جرم و سزا کا مؤثر نظام کسی بھی معاشرے میںقیام امن کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ جرم وسزا کے نظام میں پائے جانے والے نقائص اور کمزوریوںکی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور معاشرے میں قتل وغارت گری ، چوری ، ڈکیتی، انتشار اور فساد کو فروغ ملتا ہے۔ کسی بھی جرم کا ارتکاب کرنے والا شخص اُس وقت تک ملزم رہتا ہے جب تک وہ اپنے جرم کا ازخود اعتراف نہ کر لے یا اُس کے خلاف یقینی،عینی شہادتیں حاصل نہ ہوجائیں۔ مصدقہ شہادتوں کی فراہمی کے بعد خواہ ملزم جرم کا اعتراف نہ بھی کرے، اُسے قانونی طور پر مجرم ہی سمجھا جائے گا۔ جھوٹی شہادت دینا قانونی اعتبار سے جرم اور شرعاً گناہ کبیرہ ہے۔ جھوٹی شہادت دینے والے لوگ اگر دنیا میں قانون کی گرفت سے بچ بھی جائیں تو آخرت میں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ کئی مرتبہ حقیقی مجرم بھی ناکافی شہادتوں کی وجہ سے قانون کی گرفت سے بچ نکلتا ہے۔ دنیا کی چند روزہ زندگی میں اپنے جرم کی سزا نہ پانے والے عناصر کو آخرت میں اپنے جرم کا خمیازہ ضرور بھگتنا پڑے گا۔ کسی بھی مجرم کو اس کا جرم ثابت ہو جانے کے بعد قرار واقعی سزا ملنی چاہیے، لیکن عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مجرم سفارش، رشوت یا اثر و رسوخ کے ذریعے قانون کی گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ اسلام نے ان تینوں ذرائع کی حوصلہ شکنی ہے جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں بنومخزوم کی فاطمہ نام کی ایک نامور عورت نے چوری کی، اس عورت کی سفارش کے لیے اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما کو بارگاہِ رسالت مآب میں روانہ کیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوںگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر سابقہ امتوں کی تباہی کے ایک بڑے سبب کو بھی بیان فرمایا کہ جب ان میں سے کوئی بڑا جرم کرتا تو اس کو چھوڑ دیا جاتا اور جب عام آدمی جرم کرتا تو اس کو سزا دی جاتی۔
ہمارے معاشرے میں لوگ بالعموم جرائم کا ارتکاب کرنے کے بعد سفارش تلاش کرتے ہیں اور کسی نہ کسی طریقے سے کوئی نہ کوئی مؤثر سفارش ڈھونڈنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ اس سفارش کی وجہ سے ارتکاب جرم کے باوجود جب مجرم کو سزا نہیں ملتی تو نہ صرف یہ کہ مجرم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ جرائم پیشہ ذہنیت کے دیگر افراد کی نظروں میں بھی قانون کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی سفارش کو مسترد کر کے اُمت مسلمہ کے لیے ایک روشن مثال قائم کی۔ اس مثال پر عمل پیرا ہو کر معاشرے کو سفارش کے منفی اثرات سے کلی طور پر نجات دلوائی جا سکتی ہے۔
اسلام میں رشوت ستانی کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے اور رشوت دینے اور لینے والے کو جہنمی قرار دیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جرائم کا ارتکاب کرنے والے بہت سے افراد رشوت دے کر قانون کی گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ کئی مرتبہ قتل و غارت گری ، بھتہ خوری، گینگ ریپ اور ڈکیتی جیسے سنگین جرائم میں ملوث افراد بھی رشوت ستانی کے ذریعے اپنے جرائم پر پردہ ڈال لیتے ہیں۔ اسی رشوت ستانی کے نتیجے میں ریمنڈ ڈیوس جیسا مجرم بھی ابتدائی طور پر قانون کی گرفت میں آجانے کے باوجود پوری طرح قانون کے شکنجے میں نہ آسکا۔ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام کی اکثریت بالعموم رشوت دینے والے بااثر افراد کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ جب کوئی مجبور شخص قانون کے دروازے پر دستک دیتا ہے تو اسے یہ امید ہوتی ہے کہ اس کا بنیادی حق یعنی فوری انصاف اس کو ضرور حاصل ہو گا، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ رشوت دینے اور لینے والے افراد اورافسران مجبور عوام کی امنگوں کا خون کر دیتے ہیں۔ رشوت ستانی کی وجہ سے عام افراد کا قانون پر اعتماد کم ہو جاتا ہے اور جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ پُرامید رہتے ہیں کہ ان کا جرم خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو وہ پیسے کے زور پر قانون کی گرفت سے بچ نکلیںگے۔
کوئی بھی صاحب حیثیت اور صاحب اثر شخص قانون سے ماورا نہیں ہے۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو قانون سے بالاتر قرار نہیں دیا توکوئی اور شخص بھی قانون سے بالاتر نہیں سمجھا جا سکتا۔ ہمارے ملک میں صاحب اثر جاگیر دار، سرمایہ دار،افسران اور حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد عام طور پر اپنے آپ کو قانون کی گرفت سے بالاتر سمجھتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بالعموم ان بااثر افراد کے سامنے اپنے آپ کو بے بس اور مجبور تصورکرتے ہیں۔ پاکستان کے آئین میں بھی بعض اہم حکومتی عہدیداران کوارتکاب جرم کے باوجود قانون سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ یہ شق اسلام کے مسلمہ اصولوں سے متصادم ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ارکان پارلیمنٹ کو اس کو قانون سے حذف کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے تاکہ آئین پاکستان اورکتاب وسنت کے مابین موجود تضاد کو ختم کیا جا سکے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی اس حوالے سے مقننہ کو قانون سازی کے لیے مؤثر سفارش کرنی چاہیے اور اپنے آئینی کردار کو ادا کرنا چاہیے۔
مجرم کو سزا ملنے سے جرائم کی بیخ کنی اور جرائم پیشہ ذہنیت کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، لیکن اس سلسلے میں ہمارے تھانہ کلچرکی اصلاح بھی انتہائی ضروری ہے۔ تھانوں کو جہاں رشوت، سفارش اور سیاسی دباؤ سے باہر نکالنا ضروری ہے وہاں اس
بات پر بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے کہ مجرم کا خواہ کتنا بھی کڑا احتساب کیوں نہ ہو بے گناہ افراد کو فقط مجرم سے تعلق کی وجہ سے اذیت نہ دی جائے۔ ہمارے معاشرے میں مفرور مجرموں کی بازیابی کے لیے کئی مرتبہ ان کے بیوی بچوں، قریبی رشتہ داروں اور اعزہ واقربا کو محبوس کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے اور اس کی اصلاح ناگزیر ہے۔ ابھی چند روز قبل ایک نو جوان نے مجھ سے رابطہ کیا،اس کے ماموں پر قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی جس کے بعد وہ مفرور تھا۔ نوجوان کے ماموں کی برآمدگی کے لیے نوجوان کے والد کوگرفتار کیا جا چکا تھا۔ گو یہ حکمت عملی بعض مقدمات میں مفید ہو سکتی ہے لیکن اس کا کوئی قانونی، اخلاقی اور شرعی جواز پیش نہیںکیا جا سکتا۔ اس قسم کے اقدامات سے بعض افرادکے جذبات بری طرح مجروح ہوتے ہیں اورکئی پرامن افراد ذہنی اور جسمانی اذیت سہنے کی وجہ سے مجرمانہ ذہنیت کے حامل بن جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حبس بے جا میں رہنے والے افراد کے اہل خانہ اور قریبی رشتہ داروں کو شدید ذہنی اذیت اور خوف سہنا پڑتا ہے۔ محبوس افراد تک رسائی کے لیے اہل خانہ کو بے جا مادی وسائل بھی صرف کرنے پڑتے ہیں اورکئی مرتبہ اپنے رشتہ داروں کی خبر گیری کے لیے لمبے سفر اور انتظارکے سبب بہت زیادہ جسمانی مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سارے عمل کے نتیجے میں پورا کنبہ اضطراب اور بے یقینی کا شکار ہونے کے سبب مختلف ذہنی اور نفسیاتی اذیتوں اور محرومیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ بہت بڑا انسانی المیہ ہے جس کے تدارک کے لیے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اسلام اور قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا اور نہ ہی کسی کو دوسرے کے جرم کے بدلے سزا دی جا سکتی ہے۔ چنانچہ مجرم کو سزا ضرور ملنی چاہیے لیکن مجرم کے جرم کی سزا اس کے بیوی بچوں،اعزہ یا قریبی رشتہ دارکو دینا کسی بھی طور عدل وانصاف اور مذہب کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔