"AIZ" (space) message & send to 7575

برما کے بعد انگولا

برما(میانمار) میں جس طرح مسلمانوں کو بربریت کا نشانہ بنایا گیا اس نے اصحاب الاخدودکے ساتھ ہونے والے ظلم کی یاد کو تازہ کردیا ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ بروج میں اصحاب الاخدود کا ذکر کیا جنہیں ا للہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی وجہ سے انتقام کا نشانہ بننا پڑا۔وقت کے ظالم حاکم نے توحیدپرستوں کی جماعت کو آگ سے بھری ہوئی خندقوں میں جلا کر راکھ کردیا تھا۔مؤمنوں کے اس عظیم گروہ نے ابتلائوں اورآزمائشوں کوخند ہ پیشانی سے برداشت کیا لیکن ان کے عزم و یقین میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی ۔
برما کے مسلمانوںکو بھی اللہ پرایمان اوریقین کی وجہ سے ظلم وستم سہنا پڑا ۔خمیدہ کمر والے بوڑھوںکی پیشانیاں لہو سے ترہوگئیں،جوان لڑکیوں کے سہاگ اجڑ گئے،معصوم بچوں کو قتل کیا گیا،ہجرت کی کوشش کرنے والے مسلمانوں پر ہمسایہ مسلمان ملک نے بھی سرحد بند کردی،واپس پلٹنے والوں کا قتل عام کیا گیا ،کئی مسجدوں کو تالے لگا دیے گئے اورکئی ایک کونذرآتش کردیاگیا۔ رمضان المبارک میں بھی مسلمانوںکوقرآن پاک کی تلاوت کرنے کی اجازت نہ مل سکی۔عالمی ضمیر اورانسانی حقوق کی پاسداری کر نے والی تنظیموں نے ان خلا ف ورزیوں پر مکمل سکوت اختیار کیے رکھا۔مسلمان حکمران بھی اس ظلم پرکماحقہ احتجاج کرنے سے قاصر رہے ۔برما میں ہونے والا ظلم اب تک جاری ہے اوراس پرمؤ ثر احتجاج نہ ہونے کی وجہ سے اہل برما کی تنہائی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ خونریزی کے اس واقعہ کا حساس مسلمانوں نے گہرا اثر لیاہے اورا س سانحے کے اثرات مسلمانان عالم کے اذہان و قلوب پر موجو د ہیں ۔
ابھی برما کے بربریت زدہ مسلمانوں کی سسکیوں ،آہوں اورکراہوں کی آواز مدھم نہیں ہوئی تھی کہ انگولا میں مسلمانوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنا لیا گیا ۔انگولا افریقہ کے جنوبی حصے میں واقع ہے، اس کی سر حدیں،نمیبیا، کانگو،زمبیااوربحیرہ اوقیا نوس سے ملتی ہیں۔ اس کی آبادی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق تقریباًایک کروڑ اسی لاکھ ہے،اس کے بعدکیتھولک اورپھر پروٹیسٹنٹ مسیحیوں کی آبادی ہے۔
اسلامک کمیونٹی آف انگولا(COIA)کے سروے کے مطابق انگولامیں تقریباً پانچ لاکھ مسلمان آباد ہیںاورمساجد کی کل تعداد اسی ہے۔مسلمانوں کی دعوتی سرگرمیوں کے نتیجے میں ان کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہورہا تھا جوانگولا کی اسلام مخالف حکومت کے لیے کسی طور قابل قبول نہ تھا۔لہٰذاانگو لا کی حکومت نے اکثر مساجد پر تالے لگا کر ملک میں حجاب پر پابندی عائد کردی ۔
جنوبی افریقہ میں آزادمعاشرتی رویوں کے فروغ کے لیے کام کرنے والی بہت سی تنظیموں نے حکومت کی اس روش پر گہری تشویش کا اظہار کیا اورکسی بھی مذہب پر پابندی عائد کرنے پرکڑی تنقیدکی ہے۔28نومبرکو برطانیہ کے مشہور میگزین گارڈین نے اس حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی اورمساجد پر پابندی کے حوالے سے انگو لا کی حکومت کا یہ موقف بھی شامل کیاکہ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق مسلمانوں کی تعداد 90 ہزارہے جب کہ انگولا میں کسی بھی مذہبی گروہ کو آئینی حیثیت اس وقت مل سکتی ہے جب اس کی تعداد کم ازکم ایک لاکھ ہو اور اس سے وابستگی رکھنے والے افراداٹھارہ میں سے بارہ صوبوں میں موجود ہوں ۔
اسلامی کمیونٹی آف انگولا کے صدر جناب دائود جانے اس حوالے سے کہا کہ حقیقی بات یہ ہے کہ انگولا میں مسلمانوں کی تعداد نوے ہزار نہیں بلکہ کئی لاکھ ہے لیکن اگر مسلمانوں کی تعداد نوے ہزار بھی ہو تو کیا مسلمانو ں کو اس لیے نماز سے روکا جا سکتا ہے کہ ابھی ان کی تعداد ایک لاکھ نہیں ہوئی۔کمیونٹی کے صدر نے بتایا کہ اسی مساجد میں سے 78 کو تالے لگا دیے گئے ہیں اور دارالخلافہ میں موجوددومساجد پر بھی بدھ کے روز پابندی لگنے والی تھی لیکن بین الاقوامی مبصرین اورتجزیہ نگارو ںکو دھوکہ دینے کے لیے وقتی طور پابندی نہیں لگائی گئی،اب یہ پابندی بین الاقوامی حالات اور احتجاج کی نو عیت کو دیکھتے ہوئے کسی بھی وقت لگائی جا سکتی ہے ۔
دارالخلافہ کی ان دو مساجد میں فی الحال مسلمان نمازیں ادا کرنے جا رہے ہیں لیکن دہشت کے شکار مسلمان یہ نہیں جانتے کہ کب انہیں مساجد میں جانے سے روک دیاجائے گا۔دائود جا نے بتایا کہ مساجد پر پابندی لگانے کا آغاز2010ء میں ہوا تھا اور صوبہ ہوا مبو میں ایک مسجد کونذرآتش بھی کیا گیا تھا ۔مسجد جلنے پر حکومت نے مسلمانوں کی اشک شوئی نہیں کی بلکہ انہیں ڈراتے دھمکا تے ہوئے آئندہ مساجد کی تعمیر کے سلسلے میں احتیاط برتنے کی تلقین کی تھی۔ گوکہنے کوہم ایک ایسی دنیا میں آباد ہیں جس میں ہرشخص کو اپنے مذہب اورنظریات پرکا ربند رہنے کی مکمل اجازت ہے مگر کبھی مساجد کے میناروں پر پابندی ،کبھی نماز پر پابندی اور کبھی حجاب پر پابندی عقیدہ اور مذہب کی آزادی کے دلفریب نعرے کی حقیقت کو واضح کردیتی ہے اور مسلمان یہ سمجھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اورجبکہ کھانے کے اور ہیں ۔انگولا کے واقعات پر دنیا کے مختلف مقامات پر احتجاج جاری ہے اور ہرحساس دل اور دماغ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مضطرب اور بے قرار ہے۔ راقم الحروف نے بھی انگولا میں ہونے والے جانبدارنہ رویے کا گہرا اثر لیا اور ایک نظم قلمبند کر ڈالی جونذر قارئین ہے:
 
 
انگولا میں جاری ظلم پر طبیعت نڈھال ہے 
آنکھیں ہوئی ہیں نم ،دل میں ملال ہے 
انگولا کا سربراہ مثلِ تا تار ہے
رقص و سرود جاری، مَے کدہ بھی آباد ہے 
گرجا گھروں میں جانا تو فخر و ثواب ہے 
مسجد میںجانا لیکن وجہِ عتاب ہے
ہر مذہب کا نام لیوا یہاں پر آزاد ہے 
فقط کلمہ گو پابند ہے، کیسا تضاد ہے 
پکڑودَھکڑ ہے جاری، قتل و قتال ہے 
انگولا کے مقتلوں میں چیخ و پکا رہے 
ملت کے حاکموں کی حکومت بے کار ہے 
طاقت ہے پاس ان کے پَر نیت خراب ہے 
تعداد مسلمان کی تو بے شمار ہے 
سویا ہوا ہے مسلم، عبدالدینار ہے 
اعداء کا ہے چلن کہ مسلم پہ چوٹ ہے 
ضمیر مسلمان کا لیکن مدہوش ہے 
ہے زر پرست مسلم ،غافل بے ہوش ہے 
نہ جذبہ ہے پاس اس کے ،نہ طبیعت میں جوش ہے 
فلاح کے سفر سے یارو ! کوسوں یہ دور ہے 
شراب و شباب کے نشے میں یہ چور ہے 
ہے اس عشق و حُسن کا رسیا ،شرافت سے دور ہے 
حسینوں کی مجلسوں میں اسے ملتا سرور ہے 
بتوں کے ہے یہ قریب، کعبے سے دورہے 
موسیقی پسند اس کی، سجدوں سے دور ہے 
گو عزت وقار ابھی اس سے دور ہے 
کھویا ہوا وقار اسے ملنا ضرور ہے 
ترقی کے راستے سے یہ بچھڑا ضرور ہے 
منزل فتح کی لیکن خواہش سے دور ہے 
ہے سنت امام اس کی ،قرآن اس کا نور ہے 
ہاتھوں میں ان کو تھام کر نکلنا ضرور ہے 
مار اس کو پڑ رہی ہے، ایماں سے دور ہے 
جو حقیقت میںہو مسلماں غم اس سے دور ہے 
فرعونِ عصر حاضر ،انگولا کے سربرا ہ کا خانہ خراب ہے 
اللہ کے امر سے ظہیر! اُس کی دنیا تباہ ہے،عقبیٰ خراب ہے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں