"ARC" (space) message & send to 7575

مقدار اور معیار

میڈیا میں بے اندازہ پھیلائو آ جانے کے بعد مقدار بہت بڑھ گئی ہے اور معیار برائے نام رہ گیا ہے۔ یہ قومی سطح پر بدقسمتی ہے کیونکہ اگر سوچ سمجھ والی باتوں کا کوئی معیار باقی نہ رہے تو قوم کا مجموعی آئی کیو یعنی ذہانت کا معیار ہی کم ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔
آج کل جو لوگ ٹیلی ویژن پر یا ریڈیو پر آتے ہیں، کیا اُن کے بارے میں پوری ذمہ داری سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ مکمل تیاری کے ساتھ آتے ہیں۔ یعنی انہوں نے جس موضوع پر بات کرنی ہوتی ہے اس کی مکمل ریسرچ کر کے آتے ہیں۔ ایسا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے؛ حالانکہ ماضی کی نسبت ریسرچ کی اب بہت بہتر سہولتیں موجود ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے منٹوں میں آپ کی رسائی درکار معلومات تک ہو جاتی ہے، لیکن یہ ایک المیہ ہے کہ انٹرنیٹ ہمارے بیشتر ''دانشوروں‘‘ کا منہ تکتا رہتا ہے اور جو کچھ اُن کے حافظے میں ہوتا ہے وہ اسی کے سہارے کام چلاتے دکھائی دیتے ہیں۔
ماضی میں ہمارے دانشوروں اور پڑھے لکھے لوگوں کو اگرچہ انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں تھی پھر بھی وہ لائبریریوں میں بیٹھ کر درکار معلومات حاصل کر لیتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ریڈیو میں ایک شعبہ تقاریر ہوتا تھا۔ اس کو سب 'ٹاکس سیکشن‘ کہتے تھے۔ ہر ریڈیو سٹیشن سہ ماہی ٹاکس شیڈول بناتا تھا جس میں مختلف موضوعات پر متعلقہ دانشوروں کی تقاریر لکھنے اور اُن کو معینہ وقت پر نشر کئے جانے کا پورا نقشہ ہوتا تھا، جس کی منظوری قبل از وقت صدر دفتر سے لی جاتی تھی۔ متعلقہ مقررین جنہیں 'ٹاکرز‘ کہتے تھے، اُن کو تحریری طور پر درخواست کی جاتی تھی کہ وہ دیے گئے موضوع پر تقریر تیار کر کے فلاں تاریخ کو ریکارڈنگ کے لیے ریڈیو اسٹیشن آ جائیں۔
میں مارچ 1971ء میں کراچی ریڈیو سے ٹرانسفر ہو کر لاہور آیا تو مجھے 'ٹاکس سیکشن‘ میں تعینات کر دیا گیا۔ کراچی میں مَیں نے ڈرامہ سیکشن یا پھر کرنٹ افیئرز سیکشن میں کام کیا ہوا تھا، لہٰذا مجھے اس بارے میں معلوم نہیں تھا کہ کسی موضوع پر تقریر لکھنا کس قدر جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے بشرطیکہ موضوع کے ساتھ انصاف کیا جائے۔
اس سلسلے میں پہلے مقرر جن کی تقریر ریکارڈ کر کے نشر کرنا میری ذمہ داری تھی وہ معروف دانشور سید وقار عظیم تھے اور موضوع تھا ''برصغیر میں سٹیج ڈرامے کی روایت‘‘۔ میں نے وقار عظیم صاحب کا نام سن رکھا تھا۔ جس روز ریکارڈنگ کرنا تھی وہ تشریف لائے تو اُن سے سلام دعا ہوئی۔ انہوں نے تقریر کا مسودہ میرے حوالے کیا اور کہنے لگے اگر آپ برا نہ مانیں تو بذل حق محمود صاحب کے کمرے میں بیٹھ جائوں۔ مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ لیکن مجھے حیرت ضرور ہوئی کیونکہ بذل حق محمود پروگرام آرگنائزر تھے، مگر وہ کچھ نارمل نہیں لگتے تھے، تھوڑا سا رعشہ ہاتھ پائوں میں رہتا تھا۔ بولتے بھی صاف نہیں تھے، بعض اوقات بات بھی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔
یہ سب سوچتے ہوئے میں سید وقار عظیم صاحب کی لکھی ہوئی تقریر پڑھ رہا تھا اور جوں جوں پڑھ رہا تھا مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ برصغیر میں سٹیج ڈرامے کی تاریخ کے مختلف مناظر میرے سامنے سے گزر رہے ہیں۔ اتنی زیادہ ریسرچ کی ہوئی تھی کہ کسی پہلو سے کوئی تشنگی محسوس نہ ہوئی۔ جب میں نے ساری تقریر پڑھ لی تو سمجھیں ایک طرح سے برصغیر میں سٹیج ڈرامے کی تاریخ سے مکمل طور پر واقف ہو چکا تھا، لیکن ایک طالب علم کی سطح پر۔
ریڈیو میں دستور تھا کہ پروڈیوسر تقریر پڑھنے کے بعد اس کو اپنے افسر جوکہ پروگرام آرگنائزر ہوتا تھا، اُس سے منظور کرواتا تھا۔ اس کو Vetting کہتے ہیں۔ میں تقریر اپنے پروگرام آرگنائزر کے پاس لے گیا۔ ہر محکمے میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں، یہ ہمارے افسر ذرا سخت مزاج کے تھے۔ مسودہ دیکھتے ہی کہنے لگے ''یہ دس منٹ سے زیادہ لگتی ہے، جو ٹاکر آئے ہیں اُن سے کہیں مختصر کر دیں‘‘۔ پھر بولے '' لائو ادھر‘‘۔ تقریر کو سرسری سے انداز میں پڑھنے لگے اور ایک دو منٹ میں پڑھ کر تین پیراگراف پر نشان لگا دیے اور کہا کہ یہ نکال دو اور ساتھ ہی دستخط بھی کر دیے۔
میں نے چونکہ تقریر پورا دل لگا کر پڑھی تھی، میرا جی نہیں چاہا کہ میں یہ اطلاع وقار عظیم صاحب کو دوں۔ میں واپس کمرے میں آیا تو وہاں میرے ساتھ والی میز پر میرے ایک سینئر ساتھی پروڈیوسر بھی دفتر آ گئے تھے۔ بولے بھئی وہ وقار عظیم صاحب آپ کو پوچھ رہے تھے۔ میں نے کہا کہ وہ تو خود ہی بذل حق محمود صاحب کے کمرے میں چلے گئے تھے۔ یہ جملہ میں نے اس انداز سے کہا جس میں اس امر پر حیرت کا اظہار تھا کہ آخر بذل حق صاحب سے وقار عظیم صاحب کا کیا واسطہ ہو سکتا ہے۔
اس پر میرے ساتھی پروڈیوسر نے بتایا کہ بذل حق محمود صاحب بہت پڑھے لکھے اور علم دوست شخص ہیں۔ ان کی المناک داستان یہ ہے کہ پڑھنے کا اس قدر شوق تھا کہ سوتے بھی نہیں تھے۔ کسی نے ان کو ایسی گولیاں لا دی تھیں جن سے نیند نہیں آتی۔ کافی عرصہ وہ گولیاں کھانے سے حالت یہ ہو گئی کہ نیند آنا بالکل بند ہو گئی، پھر ان کو سونے کے لیے نیند کی گولیاں کھانا پڑتی تھیں۔ پھر نیند کی گولیاں کھاتے کھاتے نشہ آور ادویات کے عادی ہو گئے اور یہ حالت ہو گئی۔ بولے کہ وقار عظیم صاحب غالباً بذل حق صاحب کو اُس وقت سے جانتے ہیں جب یہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہوتے تھے۔ تم جائو بذل حق صاحب کے کمرے سے وقار عظیم صاحب کو بلا لائو اور ریکارڈنگ کرو ورنہ سٹوڈیو کا ٹائم نکل جائے گا۔ یہاں میں نے اپنی مصیبت بیان کیا۔ مسودہ ان کو دکھایا اور کہا کہ کس منہ سے ایسی پرمغز تحریر کو کاٹنے کی بات کروں۔ میرے ساتھی پروڈیوسر بہت جہاندیدہ اور تجربہ کار تھے۔ بولے تم پوری ریکارڈ کرو، ہرگز مت کاٹو، اگر کچھ ہوا تو دیکھ لیں گے۔ میں نے کہا کیسے دیکھ لیں گے؟ بولے اس تقریر کے بعد میرا پروگرام ہے، تم ریکارڈ کر کے مجھے بتا دینا کہ تقریر دورانیے سے کتنی زیادہ ہے، میں اپنا پروگرام اتنا ہی کم کر دوں گا۔ میں نے پوچھا ایسا ہو جاتا ہے؟ بولے ہو جاتا ہے بھائی۔ اگر فرض کرو شکایت بھی ہو گئی تو جو بڑا افسر بھی یہ تقریر پڑھے گا وہ تمہیں قصوروار نہیں گردانے گا‘ یہ ریڈیو ہے میاں۔ یہاں افسری علم و ادب کے تابع رہتی ہے۔ خیر میری جان میں جان آئی۔ میں نے جا کر سید وقار عظیم صاحب کو ساتھ لیا۔ سٹوڈیو میں جا کر تقریر ریکارڈ کی۔ تقریر دس منٹ کے بجائے ساڑھے چودہ منٹ میں ختم ہوئی اور پوری کی پوری نشر ہوئی۔ کوئی شکایت بھی نہ ہوئی۔
میں جب سید وقار عظیم کی اس تحریر کو یاد کرتا ہوں اور اس محنت کو ذہن میں لاتا ہوں جو موصوف نے تقریر لکھتے ہوئے کی تھی تو میں حیرت زدہ ہو جاتا ہوں کہ کیسے لوگ تھے جو ہم سے محض ایک نسل پیچھے تھے۔ وقار عظیم مرحوم نے چند صفحات میں درجنوں ایسے حوالے دیے تھے جو زبانی یاد نہیں ہو سکتے تھے۔ تین تین چار چار سطروں کے حوالے کہاں زبانی یاد ہوتے ہیں۔
پھر میں آج کے دور پر نظر ڈالتا ہوں تو وہی شروع والی بات۔ معیار کم کم دکھائی دیتا ہے اور مقدار اتنی کہ خدا کی پناہ۔ ٹی وی لگا لیں تو سمجھ میں نہیں آتا کیا دیکھیں اور کیا نہ دیکھیں اور گھنٹوں دیکھنے کے بعد سوچیں کہ کوئی نئی بات معلوم ہوئی؟ کوئی ایسا تجزیہ سننے میں آیا جو بے لاگ ہو اور کسی سیاسی گروپ کا ترجمان نہ ہو؟ کچھ بھی نہیں محسوس ہوتا، جیسے تھے ویسے کے ویسے ہی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں