قومیں احساس برتری میں تو اکثر مبتلا نظر آتی ہیں مگر جس انداز میں امریکی قوم کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ دنیا بھر میں نہ صرف سب سے بہتر قوم ہے بلکہ ہر لحاظ سے اور زندگی کے ہر شعبے میں ایک خاص انفرادیت بھی رکھتی ہے‘ اس کی مثال کرۂ ارض پر نہیں ملتی۔ دیگر قومیں دل ہی دل میں یا اپنی نجی محفلوں میں ضرور اپنے آپ کو برتر قوم باور کرتی ہیں مگر کسی بھی بین الاقوامی پلیٹ فارم پر یا ملکوں کے مابین گفت و شنید میں یا پھر معاہدات کرتے وقت کوئی قوم کبھی یہ تاثر نہیں دیتی کہ وہ دیگر قوموں کی نسبت کوئی برتر قوم ہے۔ ہمارے ہمسائے میں بھارت کا آئین تو سیکولر ہے مگر براہمنوں کی قیادت میں ہندو قوم کا جو تصور بھارت میں بسنے والے ہندوئوں کے دلوں میں موجزن رہتا ہے‘ اس میں موجود احساس برتری ایک مسلمہ حقیقت ہے مگر کبھی آپ نے نہیں سنا ہوگا کہ بھارت نے کسی بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اپنے آپ کو ایک برتر قوم قرار دیا ہو۔ اسی طرح دیگر ملکوں کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ امریکی البتہ اپنے آپ کو برتر قوم قرار دینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔
آج بھی آپ خبریں سنتے ہیں کہ دنیا کے جس حصے میں بھی امریکی فوجی موجود ہیں وہ وہاں ایک ایسے معاہدے کے تحت موجود ہیں‘ جس کے مطابق امریکہ سے باہر کہیں بھی کوئی امریکی کیسا بھی جرم کرے‘ اس پر مقامی قانون لاگو نہیں ہوگا اور یہ حقیقت ہے کہ امریکی حکومت نے کبھی ایسا ہونے نہیں دیا کہ کوئی امریکی فوجی کسی دوسرے ملک کے قانون کے حوالے ہو جائے۔ ایک آدھ استثنا ممکن ہے مگر اس کی وجوہ بھی ہوں گی لیکن یہ طے ہے کہ American Exceptionalism باقاعدہ حقیقت کے طور پر دنیا میں موجود ہے اور اس کا برملا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے۔ ایک دور میں جب دنیا میں اشتراکیت بہت تیزی سے پھیل رہی تھی اور کارل مارکس نے تاریخِ انسانی کے جو قوانین بیان کیے تھے ان کا ہر طرف چرچا تھا‘ اس دور میں بھی امریکہ میں قائم کمیونسٹ پارٹی کے ایک دھڑے کا موقف تھا کہ ان پر کارل مارکس کے بیان کردہ قوانین اس لیے لاگو نہیں ہوتے کیونکہ امریکہ کے قدرتی وسائل اور صنعتی ترقی کرنے کی صلاحیت دیگر ملکوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے اور یہاں اشرافیہ اور عام آدمی کی کوئی تخصیص موجود نہیں ہے۔ گویا امریکہ ہر لحاظ سے دنیا کے دیگر ملکوں سے برتر ہے اور اسی احساسِ برتری کی وجہ سے اس ملک میں اشتراکی انقلاب کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یعنی انقلاب کے لوازمات امریکی معاشرہ پہلے ہی پورے کر چکا ہے۔
اگرچہ ایک مختلف انداز میں صدر اوباما امریکی احساسِ برتری کا ذکر اپنی تقریروں میں کرتے رہتے ہیں مگر جارج بش نے 2003ء میں عراق پر جو بلاجواز حملہ کیا تھا اس کو اصلی امریکی احساسِ برتری کا مظاہرہ کہا جاتا ہے۔ ہوا یہ تھا کہ عراق پر حملے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے قرارداد تک منظور نہ ہو سکی تھی کیونکہ فرانس اس اقدام کے خلاف تھا مگر پھر بھی امریکہ نے حملہ کردیا تھا اور اب تک امریکہ اس حملے کو جائز سمجھتا ہے۔
اگر آپ تحقیق کریں تو آپ کو امریکہ کے اس مخصوص طرز عمل کی مکمل تاریخ مل جائے گی اور اس کی وجوہ میں آپ کو امریکی سکالروں کے بیان کیے ہوئے ایسے ایسے فلسفے ملیں گے کہ عقل دنگ رہ جائے گی۔ کوئی کہتا ہے کہ امریکہ میں چونکہ فیوڈلزم نہیں ہے اور کبھی رہا بھی نہیں تو اس سے یہ طرزِ عمل پیدا ہوا ہے۔ کوئی یہ رائے رکھتا ہے کہ آزادی‘ مساوات‘ آئینی حقوق اور عام آدمی کی فلاح و بہبود کے بے مثال کاموں کی وجہ سے امریکی ایک برتر قوم بن گئے۔ اس ضمن میں بعض سکالر آپ کو جیفرسن جیسے بانیان امریکہ کی تقریروں کے حوالے دیتے بھی دکھائی دیں گے۔
غرض بڑی لمبی بحث ہے۔ نتیجہ کیا ہے کہ امریکی خود کو برتر سمجھتے ہیں۔
میری رائے میں امریکی قوم کو جو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ دیگر اقوام سے الگ اور منفرد ہیں اس کی بنیاد یہودیوں کے اس اعتقاد میں ڈھونڈنی چاہیے کہ وہ پروردگار کی ایک خاص منتخب قوم ہیں۔ اگر آپ امریکی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس ملک کی بنیاد سازی میں جن اہم لوگوں نے کردار ادا کیا‘ ان میں کئی Free Mason تھے اور علی الاعلان اپنے آپ کو فری میسن کہتے تھے۔ فری میسن تحریک کی اپنی ایک جدا تاریخ ہے مگر اس کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر یہودیوں کی تحریک ہے۔ امریکہ میں کافی تعداد میں جو پروٹسٹنٹ فرقے کے عیسائی رہتے ہیں ان پر یہودیوں کے اعتقادات کا بڑا گہرا اثر پایا جاتا ہے وہاں Neoکنزرویٹو اس کی واضح مثال ہیں۔
بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ میں جب یورپ سے آنے والے مسیحی‘ مقامی طور پر آبادریڈانڈینز کو ختم کر رہے تھے تو ان کو بھی نظریاتی بنیاد یہودی اعتقادات کے زیر اثر یہ کہہ کر فراہم کی گئی تھی کہ یورپ سے امریکہ آنے والے‘ پروردگار کے حکم سے امریکہ اسی طرح آئے ہیں‘ جس طرح حضرت موسیٰؑ کے دور کے فوراً بعد بنی اسرائیل‘ فلسطین پر قبضہ کرنے آئے تھے کیونکہ یہودیوں کے خدا نے بنی اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کر کے فلسطین کی موعودہ سرزمین اُن کو دے دی تھی اور ساتھ ہی اُن کو اجازت بھی دے دی تھی کہ وہاں کی مقامی آبادی جس کو Gentiles کہتے تھے‘ ختم کردیا جائے۔
اس تھیوری کے مطابق یورپ سے آنے والی اقوام نے امریکہ کو پروردگار کی طرف سے دی گئی موعودہ سرزمین باور کر کے مقامی ریڈ انڈینز کا اسی طرح صفایا کیا جس طرح ہزاروں برس پہلے بنی اسرائیل نے فلسطین میں آباد جینٹائلز کا کیا تھا۔ فلسطین کے جینٹائلز کی تعداد البتہ ریڈ انڈین لوگوں کی نسبت بہت کم تھی۔
کسی قوم کی اجتماعی نفسیات میں جب اس قسم کے نظریات موجود ہوں تو وہاں احساسِ برتری کا تصور کوئی عجیب بات نہیں ہونی چاہیے۔ امریکی صدر اوباما غالباً دل سے امریکی احساسِ برتری کے قائل نہیں مگر ان کی مجبوریاں بھی تو ہیں۔ کچھ برس پہلے امریکی صدر اوباما نے ایک اخبار نویس کے سوال کے جواب میں یہ کہہ دیا تھا کہ وہ امریکی احساسِ برتری میں اسی طرح یقین رکھتے ہیں جس طرح برطانیہ کے لوگ برطانوی اور یونان کے لوگ یونانی احساسِ برتری میں۔ صدر اوباما نے کوشش کی تھی کہ امریکی استثنائیت کی اصطلاح کے ساتھ جو دنیا کی اقوام میں امریکی قوم کی احساسِ برتری ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کو عام حب الوطنی کا مفہوم دے دیا جائے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ صدر اوباما کے اس بیان پر فوراً ہی اس دور میں ان کے انتخابی حریف مٹ رومنی نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ صدر اوباما کے اس بیان کا مطلب ہے کہ وہ امریکی احساسِ برتری میں یقین نہیں رکھتے۔ اسی طرح امریکہ ہی میں کئی دیگر رہنمائوں نے بھی صدر اوباما کے اس بیان کو ہدف تنقید بنایا تھا۔
گویا واضح طور پر دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ بھلے امریکہ کا صدر‘ امریکی احساسِ برتری کو حب الوطنی کا ایک اظہار سمجھنے کی بات کردے مگر حقیقت یہ نہیں ہے۔ حقیقت ان امریکیوں کے نزدیک یہی ہے کہ امریکہ قدرتی طور پر ہی منفرد ہے۔ پھر گزشتہ برس اوباما نے اپنے ایک بیان میں احساسِ برتری کے حب الوطنی کا جذبہ ہونے سے ذرا آگے بڑھ کر کہا کہ امریکی اپنی تھوڑی بہت کوشش سے بچوں کو زہریلی گیس سے ہلاک ہونے سے بچا کر اپنے بچوں کو مزید محفوظ بنانے کی جب صلاحیت اپنے اندر محسوس کرتے ہیں اور وہ ایسا کر بھی گزرتے ہیں تو یہ علم ان کو ایک مختلف قوم کے طور پر پیش کرتا ہے اور ان کے بقول یہی امریکی احساسِ برتری ہے۔ اس کا جواب روس کے صدر پوٹن نے یہ دیا تھا کہ لوگوں کی اس بارے میں حوصلہ افزائی کرنا ایک خطرناک بات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سب ایک دوسرے سے مختلف ضرور ہیں مگر یاد رکھنا چاہیے کہ پیدا کرنے والے نے ہم سب کو برابر پیدا کیا ہے۔