؟ کیا عجب معاملہ ہے کہ گاڑی کے مالک کو غلط پارکنگ پر دو ہزار روپیہ جرمانہ ہو رہا ہے اور ٹریفک پولیس کو فٹ پاتھ روکنے کے عوض دو ہزار روپے کی آمدنی ہو رہی ہے۔ ایک غیرقانونی حرکت باعثِ جرمانہ ہے اور دوسری غیرقانونی حرکت باعثِ آمدنی و انعام ہے۔ ہائیکورٹ کا غلط پارکنگ پر دو ہزار روپے جرمانے کا حکم ملتان ٹریفک پولیس کیلئے گویا بندر کے ہاتھ میں بندوق والا معاملہ ہو گیا۔ چار لفٹر تھے اور پورا شہر‘ افسروں کو احساس ہوا کہ اس کاروبار کو مزید بڑھانا چاہیے۔ جیسے گاہکی بڑھ جائے تو دکان کا مالک سیلز مین بڑھا دیتا ہے۔ ملتان پولیس کے افسران نے آمدن کو مزید جلا بخشنے کیلئے پانچ عدد مزید لفٹر کرایہ پر لیے اور یہ تعداد اب نو ہو چکی ہے۔ یہ نو عدد لفٹر کس کیلئے کمائی کر رہے ہیں‘ اس کے بارے میں ایسی ایسی کہانیاں ہیں کہ بندہ پریشان ہو جاتا ہے۔ ملک میں رائٹ آف انفارمیشن نامی قانون تو موجود ہے مگر اس کیلئے عموماً عدالت جانا پڑتا ہے اور پولیس کے معاملے میں کوئی شخص اس حد تک جانے کیلئے تیار نہیں۔
ہر لفٹر کا دن کا ٹارگٹ 25چالان ہے۔ یہ وہ ٹارگٹ ہے جو ہر لفٹر کے سرپرست نے ہر لفٹر پر متعین ٹریفک وارڈن کو دے رکھا ہے۔ بقول ایک ٹریفک وارڈن کے اگر کوئی وارڈن کم چالان کرے گا تو دیہاڑی کے طے شدہ ٹارگٹ 50ہزار روپے فی لفٹر میں سے بقایا رقم اپنی جیب سے بھرے گا۔ یہ 25چالان یومیہ فی لفٹر تو کم از کم والا ٹارگٹ ہے زیادہ کی قید نہیں۔ یعنی ملتان شہر سے ہر روز صرف یہ نو لفٹر مبلغ چار لاکھ 50ہزار روپے کی دیہاڑی لگا رہے ہیں تاہم میاں لاہوری نے ان لفٹروں کی مانیٹرنگ پر اپنے دو تین برخورداروں کو کئی دن تک لگانے کے بعد بتایا کہ فی لفٹر روزانہ اوسطاً 35 چالان ہو رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ساری رقم سرکاری خزانے میں جمع ہو رہی ہے؟ ظاہر ہے کسی عام آدمی کی تو یہ مجال نہیں کہ پولیس سے اس معاملے پر آڈٹ کا مطالبہ کر سکے مگر یہ کام ہماری سرکار تو کر سکتی ہے کہ روزانہ کے چار لاکھ 50ہزار روپے یعنی ماہانہ ایک کروڑ 35لاکھ روپے سرکاری خزانے میں جمع بھی ہو رہے یا ان کے بارے میں جو کہانیاں زبان زد عام ہیں‘ وہ درست ہیں اور کہیں کا مال کہیں جا رہا ہے۔
گزشتہ روز میں ملتان کینٹ کے علاقے میں واقع ایک پلازہ سے اپنے ایک کام کے بعد واپس نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک لفٹر والا وارڈن ایک فیملی کو گھیرے کھڑا ہے۔ جب تک میں سڑک پر پہنچا وہ وارڈن اس گاڑی والے سے مبلغ دو ہزار وصول کرکے اسے رسید پکڑا چکا تھا۔ میں نے گاڑی والے سے معاملہ پوچھا تو علم ہوا کہ اس نے سڑک کنارے فٹ پاتھ کے پاس گاڑی کھڑی کی ہوئی تھی کہ وارڈن صاحب نازل ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ نے غلط پارکنگ کی ہے۔ اس نے کہا کہ اس طرح گاڑی روکنا پارکنگ شمار نہیں ہوتا کہ میں خود گاڑی میں موجود ہوں اور ضرورت پڑنے پر کسی بھی وقت گاڑی دائیں بائیں کر سکتا ہوں مگر وارڈن نے اسے دھمکایا کہ آپ بحث کر رہے ہیں‘ میں آپ کی گاڑی کی تصویر کھینچ کر ابھی اپنے سینئرز کو بھیجتا ہوں اور آپ کو سبق سکھاتا ہوں۔ نوجوان نے کہا کہ ادھر پارلنگ کی کوئی جگہ ہی نہیں تو وارڈن نے فرمایا کہ یہ میرا مسئلہ نہیں۔ چند دنوں کیلئے امریکہ سے پاکستان آئے نوجوان نے بدمزگی سے بچنے کیلئے دو ہزار روپے دیے اور ایک عدد رسید وصول کر لی۔
میں نے اپنی عادت سے مجبور ہو کر اس سے رسید دیکھنے کی فرمائش کی تو اس رسید پر 'Wrong Parking Lifter Carriage Fee‘لکھا ہوا تھا۔ یعنی یہ رسید ممنوع پارکنگ والے علاقے میں کھڑی ہوئی گاڑی کو فورک لفٹر سے اٹھا کر لے جانے کے جرمانے کی رسید تھی جو گاڑی میں بیٹھے ہوئے نوجوان کی گاڑی فورک لفٹر سے اٹھائے بغیر وصولی گئی تھی۔ رسید پرٹکٹ نمبر 17 اور PRO نمبر 33 تھا۔ اگر ایک کتاب میں سو ٹکٹ ہوں تو یہ رسید اب تک کل تین ہزار دو سو سترہ چالانوں کا ریکارڈ ظاہر کر رہی تھی۔ جبکہ یہ تعداد نوعدد لفٹر بحساب 25 چالان روزانہ کے مطابق محض پندرہ دن کی مار ہے۔
میں نے وارڈن سے پوچھا کہ یہ نوجوان گاڑی کہاں کھڑی کرتا؟ تو وارڈن نے جواب دیا: ساتھ والے پلازہ میں۔ میں نے کہا اُس پلازہ کی پارکنگ فل ہے اور پارکنگ ٹھیکیدار نے پارکنگ کا بیریئر بند کر رکھا ہے۔ وارڈن کہنے لگا: میرا کام چالان کرنا تھا‘ کر لیا۔ پارکنگ کی جگہ نہیں ہے تو میں کیا کروں؟ میں نے ملتان ٹریفک کے معاملات پر پی ایچ ڈی کے برابر تحقیق کے حامل اپنے ایک مہربان دوست سے پوچھا کہ پہلے تو ٹریفک جرمانے کی رقم بینک میں جمع ہوتی تھی اب نقد وصولی کس قانون کے تحت ہو رہی ہے؟ وہ کہنے لگا: دراصل ملتان پولیس کے افسران نے ایک نام نہاد ویلفیئر فنڈ بنا رکھا ہے اور جرمانے کی ساری رقم بظاہر اس ویلفیئر فنڈ میں جاتی ہے۔ اب اس فنڈ کے اغراض و مقاصد کیا ہیں‘ یہ کسی کو علم نہیں۔ میں نے ہنس کر کہا کہ یہ کیسی ویلفیئر ہے جو دوسروں کی جیب کاٹ کر کی جا رہی ہے؟ وہ دوست کہنے لگا: ہائیکورٹ کے حکم کو بنیاد بنا کر ہر عام بندے سے دو ہزار روپے فی گاڑی وصول کرنے والے یہ افسران ہائیکورٹ کے ساتھ والی سڑک کو روزانہ صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک بند کر کے وکیلوں کو غیرقانونی پارکنگ بنا کر پیش کرتے ہیں اور عام آدمیوں کیلئے سڑک سے گزرنا بند کر دیتے ہیں۔ ہائیکورٹ کے حکم کا ہائیکورٹ کے دروازے پر منہ چڑایا جا رہا ہے۔میں نے اسے کہا کہ لوگوں سے وصول کردہ جرمانوں کو سرکاری خزانے میں جمع کروانے کے بجائے اس سے اپنی ویلفیئر کی تنظیم چلانا اگر جرم نہیں تو پھر ملک ریاض کے جرمانے والے 190 ملین پاؤنڈز کو سپریم کورٹ کے جرمانے کی مد میں ایڈجسٹ کرنا کیسے جرم ہے؟ اس والے ویلفیئر ٹرسٹ اور القادر ویلفیئر ٹرسٹ میں کیا فرق ہے؟ وہ دوست کہنے لگا: تم اس قسم کے سوالات کرنے بند کر دو اس میں تمہارا فائدہ ہے‘ بعد میں پچھتانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں