پاکستان میں کرپٹو کے کاروبار، لائسنسنگ کیلئے مزید 3 ماہ درکار : مائننگ کیلئے 2 ہزار میگاواٹ سستی بجلی دینے کا فیصلہ
اسلام آباد (ذیشان یوسفزئی) حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ کرپٹو کرنسی کے کاروبار کو فروغ دیا جائے اور کرپٹو مائننگ کے لیے 2 ہزار میگاواٹ سستی بجلی فراہم کی جائے گی۔
کرپٹو سے متعلق ایک اعلیٰ عہدیدار نے روزنامہ دنیا کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس شعبے کی لائسنسنگ، کاروباری قواعد کی بحالی اور دیگر عمل مکمل کرنے میں کم از کم تین ماہ لگیں گے کیونکہ حکومت فیٹف، آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے قوانین و معیارات کو مدنظر رکھ رہی ہے تاکہ پاکستان کو عالمی سطح پر مالی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ذرائع کے مطابق، جہاں دنیا میں کرپٹو کرنسی قانونی ہے یا اس پر قانونی حیثیت دینے کا کام ہو رہا ہے ، پاکستان وہاں کے ساتھ بات چیت اور رہنمائی حاصل کر رہا ہے۔ وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے کرپٹو مختلف ممالک کے دورے بھی کر رہے ہیں تاکہ وہاں پاکستانی منصوبے سے متعلق آگاہی دی جا سکے ۔حکومت نے کرپٹو کرنسی کے لیے نیپرا اور اوگرا کی طرز پر پاکستان ورچوئل ایسٹس ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، جسے آرڈیننس کے ذریعے قانونی تحفظ دیا جائے گا۔ یہ اتھارٹی کرپٹو کی لائسنسنگ، ریگولیشن، ورچول ایسٹس سروس پرووائیڈرز، قوانین اور تمام متعلقہ امور کی نگرانی کرے گی۔
اتھارٹی کا بورڈ وفاقی حکومت کے مقرر کردہ چیئرمین کی سربراہی میں گورنر اسٹیٹ بینک، سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری قانون، سیکرٹری آئی ٹی، چیئرمین ایف بی آر، چیئرمین ڈیجیٹل پاکستان اتھارٹی، چیئرمین ایس ای سی پی، ڈی جی ایف آئی اے اور دو آزاد ڈائریکٹرز پر مشتمل ہوگا۔ بورڈ پالیسی سازی اور روزمرہ کے امور چلائے گا۔غلط استعمال کی روک تھام کے لیے اتھارٹی ملکی و غیر ملکی ایجنسیوں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرے گی، جبکہ منی لانڈرنگ سے بچاؤ کے لیے صارفین کی ٹرانزیکشن ہسٹری اور ریکارڈ رکھے جائیں گے ۔ اتھارٹی فیٹف کے معیارات کے مطابق گائیڈ لائنز تیار کرے گی، لائسنس یافتہ افراد کی ریئل ٹائم معلومات تک رسائی رکھے گی، اور سائبر حملے کی صورت میں بروقت اطلاع دینا لازمی ہوگا۔آرڈیننس کے تحت، غیر لائسنس یافتہ ورچول ایسٹس فراہم کرنے پر سات سال قید یا پانچ کروڑ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔ اتھارٹی کے سامنے غلط بیانی کرنے پر تین سال قید یا دو کروڑ روپے جرمانہ یا دونوں کی سزا ہوگی۔ ہر لائسنس یافتہ ادارہ ایف بی آر میں اپنے ریٹرن جمع کرانے کا پابند ہوگا۔