"AIZ" (space) message & send to 7575

بعض کبیرہ گناہ

اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے مسلمانوں کی زندگی کے تمام شعبوں میں کامل رہنمائی کی ہے۔ انسان کی زندگی میں آنے والی تکالیف کے حوالے سے قرآن مجید ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ ہماری تمام تکالیف کی اصل وجہ ہمارے گناہ ہیں۔ یہ گناہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غصے کو دعوت دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ہم مختلف طرح کی پریشانیوں اور مصیبتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سورۃ نساء کی آیت نمبر31 میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے کہ '' اگر تم اپنے آپ کو بڑے گناہوں سے بچا لو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو ہم تمہاری خطاؤںکو معاف کر دیں گے‘‘۔ گویا اگر انسان اپنے آپ کو کبیرہ گناہوں سے بچا لے تو اللہ تعالیٰ اس کی باقی خطاؤں کو اپنی رحمت اور فضل وکرم سے معاف فرما دیں گے۔ اللہ رب العزت نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور ہادی بہت سے کبیرہ گناہوں کی نشاندہی کی ہے تاکہ آپ کے امتی اپنے آپ کوان گناہوں سے بچا سکیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں سب سے پہلے قرآن مجید کی آیات اور اس کے بعد احادیث طیبہ میں مذکور بعض اہم کبیرہ گناہوں کی آگاہی حاصل کرنا انتہائی مفید ہے۔ ایسا کرنے سے ہم بڑے گناہوں اور ان کے اثرات بد سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ قرآن مجید کی سورہ انعام کی آیت 151 ،152 میں اللہ تعالیٰ نے جن کبیرہ گناہوں کا ذکر کیا وہ درجہ ذیل ہیں: (1) اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ شرک کرنا۔(2)والدین کی نافرمانی کرنا۔ (3) اپنی اولاد کو بھوک کے خوف سے قتل کرنا۔ (4) علانیہ اور خفیہ فحاشی کا ارتکاب کرنا۔ (5) قتل ناحق کرنا۔(6) یتیم کا مال کھانا۔ (7) ماپ تول میں کمی کرنا۔(8) بولتے ہوئے یا فیصلہ کرتے وقت قرابت داری کی وجہ سے ناانصافی کرنا۔ (9) وعدہ خلافی کرنا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان اقوام کا ذکر بھی کیا ہے جو اپنے گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ بنیں۔ چنانچہ قوم نوح اور قوم ہود بد اعتقادی کی وجہ سے، قوم ثمود بد اعتقادی کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی نشانی کو جھٹلانے کی وجہ سے، قوم لوط جنسی بے راہ روی کی وجہ سے اورقوم شعیب ماپ تول میں کمی کی وجہ سے تباہی اورہلاکت کے گڑھے میں گرگئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرعون اور نمرود کا ذکر بھی کیا جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی اور گھمنڈ میں مبتلا ہونے کی وجہ سے دنیا اور آخرت کی رسوائی کے حق دار بن گئے۔ 
اگرچہ قرآن مجید میں بہت سے دیگر کبیرہ گناہوں کا بھی ذکر ہے مگر اختصارکے پیش نظر میں نے بعض اہم کبیرہ گناہوں کی نشاندہی کی ہے۔ قرآن مجید کی آیات کے بعد جب ہم احادیث طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان میں بھی اہم کبیرہ گناہوں کا بیان ملتا ہے۔ اس سلسلے کی بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں: 
بخاری شریف کی ایک حدیث میں‘ جس کے راوی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے گناہوں کے بارے میں استفسار کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا : (1) اللہ کی عبادت میں اوروںکو شریک کرنا۔ (2) اپنے والدین کی نافرمانی کرنا۔ (3) کسی کو (ناحق) قتل کرنا۔(4) جھوٹی گواہی دینا۔ اسی طرح بخاری شریف کی ایک اور حدیث میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑا کبیرہ گناہ اللہ کی عبادت میں اوروں کو شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی گواہی والی بات کو تین مرتبہ دہرایا۔ اسی طرح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراؤ جبکہ اس نے اکیلے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میںنے عرض کیا کہ یقیناً یہ ایک بڑا گناہ ہے اور پھر عرض کی، اس کے بعد ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کر دینا کہ وہ تمہارے کھانے میں شریک ہوں گے۔ میں نے عرض کی اس کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا۔ 
مسلم شریف کی ایک حدیث میں‘ جس کے راوی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں‘ مذکور ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میرے دونوں کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے جان بوجھ کر اپنی ولدیت کی نسبت اپنے سگے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف کی تو اس پر جنت حرام ہے۔ ایک صحابی فرماتے ہیں کہ انہوں نے بھی اس بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ اسی طرح صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون سے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا (1) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا۔ (2) جادو کرنا (3) کسی کو قتل کرنا مگر حق کے بغیر۔ (4) سود کھانا (5) یتیم کا مال کھانا (6) دشمن کی طرف پشت کرنا اور حالت جنگ میںمیدان جنگ سے فرار ہو جانا۔ (7) پاک دامن اور مومنہ عورتوں پر تہمت لگانا۔ اسی طرح بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک لمبی حدیث کے مطابق سرکاری اموال میں خیانت بھی کبیرہ گناہ ہے۔ اس حدیث کے مطابق کل قیامت کے دن سرکاری خزانے سے جس شخص نے کسی بھیڑ ، کسی اونٹ یا کسی گھوڑے کوبغیر اجازت کے اپنے تصرف میں لیا ہو گا تو اس کواپنی گردن پر ان جانوروں کو اُٹھانا پڑے گا۔ اسی طرح جس نے سرکاری سونے چاندی اور کپڑوں کو اپنے تصرف میں لیا ہوگا اس کو انہیںاپنی گردن پہ اُٹھانا پڑے گا اور اگر وہ قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کے لیے عرض کرے گا تو اس کی سفارش کسی بھی طور پر قبول نہیں کی جائے گی، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا پیغام دوسروں تک پہنچا کرحجت کو پورا کر دیا تھا۔ 
آج اگر ہم اپنے گرد و پیش میں نظر دوڑائیں تو قرآن وسنت میں مذکور ان بڑے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والے لوگ بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ انفرادی اور اجتماعی حیثیت میںبہت سے مصائب ، مشکلات اور ابتلاؤں کا شکار ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں امن وسکون ، راحت اور فراواں رزق حلال کی نعمت حاصل ہو جائے اور ہم بدامنی، فساد ، خلفشار اور انتشار سے نجات حاصل کرلیں تو ہمیں اپنے خالق ومالک کی نافرمانی سے اجتناب کا راستہ اپنانا ہوگا۔ اگر ہم صدق دل سے اپنی اصلاح کا ارادہ کرلیں اور آئندہ کے بعد ہلاکت کے گڑھے میں گرانے والے ان کبیرہ گناہوں سے بچنا شروع کر دیں تو ہماری بگڑی ہوئی حالت بہتر اور ہمارے الجھے ہوئے معاملات سنور سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نافرمانی اور غضب سے محفوظ رکھ کر سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں