"AIZ" (space) message & send to 7575

اردو بازار کا مسئلہ

اردو بازارپاکستان کاایک اہم تجارتی مرکز ہے۔ اس بازار میں نصابی کتب کے ساتھ ساتھ تمام علوم پرمستند کتابوں کی خریدو فروخت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔میں اپنے زمانہ طالب علمی میں گاہے گاہے اردو بازار جاتا رہتا تھا اور نصابی کتابوں کے ساتھ ساتھ یہاں سے غیر نصابی کتابوں کو بھی سستے نرخوں پر خریدا کرتا تھا۔ میں نے اس بازار سے وقتاً فوقتاً علوم اسلامیہ کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب، تاریخ، فلسفہ، انجینئرنگ اور سیاسیات کے موضوع پر بہت سی کتابوں کو خریدا۔ 
اس بازارـمیں میرے قریبی ساتھی اور دوست عمر فاروق قدوسی صاحب بھی کتابوں کی خریدو فروخت کا کام کرتے ہیں۔ عمر فاروق قدوسی عظیم عالم دین مولانا عبدالخالق قدوسی مرحوم کے فرزند ہیں۔ جب بھی کبھی مجھے کسی اہم اسلامی موضوع پر کتاب کی ضرورت ہوتی ہے‘ میں انہیں فون کرتا ہوں اور کتاب آناً فاناً مجھ تک پہنچ جاتی ہے۔
چند روز قبل برادر عمر فاروق نے مجھے فون کیا ۔ حال احوال دریافت کرنے کے بعد برادر عمر فاروق نے مجھے اردو بازار کے حوالے سے کچھ پریشان کن باتیں بتائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس موضوع پر کچھ لکھا جائے تاکہ متعلقہ حکام اور قارئین کی توجہ اس طرف مبذول کروائی جاسکے ۔ برادر عمر فاروق نے مجھے جو باتیں بتلائیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
سانحہ پشاور کے بعد صوبہ بھر میں فرقہ واریت اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے جہاں پردیگر اقدامات کئے گئے وہاں پر اردو بازاراور کتب کی خریدو فروخت کے اہم مراکز میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کی نشرو اشاعت کا سبب بننے والی کتابوں کی روک تھام کے لیے بھی مسلسل کارروائی کی جارہی ہے۔ اس کارروائی کی اصولی طور پر تمام محب وطن اور دین پسندتاجر اور ناشران کتب حوصلہ افزائی کرنے کے لیے تیار ہیںاور اس سلسلے میں دینی کتب کی خریدو فروخت اور نشر وا شاعت کرنے والے تاجران کی اکثریت نے'' انجمن تاجران اسلامک پبلشرز‘‘ کے نام سے ایک فورم بھی قائم کیا ہے۔ اس فورم سے وابستہ تمام تاجران حکومت اور ریاست پاکستان کو ہر طرح سے یقین دہانی کروانے کے لیے تیار ہیں کہ وہ پاکستان کے وفادار ہیں اور ہر قسم کی دہشت گردی اور فرقہ واریت کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ انجمن تاجران سے وابستہ تمام تاجران فرقہ واریت اور دہشت گردی کی تمام شکلوں کی مکمل حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور دینی کتابوں کی نشرو اشاعت کرنے والے پبلشرز اس بات کی یقین دہانی کروانے کے لیے بھی تیار ہیں کہ وہ مستقبل میں اپنے مصنّفین اور مترجمین سے اس بات کا حلف لیں گے کہ وہ کوئی ایسی کتاب ان کو طباعت کے لیے نہیں دیں گے جس میں متنازعہ یا اشتعال انگیز مواد موجود ہو۔ تاجروں کا یہ کہنا ہے کہ ان یقین دہانیوں کے باوجود پولیس کسی نہ کسی کتب خانے پر ممنوعہ یا متنازعہ کتابوں کی خریدو فروخت کا الزام دھر کر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرلیتی ہے اور اس سلسلے میں ان کی کسی بھی وضاحت یا صفائی کو قبول نہیں کیا جاتا۔ ان سارے اقدامات کے دوران نہ تو تاجر پو لیس سے متنازعہ کتب کی فہرست کا تقاضا کر سکتے ہیں اور نہ ہی حکام بالا سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے سلسلے میں رجوع کر سکتے ہیں۔ وہ کلی طور پر پولیس اہلکاروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں ۔ اس سارے معاملات کی وجہ سے جہاں اردو بازار کے تاجروں کی ساکھ اور کاروبار کو نقصان پہنچ رہا ہے وہیں پر خریدار بھی اردو بازا ر کا رخ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
اردو بازار کے تاجروں نے ممنوع اور اشتعال انگیز مواد کی نشاندہی اور تلفی کے لیے کچھ تجاویز بھی پیش کی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ متعلقہ ادارے یا تو ان تجاویز کو قبول کریں یا ان تجاویز کی اصلاح کرکے قابل قبول ضابطۂ اخلاق مرتب کریں ۔ تاکہ اردو بازار کے تاجر پر امن طریقے سے اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں۔
اردو بازار کے تاجران کی تجاویز کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
1:متحدہ علماء بورڈ کی سفارشات برائے ممنوع کتب کو مدنظر رکھا جائے، اس لیے کہ اس میں چاروں مسالک کے علماء شامل ہیں اور یہ قانونی ادارہ ہے ۔ جب یہ ادارہ کسی کتاب کو ممنوعہ یا متنازعہ قرار دے دے تو اس کو متفقہ فیصلہ تصور کیا جائے ۔
2:اگر کسی کتاب کو ممنوعہ یا متنازعہ قرار دینا ہوتو اسے متحدہ علماء بورڈ کے سپرد کر دیا جائے۔ اگر وہ اس کو ممنوعہ / متنازعہ قرار دیں تو اس کو ممنوع تصور کیا جائے بصورت دیگر صرف تعصّب کی بنیاد پر کسی کتاب کو متنازعہ یا ممنوعہ نہ سمجھا جائے۔ 
3:علماء بورڈ جس کتاب کو ممنوعہ قرار دے اور اس کی پابندی کی سفارش کرے تو اس کے مصنف / ناشرکو اس فیصلے سے آگاہ کیا جائے تاکہ ناشر اور دکاندار لا عملی میں ممنوعہ مواد کی خرید وفروخت کا مرتکب نہ ہو۔ 
4:ناشر کی یہ ذمہ داری ہو کہ ممنوعہ کتاب/رسالہ تلف کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ آئندہ وہ اس کی خریدو فروخت نہیں کرے گا۔ بصورت دیگر اسے قانونی کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ 
5:بعض لوگ ناشر کی اجازت کے بغیر اس کا نام بطور ڈسٹری بیوٹر لکھ دیتے ہیں جبکہ متعلقہ ناشر کو کئی مرتبہ اس بات کا سرے سے علم ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے ناشر کی تحریری اجازت کے بغیر اس کی کوئی حیثیت نہ سمجھی جائے۔ 
6:ماضی میں شائع شدہ کتب کی وجہ سے ناشران پر مقدمات درج کرنے کا سلسلہ ختم کیا جائے کیونکہ ناشران کتب مستقبل میں اشتعال انگیز مواد شائع نہ کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں۔
برادر عمر فاروق کے توسط سے اسلامی کتب کے ناشران کی موصول ہونے والی تمام تجاویز ہر اعتبار سے متوازن اور قابل عمل ہیں۔ اگر ان تجاویز پر عمل کر لیا جائے تو اردو بازار کے تاجران کے تحفظات بھی دور ہو سکتے ہیں اور دہشت گردی اور فرقہ واریت کی بنیاد بننے والی کتابوں کی خریدو فروخت کی روک تھام بھی کی جاسکتی ہے۔
ریاست میں دہشت گردی کے فروغ اور قتل و غارت کو روکنا ریاست اور اس کے ماتحت اداروں کی ذمہ داری ہے لیکن دہشت گردی اور قتل و غارت گری کی روک تھام منظم اور اصولی انداز میں قانونی تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہی ہونی چاہیے۔ کتابوں کے خلاف کارروائی کرنے والے اہلکاروں کو متنازعہ کتابوں کے بارے میں مکمل معلومات ہونی چاہئیں تاکہ نا دانستگی اور لا عملی میں کسی بے گناہ کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو سکے۔
نفرت اور اشتعال انگیز مواد کے خلاف کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ بے گناہ ناشران کے خلاف بلاجواز اقدامات کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کرنا بھی ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ اگر پولیس کے غیر ذمہ داران عناصر کو کھلی چھوٹ دی گئی اور ان کی غیر ذمہ داری پر ان کا احتساب نہ کیا گیا تو قرآن و سنت پر مبنی اور تاریخ اسلام کی مستند کتابوں کی نشرو اشاعت کرنے والے ذمہ دار تاجر بھی اضطراب کا شکار ہو کر اس کار خیر سے دستبردار ہونے کا سو چ سکتے ہیں۔
اردو بازار نے ملک میں معیاری کتب کی ترویج میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور اس بازار سے نشرہونے والی کتابیں پاکستان کی اہم پبلک لائبریریوں اور تمام تعلیمی اداروں میں موجود ہیں ۔ اس بازار کی کارکردگی کو برقرار رکھنے کے لیے اسے غیر ضروری دباؤ سے آزاد رکھنا ازحد ضروری ہے۔ اگر اردو بازار ویران ہو گیا تو ہمارا معاشرہ دین و دنیا کے ہر عنوان پر چھپنے والی بیش قیمت کتابوں کے مطالعے سے محروم ہو جائے گا۔ امید ہے کہ ارباب اقتدار اردو بازار کی رونقوں کو بحال رکھیں گے اور اس کو غیر سنجیدہ، عجلت پسنداور غیر محتاط عناصر کی کارروائیوں کا ہدف نہیں بننے دیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں