"AIZ" (space) message & send to 7575

حقیقی انقلاب

تاریخ عالم میں مختلف ادوار میں مختلف طرح کے انقلاب آتے رہے ہیں ۔کئی انقلابات میں ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔نظریاتی ،سیاسی اور مذہبی مخالفوں کی نسل کشی کی گئی اور ان کے گھروں کو مسمار کردیا گیا ۔ستم بالائے ستم یہ کہ مقتولین کی کھوپڑیوں کے میناربنا دیے گئے ۔ہلاکو خان اور چنگیز خان نے مخالفوں کے قتل عام کے حوالے سے غیر معمولی شہرت حاصل کی اور ظلم اور بربریت کی علامت بن گئے ۔سقوط ِ بغداد کے موقع پر کئی کتب خانوں کو جلا دیا گیا اور کئی ایک کو دریا دجلہ میں بہا دیا گیا۔ انسانوں کے قتل عام سے بغداد کی سرزمین لہو رنگ ہو گئی ۔یورپ میں مسلمانوں کی اموی حکومت کے خاتمے کے موقع پر مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور جبراً ان کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا ۔
اکثر انقلابات میں تشدد اور انتقام کا عنصر غالب رہااور انسانوں کو جبراً مثبت یا منفی تبدیلی قبول کرنے پرمجبور کیا گیا ۔ مخالف نظریات کو غیر انسانی اور غیر منطقی نظریات قرار دے کر حقارت کے ساتھ ٹھکر ا دیا گیا ۔
سقوطِ ڈھاکہ کے موقع پر بھی کثیر تعداد میں انسانوں کی نسل کشی کی گئی ۔بنگلہ دیش کے قیام کے مخالفین اور پاکستان کے ساتھ رہنے کے حامیوں کی زندگی کو دوبھر بنا دیا گیا ۔طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود پاکستان کے حامیوں کو انتقام اور تشدد کا نشانہ بنایاجاتا رہا ۔عبدالقادر ملاکو گزشتہ برس کے آخری حصے میںصرف نفرت اور نسل پرستی کے اظہار کے لیے ریاستی سطح پر شہید کر کے بنگالی قو م پرستوں نے اپنے نظریات اور عزائم کا اظہار کیا ۔مصر کے تحریر سکوائر میں آمریت کے تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے مصر کے عوام کی بڑی تعداد کئی دنوں تک رکی رہی۔ یہاں تک کہ انہیں فتح حاصل ہوئی اور آمریت کا بوریا بستر گول ہو گیا تاہم یہ فتح عارضی ثابت ہوئی اور بعد ازاں ایک منظم طریقے سے منتخب حکومت کو اقتدار سے 
علیحدہ کر دیا گیا ۔برطرف حکومت کے حامیوں اور غاصب طبقے کے درمیان وسیع پیمانے پر ٹکراؤ ہوا اور قابض طبقے نے برطرف حکومت کے حامیوں پر سیدھی گولیاں چلائیں ۔بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں لیکن بین الاقوامی ضمیر بے حس رہا اور بے گناہوں کے بہتے ہوئے لہو کی روک تھام کے لیے کو ئی ضابطہ اور قانون حرکت میں نہیں آیا ۔ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان بھی گزشتہ کئی عشروں کے دوران مختلف طرح کے انقلابات کی زد میں رہا ۔ لاکھوں کی تعداد میں افغانی بے گھر ہوئے،ہزاروں بچے یتیم ہوئے ،کثیر تعداد میں عورتیں بیوہ ہوئیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری و ساری ہے ۔ابھی تک افغانستان کو امن و سکون اور استحکام حاصل نہیں ہوسکا اور نہ جانے مزید کتنے عرصے تک یہ معاملہ جاری و ساری رہے گا۔
پاکستان کے قیام کے لیے بھی برصغیر کے طول و ارض میں بڑی تعداد میں تاریخی قربانیاں دی گئیں۔ بچے یتیم ہوئے، بہنوں کے سہاگ اجڑے ،ماؤں کی گودیں خالی ہوئیں ،گھر ویران ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے ہجرت کی ۔ اس ساری جدوجہد کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا لیکن افسوس کہ ستاسٹھ برس بیت جانے کے باوجود عوام کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ۔مختلف ادوار میں عوام پرامن اور پرتشدد تحریکوں کا ساتھ اس لیے دیتے رہے کہ ان عقائد اور نظریات پر عمل پیرائی کا رستہ ہموار ہو سکے اوران کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے ۔مگریہ حقیقت ہے کہ اکثر انقلابات کو ہائی جیک کر لیا گیا اور عوام کی تمناؤں کا خون ہوتا رہا ۔77ء میں قومی اتحاد کی تحریک میں عوام الناس نے سوشل ازم کیخلاف نظام مصطفی کی حمایت میں آواز اٹھائی لیکن یہ بدنصیبی کی بات ہے کہ اس موثر ترین تحریک کے نتیجے میں ملک پر آمریت مسلط ہو گئی ۔ اکثر تحریکوں کے بعد کوئی نہ کوئی مفاد پر ست طبقہ ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن جاتاہے اور عوام بیچارے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں ۔انقلاب کے نتائج جب عوامی توقعات کے برعکس نکلتے ہیں تو اس سے عوام کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ تبدیلی کے لیے چلنے والی نئی تحریکوں میں شمولیت سے عام طور پر اجتناب کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر تحریک یا انقلاب کے نتائج عوامی توقعات سے ہم آہنگ ہوں تو عوام کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور عوام اپنے قائدین اور تحریکوں کے مستقبل کے بارے میں پر اعتماد ہو جاتے ہیں اور کسی وقت بھی دوبارہ قربانی مانگنے پر آسانی سے قربانی دینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ 
تاریخ انسانی کا واحد موثر ترین اور ہمہ گیر انقلاب نبی کریم ﷺکا انقلاب تھا جس نے عقائد سے لے کر اعمال ،افکار سے لے کر طرز زندگی تک ہر شعبہ زندگی کو یکسر تبدیل کردیا ۔عرب کا معاشرہ غیر اللہ کی پوجا اور پرستش کرنے والا تھا ۔لوگ شجر وحجر، سورج، ستارے اور مظاہرِ فطرت کے سامنے سجدہ ریز ہوا کرتے تھے ۔ نبی کریم ﷺنے لوگوں کو غیر اللہ کی پرستش سے ہٹا کر ایک اللہ کے آستانے پر جھکنے کا درس دیا۔عرب کے توہم پرست لوگ جب توحید کی دعوت کو قبول کر چکے تو انہوںنے اس کے بعدکبھی بھی غیر اللہ کی عبادت کو قبول نہ کیا ۔
عرب کے معاشرے میں عورت کو حقیر سمجھ کرزندہ در گور کر دیا جاتا ۔نبی کریم ﷺ نے عورت کو ہر اعتبار سے بلند فرما دیا ۔ماںکی حیثیت سے اس کے قدموں تلے جنت کو قرار دیا ،بہن کی حیثیت سے اس کو انسان کی غیرت بنا دیا،بیوی کی حیثیت سے اس کو شریک زندگی بنا دیا ۔نبی کریم ﷺ نے وراثت میں عورت کا حصہ مقرر کیا اور اس کی جبری شادی کو خلاف شریعت قرار دے دیا۔ 
عرب کے سماج میں لوگ شراب کے نشے میںدھت رہا کرتے تھے ۔ شراب کے خو گرلوگوںکو رسول اللہ ﷺنے اس طرح منشیات سے دور فرما دیا کہ اہل عرب نے شراب ہی سے لا تعلقی اختیار نہیں کی بلکہ ان پیمانوں کو بھی توڑ ڈالاجن میں وہ شراب پیا کرتے تھے ۔عربی سماج میں زنا کاچلن عام تھا۔ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کا یہ اثر ہوا کہ عورتوں کی عزتوںکو لوٹنے والوں نے عورتوںکو میلی نظر سے دیکھنا بھی ترک کر دیااور اپنی ہی اقوام کی بیٹیوں کی عزتوںکو پامال کرنے والے غیروںکی بیٹیوںکی آبرو کے بھی رکھوالے بن گئے ۔ عرب کے لوگ خود غرضی ،انانیت اور خود پسندی کا شکار تھے ۔تعلیمات نبوی اوررسول اللہﷺ کی صحبت کاملہ نے ان کو عاجز اور ایثار پسند بنا دیا۔نبی کریم ﷺکی مدینہ آمد کے موقع پر اہل مدینہ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے والوں کے لیے اپنے گھر بار کو پیش کر دیا۔رسول اللہ ﷺکی آمد سے قبل انصاف طبقاتی اعتبار سے کیا جاتا تھا۔امیر اور غریب طبقوں میں انصاف کے حوالے سے فرق برتاجاتا تھا ۔ نبی کریم ﷺنے انصاف کے معیار کو اتنا بلند فرمایا کہ آپ ﷺ نے اعلان فرما دیا کہ اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا ۔نبی کریم ﷺکے اس ہمہ گیر انقلاب نے پورے جزیرۃ العرب کے منظر کو بدل ڈالا اورآپ ﷺ کی حیات مبارکہ ہی میں پورے کا پورا جزیرہ حلقہ بگوش اسلام ہو گیا ۔
آپ ﷺ کا یہ انقلاب اتناپر اثر تھا کہ آپﷺکی رحلت کے چند بر س بعد ہی آپ ﷺکی انقلابی دعوت نے دو سپر طاقتوں یعنی روم اور ایران کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔اگر انقلاب لانے والا لیڈرراست باز‘ مخلص اور پرعزم ہو تو انقلاب کے اثرات محدود نہیں رہتے بلکہ پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر انقلاب کے نعرے لگانے والوں کے مقاصد اور اہداف محدود اور مبنی بر مفادات ہوں تو انقلاب اپنی موت آپ مر جاتا ہے ۔
اہل پاکستان گزشتہ کئی عشروںسے تحریکوں کو دیکھ رہے ہیں اور تبدیلی کے نعروں کو سن رہے ہیں لیکن افسوس صد افسوس !کہ پاکستان کے مسائل تاحال حل نہیں ہو سکے ۔حقیقی تبدیلی کے لیے ہمیں اپنے پیغمبر ﷺ کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرنا ہو گی اور ان کے اس انقلاب کے خدوخال کو سمجھنا ہوگا کہ جس نے چند برسوں میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔افسوس کہ اغیار تو نبی کریم ﷺ کی سیرت کو پا کر سوشل سکیورٹی اور سماجی انصاف کے نظام کو متعارف کر وا چکے ہیں لیکن ہم ابھی تک اپنے پیغمبر ﷺ کے روشن راستوںاور تعلیمات سے کوسوں دور ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں