آل پارٹیز کانفرنس، فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی: اسرائیل نسل کشی کا ذمہ دار، غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے ایوان صدر میں اے پی سی کا اعلامیہ

آل پارٹیز کانفرنس، فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی: اسرائیل نسل کشی کا ذمہ دار، غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے ایوان صدر میں اے پی سی کا اعلامیہ

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر، نامہ نگار، دنیا نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک، اے پی پی)ایوان صدر میں مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے آل پارٹیز کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا اسرائیل کو بین الاقوامی اور جنگی قوانین کی دھجیاں بکھیرنے اور نسل کشی کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ، غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے۔اے پی سی وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت پر مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور فلسطین کے موضوع پر ہوئی جس میں صدر اور وزیراعظم سمیت سیاسی جماعتوں کے سربراہ و رہنما شریک ہوئے۔

کانفرنس میں مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اے این پی کے رہنما ایمل ولی خان، جماعت اسلامی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمن، چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری اور دیگر جماعتوں کے سربراہوں نے شرکت کی۔ قومی ترانے کے بعد تلاوت سے کانفرنس کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ شیری رحمن نے کانفرنس کا ایجنڈا پیش کیا۔تحریک انصاف دعوت کے باوجود اے پی سی میں شریک نہیں ہوئی۔اے پی سی کے اعلامیہ میں کہاگیا اسرائیل خطے میں امن اور سکیورٹی کو تباہ اور اقوام متحدہ کے قوانین کی دھجیاں بکھیر رہا ہے ،مسئلہ فلسطین کو اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق حل ،غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کے مطالبے کے ساتھ فلسطینی لوگوں پر کیے جانے والے مظالم اور غزہ کے محاصرہ کو ختم کیا جائے ۔نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کثیرالجماعتی کانفرنس کا اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیاحال میں اسرائیل کی طرف سے لبنان میں کی جانے والی جارحیت، غزہ میں حملوں، حماس کے رہنمائوں کی تہران اور لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ کی شہادت خطے میں امن کی صورتحال کو خراب کررہی ہے ۔کانفرنس کے اعلامیے میں فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی غیر مشروط حمایت کا اعلان اور مسئلہ فلسطین کو اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا گیا۔

فلسطین کے لوگوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت اور بربریت کی مذمت کے عنوان سے کثیر الجماعتی کانفرنس میں 14 نکاتی قرارداد متفقہ منظور کی گئی جس میں اسرائیل کے نسل کشی کے اقدامات جس میں 40 ہزار سے زیادہ لوگ شہید کیے گئے اس کی پر زور مذمت کی گئی ۔ قرارداد میں سکولوں، ہسپتالوں، پناہ گزین کے کیمپوں عبادت گاہوں پر حملوں اور صحافیوں کو قتل کرنے کی بھی مذمت کی گئی۔قرارداد میں غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کے مطالبے کے ساتھ ساتھ فلسطینی لوگوں پر کیے جانے والے مظالم اور غزہ کے محاصرہ کو بھی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔ قرارداد میں غزہ میں بغیر کسی رکاوٹ کے طبی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے ، اسرائیل کو بین الاقوامی اور جنگی قوانین کی دھجیاں بکھیرنے اور نسل کشی کرنے پر ذمہ دار ٹھہرانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ عالمی برادری سے اسرائیل کو لبنان اور دیگر ممالک پر مزید مظالم ڈھانے اور خطے کو عدم استحکام کا شکار کرنے سے فوری طور پر روکنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔کل جماعتی کانفرنس نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)سے مطالبہ کیا فلسطین کی صورتحال، خطے میں اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت اور علاقائی امن و سلامتی پر اس کے مضمرات پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے ہنگامی سربراہی اجلاس بلایا جائے اور امت مسلمہ کے اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے ۔اعلامیہ میں کہا گیا پاکستان آزاد فلسطینی ریاست (جس کا القدس شریف دارالخلافہ ہو)کی حمایت کرتا ہے اور فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت حاصل ہو۔

29 نومبر کو فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے دن کے طور پر خصوصی جوش و خروش کے ساتھ منانے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔قبل ازیں اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت آصف زرداری نے کہا اسرائیل تمام قبضہ کیے گئے عرب علاقوں سے واپس جائے ، عالمی برادری فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے میں ناکام ہوئی ہے ۔ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے ، ہم اقوام عالم سے مطالبہ کرتے ہیں وہ اسرائیل کو جارحیت سے روکے ، ہم اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ ہر فورم پر اٹھاتے رہیں گے ۔صدر کا کہنا تھا متفقہ ڈرافٹ اور میرے دل کی آواز ،دونوں ساتھ ہیں، پاکستان کا فلسطین سے بہت تعاون رہاہے ۔انہوں نے کہا مسئلہ فلسطین سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق حل کیے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا، فلسطین کے 2 ریاستی حل کے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ آصف علی زرداری نے کہا اسرائیل اپنی جارحانہ کارروائیوں میں اضافہ کرتا جارہا ہے اور یہ خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے ۔وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور خونریزی کے فوری خاتمہ کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے کہا نہتے فلسطینیوں کے خلاف ظلم و بربریت پر عالمی ضمیر جاگنا چاہئے ، پاکستان کی حکومت بین الاقوامی سطح پر اسرائیلی مظالم کو بے نقاب کرنے اور فلسطین کے مسئلہ کے حل کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے ماہرین کا گروپ بنا کر دنیا کے اہم ممالک میں بھیجیں گے ، پاکستان فلسطینی عوام کو انسانی ہمدردی امداد کی فراہمی میں مزید تیزی لائے گا اور فلسطینی طلبا کو پاکستان کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے دیئے جائیں گے ۔

شہباز شریف نے کہا آل پارٹیز کانفرنس میں تمام شرکا سے حوصلہ افزا بات چیت ہوئی ہے ، قرارداد بھی اتفاق رائے سے منظور کی گئی ۔شہباز شریف نے کہا صدر کی جانب سے اس کانفرنس میں شرکت پر تمام رہنمائوں کا شکرگزار ہوں، سیاسی و مذہبی زعما کا اجتماع اس بات کی گواہی ہے کہ جب بھی پاکستان کو کسی بھی چیلنج کا سامنا ہوا، چاہے وہ اندرونی ہوں یا بیرونی ، پوری سیاسی اور مذہبی قیادت اکٹھی ہوئی اور یک زبان ہو کر نہ صرف اپنے جذبات کا اظہار کیا بلکہ ٹھوس تجاویز پیش کیں اور اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بھرپور تعاون کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا القدس شریف کے دارالخلافہ کی حامل آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالہ سے کانفرنس کے شرکا میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا پوری قوم فلسطینیوں پر بدترین مظالم اور خونریزی کی مذمت کرتی ہے ، فلسطینی بچوں اور خواتین کو شہید کیا جا رہا ہے ، شہر بھسم ہو گئے ، بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں، وادی کشمیر میں معصوم کشمیریوں کا خون بہایا جا رہا ہے ، وادی کشمیر مظالم اور بربریت کے باعث خون سے سرخ ہو چکی ہے ۔ انہوں نے کہا سوڈان کی تقسیم، مشرقی تیمور کے معاملات طے کرنے کیلئے عالمی طاقتوں نے تمام حربے استعمال کئے ، کیا مسلمانوں کا خون ان کے خون سے سستا ہے ۔ انہوں نے کہا آج عالمی ضمیر کو جاگنا چاہئے ۔

انہوں نے کہا دنیا کو اس معاملہ پر قائل کرنے کیلئے کانفرنس میں جو تجاویز پیش کی گئی ہیں ان سے متفق ہوں، فلسطینیوں کی خونریزی بند کرانا ہمارا فرض اولین ہے اور اس کیلئے ہمیں او آئی سی کے پلیٹ فارم سے آواز اٹھانا ہو گی، اس کانفرنس میں اسرائیلی مظالم کے خلاف قرارداد منظور کرائیں گے ،دنیا کو آگاہ کریں گے یہ ظلم و زیادتی کبھی فراموش نہیں کی جائے گی اور زخم کبھی نہیں بھریں گے ۔ انہوں نے کہا سب سے پہلے جنگ بندی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اس کیلئے ہمیں بھرپور آواز اٹھانی چاہئے ۔انہوں نے کہا ہمیں ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے ، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ کرنا ہے ، ہماری آواز دنیا میں اس وقت سنی جائے گی جب ہم خود کو مل کر قوم بنائیں گے ۔انہوں نے کہا اس کانفرنس میں بھرپور قومی یکجہتی کا ثبوت دیا گیا، کانفرنس کے فیصلوں پر تیزی سے عملدرآمد کیا جائے گا، دعا ہے اﷲ تعالیٰ فلسطین میں خونریزی بند کرانے میں ہماری مدد فرمائے اور فلسطین کو آزادی عطا فرمائے ۔صدر مسلم لیگ ن نواز شریف نے کہا نہتے فلسطینیوں پر بے دردی کے ساتھ ظلم ڈھایا جا رہا ہے ، یہ تاریخ کی بدترین مثال ہے ، بچوں کی خون آلودہ تصاویردیکھ کردل خون کے آنسو روتا ہے ، غزہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے ، ماؤں کی گود سے بچے چھین کر شہید کیے جارہے ہیں۔ان کا کہنا تھا ایسا ظلم زندگی میں نہیں دیکھا، اقوام عالم کی اس حوالے سے عجیب قسم کی خاموشی ہے ، اسرائیل نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے ، اقوام متحدہ بالکل بے بس بیٹھی اور دنیا خاموش ہے ، شہباز شریف نے جنرل اسمبلی میں فلسطینیوں کا مقدمہ لڑا، سب نے ان کی تقریر کو سراہا۔

سابق وزیراعظم نے کہا غزہ کی صورتحال بہت افسوس ناک ہے ، اقوام متحدہ اپنی ہی قراردادوں پرعملدرآمد کرانے میں ناکام ہے ، ایسی یواین او کا کیا فائدہ جوظلم کونہ روک سکے ، فلسطینیوں کا خون رنگ لائے گا۔ انہوں نے کہا عالم اسلام کوفیصلہ کن اقدامات کرنے چاہئیں،اسلامی ممالک کے پاس بہت بڑی قوت ہے ، اسلامی ممالک اپنی قوت کا استعمال آج نہیں کریں گے تو کب کریں گے ؟۔ نواز شریف نے کہا سب کواکٹھے ہوکرایک پالیسی بنانی پڑے گی، اگرہم نے کچھ نہ کیا توپھراسی طرح ماؤں،بہنوں کوشہید ہوتا دیکھتے رہیں گے ، اسرائیل کے پیچھے عالمی طاقتوں کو بھی سوچنا چاہیے ، صدرمملکت کی تجویز سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں، ہمیں اپنی سفارشات مرتب کرنے کے بعد اسلامی دنیا سے رابطہ کرنا چاہیے ۔ان کا کہنا تھا اسرائیلی جارحیت کے خلاف خاموشی اختیارکرنا انسانیت کی ناکامی ہے ۔جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا اسرائیل کی قابض ریاست کا قیام 1917 میں برطانیہ کے وزیر خارجہ کے جبری معاہدے کے نتیجے میں ہوا اور اس کے بعد فلسطین میں یہودیوں کی بستیاں قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ پاکستان نے 1940 کی قرارداد میں فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیوں کے قیام کی مخالفت کی جب اسرائیل قائم ہوا تو قائداعظم محمد علی جناح نے اسے ناجائز بچہ قرار دیا۔

اب اس مسئلہ کے حل کیلئے دو ریاستی حل کی بات ہورہی ہے یا فلسطینی ریاست کے قیام کی بات ہو رہی ہے ۔انہوں نے کہا جمعیت علمائے اسلام دوریاستی حل کی حمایت نہیں کرے گی، دوریاستی حل کا جواز نہ شرعی، نہ سیاسی اور نہ جغرافیائی طور پر ممکن ہے ۔مولانا فضل الرحمن نے کہا امت نے ایک سال کے دوران جس بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے وہ جرم ہے ، امت کی بے حسی کے جرم میں پاکستان بھی برابر کا شریک ہے ، کیا ہمیں اس کا احساس ہے ؟ اس کانفرنس کی قرارداد سے فلسطینیوں کے دکھوں کا ازالہ نہیں ہوگا، فلسطینی بھائیوں کو ہمارے زبانی جمع خرچ کی ضرورت نہیں ہے ۔انہوں نے کہا حماس اسلام دشمنوں کی نظر میں دہشتگرد ہوگی، ہماری نظر میں نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا مسئلہ فلسطین پر سعودی عرب یا پاکستان امت مسلمہ کو لیڈ کرے ، پاکستان، مصر، ترکی، انڈونیشیا اور دیگر مسلم ممالک سے مل کر ایک مشترکہ حکمت عملی بنائے ، یہ اجلاس معنی خیز ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں مسئلہ فلسطین کو اٹھایا جائے ۔مولانا فضل الرحمن نے کہا ہم نے اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اس انداز میں ہمدردی نہیں دکھائی جس طرح انہوں نے ہمیں مدد کے لیے پکارا ۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہادو ریاستی حل کی بات کا مطلب پاکستان کے اسرائیل سے متعلق اصولی موقوف سے پیچھے ہٹنا ہے اس پلیٹ فارم سے صرف ایک آزاد فلسطینی ریاست کا پیغام جانا چاہیے ،قائد اعظم کا بھی یہی مؤقف تھا اسرائیل صرف ایک قابض طاقت ہے ، دو ریاستی حل یا 1967 کی پوزیشن کی حمایت قائد اعظم کے اصولی مؤقف کی نفی ہے ۔

انہوں نے کہا فلسطینی اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق قبضے کیخلاف لڑ رہے ہیں، دو ریاستی حل کی بات اسرائیل کو قائم رہنے کا جواز فراہم کرنا ہے ، اسرائیل کو عرب اور مسلم ممالک کی خاموشی نے طاقت فراہم کی ہے ، ہم اعلان بالفور اور یہودیوں کو فلسطین پر مسلط کرنے کو نہیں مانتے ۔حافظ نعیم نے وزیر اعظم سے درخواست کی مسلم ممالک کے سربراہوں کا اجلاس بلائیں، ان ملکوں کی افواج کے سربراہوں کو بھی بلائیں، فلسطینیوں کی امداد بڑھانی ہوگی، فلسطینی بچوں کی تعلیم کا انتظام کرنا ہوگا۔انہو ں نے کہا کانفرنس کے اعلامیے میں دو ریاستی حل اور 1967 کی پوزیشن کی بات نہیں ہونی چاہیے ، اسرائیل کا ایک انچ کا وجود بھی تسلیم نہیں کریں گے ۔چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا اسرائیل کی تقریر کے دوران بائیکاٹ شہباز شریف کا دلیرانہ فیصلہ تھا ، مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے سیاسی اور سفارتی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں، کچھ بین الاقوامی قوتوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ پاکستان کے سیاست دان ایک پیچ پر نہیں ،ہم واضح پیغام دینا چاہتے ہیں ، فلسطین بہنوں اور بھائیوں کیساتھ کھڑے ہیں۔انہوں نے کہا پوری دنیا کو پاکستان ایک غریب ملک کے طور پر نظر آتا جہاں پر معاشی مسائل ہیں اور دہشت گردی کے خطرات ہیں لیکن جہاں فلسطین کا مسئلہ ہوگا وہاں ہر پاکستانی ایک ہوگا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا میں غیرمسلم ممالک کو سلام کرتا ہوں جنہوں نے نسل کشی کے خلاف اصولی موقف اپنایا ہے ، وزیرخارجہ اور وزیراعظم کے سامنے بہت بڑا چیلنج ہے ، تمام سیاسی جماعتوں کا آپ کو بھرپور تعاون حاصل ہے ، پیپلز پارٹی اس حوالے سے ہمیشہ آپ کی مدد کو تیار رہے گی۔انہوں نے کہا اگر اس مقدمے کو پوری دنیا کے سامنے اٹھانا ہے تو اس کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتیں بھرپور ساتھ دیں گی اور کوئی پیچھے نہیں ہٹے گا، ہم سیاسی جنگ لڑنے کیلئے تیار ہیں اور اگر خدانخواستہ وزیراعظم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ باقاعدہ جنگ کی ضرورت ہے تو اس کانفرنس میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ آپ کا ساتھ دیں گے ۔عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی نے کہا فلسطین کے ساتھ ہم کشمیر کی آزادی کی بات بھی کریں گے ، ہمیں سوچنا ہوگا کہ یہ ظلم کیسے بند ہوگا۔مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم)کے سربراہ علامہ راجا ناصر عباس نے کہا کوئی شک نہیں اسرائیل ایک غیر قانونی ریاست ہے ،فلسطین پر اسرائیل نے ناجائز قبضہ کیا ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے کہا اسرائیل کی مذ مت ہم کرچکے ، مرمت ہم کر نہیں سکتے لہذا عملی اقدامات کا اعلان کیا جائے ۔ایم کیو ایم سربراہ نے کہا وزیر اعظم شہباز شریف اعلان کریں پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں فلسطین کے بچوں کو سپانسر کریں۔

استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان نے کہا اسرائیلی بربریت کو ایک سال ہوچکا، اہل فلسطین کیلئے ہم نے واقعی کچھ نہیں کیا، سیاست ضرور کریں، لیکن ملک کو پہلے رکھیں۔ انہوں نے کہا دنیا بے حس ہوچکی ہے ، اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران بھی فلسطینی بچوں کا قتل عام جاری رہا۔دو ریاستی حل کا فلسطینوں کا مطالبہ نہیں۔ق لیگ کے چودھری سالک حسین نے کہا دو ریاستی حل کی مخالفت نعروں میں بہتر ہے ، حقائق دیکھ کر پلاننگ ہونی چاہئے ۔ خالد مگسی نے کہا اہل فلسطین کامیاب ہورہے ہیں۔ جان محمد بلیدی نے کہا یواین کا ادارہ ناکام ہو گیا ۔علامہ طاہر اشرفی نے کہا اے پی سی امت کی ترجمانی ہے ۔ ثروت قادری نے کہا فلسطین میں فوری امداد کی ضرورت ہے ۔دوسری طرف تحریک انصاف کا کوئی رہنما بھی کانفرنس میں شریک نہیں ہوا۔ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے بتایا ہمیں فلسطین پر اے پی سی میں شرکت کی دعوت ملی ہے ۔ انہوں نے کہا پارٹی رہنما اور کارکن گرفتار ہیں اور ان حالات میں اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں