24جنوری 2014ء کو ایک قومی اخبار میں ایک روح فرسا رپورٹ شائع ہوئی جس کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں 1080بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنے جن میں 779لڑکیاں اور 301لڑکے شامل تھے جبکہ 76متاثرین کی عمر 5سال سے کم تھی۔ اس رپورٹ کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ بات معلوم ہو تی ہے کہ ہمارے ملک میں بلاناغہ تقریباً 3بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ کم عمر بچوں کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تعداد ان بالغ افراد کی ہے جن کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رضامندی سے برائی کا ارتکاب کرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ہر بڑے شہر میں کئی ہزار طوائفیں جسم فروشی کا دھندا کر رہی ہیں اور یہ پیشہ ور خواتین صرف مخصوص علاقوں میں کام نہیں کر رہیں بلکہ اعلیٰ سطح کے رہائشی علاقوں میں بھی اپنے اڈے قائم کر چکی ہیں ۔ان طوائفوں کے اکثر اڈے پولیس کے علم میں ہوتے ہیں ، لیکن جنرل پرویز مشرف کے دور میں منظور ہونے والے ویمن پروٹیکشن بل کی وجہ سے وہ ان اڈوں پر چھاپے نہیں مار سکتی۔ معاشرے کے ذمہ دار افراد کو اس بات پر غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ جنسی بے راہ روی کا شکار کیوں ہو رہے ہیں اورکس طریقے سے معاشرے کو اخلاقی انحطاط سے بچایا جا سکتا ہے۔ اگر جنسی بے راہ روی کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش نہ کی گئی تو معاشرہ دن بدن اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوتا رہے گا۔ اس ساری صورتحال کا تجزیہ کرنے کے بعد جو چند اہم وجوہ سامنے آئیں ، میںان کو نذر قارئین کرنا چاہتا ہوں ۔
1۔ فحش لٹریچر کی بھر مار: اس وقت معاشرے میں فحش لٹریچر کی بھر مار ہے ۔ یہ لٹریچرتحریری اور تصویری شکل میں بآسانی نوجوانوں کو میسر ہے۔ اس لٹریچرکے مطالعے کے بعد نوجوان جنسی ہیجان کاشکار ہو جاتے ہیں اور اپنے جنسی جذبات کی تسکین کے لیے مختلف ذرائع اختیار کرتے ہیں جن میں استمنابالید سر فہرست ہے۔ ایسے نوجوانوں کو اگر اپنے جذبات کے اظہار کے لیے صنف مخالف میں سے اگر اپنا کوئی ہم عمر میسر نہ آئے تو وہ کم عمر بچے اور بچیوں کو بھی جنسی تشدد کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتے ۔
2۔ سی ڈیز سنٹر اور کیبل نیٹ ورک : ہمارے معاشرے میں فحش فلموں پر مشتمل سی ڈیز سرعام بکتی ہیں۔ اسی طرح گندے پروگرام دکھانے والے چینلز بھی کیبل نیٹ ورک پرہر وقت چل رہے ہیں ۔ان چینلزکے خلاف کیے جانے والے احتجاج پر کئی مرتبہ کیبل آپریٹر ان کو بند کر دیتے ہیں اور کئی مرتبہ آپریٹر یہ بھی بتلاتے ہیں کہ ان چینلز کو عوامی مطالبے پر چلایا جا رہا ہے ۔ ان فحش پروگراموں کے بھی نوجوانوں اور بچوں کے کچے اذہان پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ گمراہی کی دلدل میں اتر جاتے ہیں ۔
3۔فحش ویب سائٹس : انٹرنیٹ پر بھی فحش مواد بکثرت موجود ہے اور فحش ویب سائٹس کی بندش کے لیے آج تک کوئی موثر قدم نہیں اُٹھایا گیا ۔اس وقت متحدہ عرب امارات میں فحش ویب سائٹس کی روک تھا م کے لیے اقدامات کیے جا چکے ہیں۔ فحش مواد سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے فلٹرزلگانا متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔
4۔بری صحبت : نوجوانوں اور بچوں کی بربادی میں بری صحبت بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔ دور حاضر میں والدین اس حد تک معاشی دباؤ کا شکار ہیں کہ انہیں اپنے بچوں کی صحبت پر نظر رکھنے کی فر صت ہی نہیں ملتی ۔ بری صحبت کے شکار یہ نوجوان اور بچے کئی مرتبہ منشیات کے عادی اور کئی مرتبہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔اس غلط صحبت میں وقت گزارنے کی وجہ سے ان بچوں اور نوجوانوں کی فحش مواد اور معلومات تک رسائی ہو جاتی ہے اور والدین کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔
5۔ والدین اور اولاد کا فاصلہ : دور حاضر میں بہت سے والدین اپنی معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں میں اس حد تک جذب ہو جاتے ہیں کہ ان کے اور ان کی اولاد کے درمیان ایک خلیج پیدا ہو جاتی ہے۔ والدین بچوں کے نفسیاتی رجحانات اور ضروریات سے غافل رہتے ہیں اور بچوں کے معمولات پر نظر نہیں رکھ پاتے۔بچے بھی والدین کے دباؤ کی وجہ سے تذبذب کا شکارہوجاتے ہیں اور بہت سے سوالات کو ان کے سامنے رکھنے سے قاصر رہتے ہیں جس کی وجہ سے معصوم اذہان میں مختلف طرح کی گرہیں پڑ جاتی ہیں۔ گھٹن اور جھجک کا شکار یہ بچے کئی مرتبہ غلط راستوں پر چل پڑتے ہیں اور والدین کو اس وقت علم ہوتا ہے جب معاملات ہاتھ سے نکل چکے ہو تے ہیں ۔
6۔جنسی تشدد کا نشانہ بننے والوں کی ذہنی کیفیت : جنسی ہراس اور تشدد کا نشانہ بننے والے بچوں کی ذہنی کیفیت انتہائی عجیب ہوتی ہے۔ وہ کئی مرتبہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم اور تشدد کو بیان کرنے سے خوفزدہ ہوتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے حادثے کو بیان کیا تو والدین انہی کو مورد الزام ٹھہرائیں گے ۔کئی مرتبہ وہ کسی واقف کار کا نام لینے سے اس لیے کتراتے ہیں کہ ان کو جھوٹا تصور کیا جائے گا ۔اس ذہنی دباؤ کی وجہ سے وہ مسلسل جنسی ہراس کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔تواترسے ہونے والا جنسی تشدد ان کو بے راہ روی کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔
7۔مذہبی تعلیم سے دوری : عصری معاشرہ ایک مادیت زدہ معاشرہ ہے جس میں بہت کم لوگ روحانی اقدار اور مذہبی معاملات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل ایمان او ر آخرت کی جوابدہی کا احساس انسان کو فکری طور پر گمراہ ہو نے سے بچاتا ہے ۔ والدین اپنے بچوں کی مذہبی تربیت پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے ۔ ہم اکثر و بیشتر مشاہدہ کرتے ہیں کہ بہت سے پی ایچ ڈی اور ماسٹرز ڈگری رکھنے والے افراد کی دینی تعلیم انتہائی سطحی نوعیت کی ہوتی ہے۔ دنیاوی علوم پر مہارت رکھنے والے بہت سے افراد قرآن کا ترجمہ اور مفہوم سمجھنا تو بڑی دور کی بات ہے ناظرہ قرآن پڑھنے سے بھی قاصر ہوتے ہیں ۔
8۔نکاح میں غیر ضروری تاخیر : قرآ ن و سنت میں بالغ افراد کا جلد نکاح کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے اور غیر ضروری تاخیر کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں معاشی استحکام کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے کہ کئی دفعہ لڑکیوںکی شادی کی عمر نکل جاتی ہے۔ اسی طرح مرد حضرات بھی وسائل ہونے کے باوجود بھی شادی کو غیر ضروری طورپر موخر کرتے رہتے ہیں ۔شادی میں تاخیر کے دوران بہت سے مرد اور خواتین جنسی بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
9۔جرم و سزاکا کمزور نظام : ہمارے معاشرے میں جرائم کی بیخ کنی کے لیے فوری سزاکا نظام موجود نہیں ۔یہ سزا جہاں مجرم کے جرم کی تلافی کا سبب ہوتی ہے وہیں بہت سے منفی اذہان کی حوصلہ شکنی بھی کرتی ہے ۔جرم و سزاکے کمزور نظام کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے اور وہ پہلے کے مقابلے میں بڑھ چڑھ کر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔
جنسی بے راہ روی کے اسباب پر غور فکر کرنے کے بعد ان کی روک تھا م کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی باری آتی ہے۔ اس حوالے سے ذمہ داری والدین، حکمرانوں اور عدالتوں پر عائد ہوتی ہے ۔بچوں کی اخلاقی تربیت کا اہتمام، ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ، ان کے معمولات کا مشاہدہ کرنا اور ان کے بروقت نکاح کا اہتمام کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ فحش مواد، گندے چینلز اور فحش ویب سائٹس کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا حکومت اور جنسی جرائم کے مرتکبین کے خلاف موثر اور بروقت فیصلے سنانا اعلیٰ عدالتوں کی ذمہ داری ہے ۔اگر والدین، حکمران اور عدالتیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں تومعاشرے میں اخلاقی بگاڑ کو ختم کرکے اس کو ایک صحت مند سماج میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔