"AIZ" (space) message & send to 7575

نظام مصطفی کانفرنس

میں نے اپنی مذہبی اور سیاسی زندگی میں دو شخصیات کو انتہائی متحرک پایا ہے۔ میں نے دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم پر نیٹو سپلائی کی بندش کے خلاف دیگر جماعتوں کے قائدین کے ہمراہ ملک کے طول و عرض میں بہت سے جلسوں سے خطاب کیا۔ دفاع پاکستان کونسل کی تنظیم سازی اور اس کے موثر اجتماعات کے پس منظر میں جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید کا کلیدی کردار تھا۔ وہ انتہائی متحرک انسان ہیں اور جب بھی ملک کی سالمیت یا اسلام کے خلاف کوئی آواز اُٹھائی جاتی ہے تو وہ اس کے خلاف فوراً سے پہلے تمام دینی جماعتوں اور ان کے قائدین کو اپنے مرکز میں جمع کر لیتے ہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ صاحب بھی انتہائی متحرک شخصیت ہیں۔مجھے ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر قاضی حسین احمد اور لیاقت بلوچ کی ہمراہی میں کام کرنے کا موقع میسر آیا تو یہ بات محسوس کی کہ لمبے سفر کرنا اور اجتماعات کا اہتمام کرنا لیاقت بلوچ کے لیے چنداں مشکل نہیں۔
حال ہی میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے دینی حلقوں میں اضطراب اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ ممتاز قادری کی پھانسی دینی حلقوں کے لیے قابل قبول نہیں تھی۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی میں پیش ہونے والا حقوق نسواں بل دینی حلقوں کے لیے انتہائی تشویش کا باعث تھا۔ دینی حلقے اس قسم کے اقدامات سے یہ محسوس کر رہے تھے کہ حکومت پاکستان کی سمت کو بدلنا چاہتی ہے اور اس کو ایک نظریاتی ریاست کی بجائے ایک قومی ریاست کی شکل دینا چاہتی ہے۔ یہ بات دینی حلقوں کے لیے قطعاً قابل قبول نہ تھی۔ چنانچہ 23مارچ کو ملک بھر میں جماعت الدعوۃ نے دیگر جماعتوں کے ہمراہ نظریہ پاکستان سیمینارز اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا اور اس بات کو باور کروانے کی کوشش کی کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے ‘ اس کی اساس اور بنیاد کو کسی بھی طور پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ دینی جماعتوں کے قائدین نے ان اجتماعات میں کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا۔ دینی جماعتیں یہ محسوس کر رہی ہیں کہ میاںمحمد نواز شریف وہ کام کرنے چلے ہیں جو پیپلز پارٹی کے رہنما بھی نہیں کر سکے تھے۔ 
چند دن قبل منصورہ میں کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیاجس میں مولانا فضل الرحمن ، مولانا سمیع الحق، حافظ محمد سعید سمیت ملک بھر کے تمام دینی قائدین اوررہنما شریک ہوئے۔انہوں نے اپنے اپنے اندازمیں حکومت پر کڑی تنقید کی اور فیصلہ کیا گیا کہ 2 اپریل کو منصورہ میں نظام مصطفی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا۔یکم اپریل کو حافظ محمد سعید نے مرکز القادسیہ میں تمام دینی جماعتوں کے قائدین کے اعزاز میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ مجھے بھی اس تقریب میں شامل ہونے کا موقع میسر آیا۔ دینی جماعتوں کے قائدین نے میاں محمد نواز شریف اور مسلم لیگ (نون) کی روش پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ملک کو ایک سازش کے تحت اس کی نظریاتی اساس سے ہٹا کر ایک قومی ریاست بنانے کی کوشش کی جار ہی ہے اور اس مقصد کے لیے این جی اوز، مغرب زدہ طبقات اور لبرل عناصر اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس موقع پر تمام قائدین نے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے عزم کا اظہار کیا اور اس بات کا ارادہ کیا کہ منصورہ میں تمام قائدین شریک ہو کر اپنے اپنے جذبات کا عوام کے سامنے کھل کر اظہار کریں گے۔
2 اپریل کوصبح 10بجے منصورہ میں باقاعدہ کانفرنس کا آغازہوا۔ کانفرنس تین نشستوں پر مشتمل تھی۔ مجھے پہلی نشست میں جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق سے قبل اپنی گزارشات پیش کرنے کا موقع میسر آیا۔ سراج الحق کے علاوہ مولانا سمیع الحق، حافظ حسین احمد، حافظ محمد سعید اور دیگررہنماؤںنے اپنے اپنے انداز میں عوام الناس کے سامنے اپنے جذبات کو رکھا۔ قائدین نے جن باتوں کو پیش کیا ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
تحریک پاکستان کے قائدین حضرت محمد علی جناح، حضرت علامہ محمد اقبال، مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر نے برصغیر کے طول و عرض میں مسلمانوں کو جگانے کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کیا اور قوم کو بیدار کرنے کا واحد مقصد یہ تھا کہ مسلمان اس بات کو محسوس کر رہے تھے کہ برصغیر میں ہندوؤںکے ساتھ رہ کر وہ اپنے دین اور مذہب کے آفاقی اصولوں پرکما حقہ عمل نہیں کر سکتے۔ اس مقصد کے لیے علیحدہ وطن کی تشکیل پر تمام مسلمان قائدین نے اتفاق کیا۔ قیام پاکستان کا مقصد اگرچہ فلاحی ریاست کا قیام بھی تھا لیکن یہ فلاحی ریاست کسی بھی اعتبار سے سیکولر ریاست نہیں تھی۔ بلکہ اس میں فلاح کے ان اصولوں کو مدنظر رکھا گیا تھا جو قرآن وسنت میں بیان کئے گئے ہیں۔
اس اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے بڑے پیمانے پر ہجرتیں کی گئیں۔ بوڑھوں کی داڑھیوں کو لہو میں تربتر کیا گیا۔ بڑے پیمانے پر عورتوں کی عصمت دری ہوئی۔ معصوم بچوں کو نیزوں کی انیوں پر تڑپایا گیا۔ ان ساری قربانیوں کے باوجود مسلمان علیحدہ وطن کے حصول پر خوش تھے اور محسوس کرتے تھے کہ اس علیحدہ وطن میں اسلام کے آفاقی اصولوں پر صحیح طریقے سے عمل پیرا ہو سکیں گے۔ لیکن قیام پاکستان کو طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی پاکستان کما حقہ اسلامی ریاست میں تبدیل نہ ہو سکا۔ پاکستان میں قحبہ گری قانونی طور پرجاری وساری رہی‘ سودی نظام ِ معیشت نے پوری طرح اپنی لپیٹ میں لیئے رکھا، بڑے ہوٹلوں میں شراب فروشی کے لیے لائسنسوں کا اجرا کیا گیا اور جرم وسزا کے معاملات پر قابو پانے کے لیے اسلامی حدود وتعزیرات کی بجائے انگریزوں کے پیش کر دہ نظام ہی سے استفادہ کیا گیا۔ یہ سارے کا سارا عمل دینی جماعتوں کے لیے انتہائی تشویش کا باعث بنا رہا۔ دینی جماعتیں اپنے اپنے انداز میں اس بات کو آگے بڑھانے کی جدوجہد کرتی رہیں کہ پاکستان کے قیام کا مقصد ''لا الہ الا اللہ‘‘ کی عمل داری تھی۔ اس مقصد کے لیے دو یادگار تحریکیں چلائی گئیں۔ تحریک ختم نبوت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے تحفظ کے لیے بڑے پیمانے پر قربانیاں دے کر اس کی حفاظت کو قانونی طور پر یقینی بنایا گیا۔ اس کے بعد ملک میں 1977ء میں سوشل ازم کے خلاف تحریک نظام مصطفی چلانے کے لیے تمام مکاتب فکر نے یکجا ہو کر اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ پیپلز پارٹی کی مقبولیت اس دور میںعروج پر تھی لیکن دینی جماعتوں کے اتحاد اور یکجا ہونے کی وجہ سے تحریک نظام مصطفی عوام کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اور یوں ملک میں سوشل ازم کی بجائے اسلامی معیشت کے تصورات کو اجاگر ہونے کا موقع میسر آیا۔ 
عملی طور پر مسلم لیگ (نون) کو ہمیشہ دینی طبقات کی تائید حاصل رہی اور لوگ توقع کرتے رہے کہ مسلم لیگ (نون) بانی ٔ پاکستا ن اور مصورِ پاکستان کی جماعت ہونے کے تناظر میںاسلامی روایات کو آگے بڑھائے گی اور مسلمانوںکے جذبات کی ترجمانی کرے گی۔ لیکن حالیہ دور حکومت میں میاں محمد نواز شریف نے دینی جماعتوں کو بہت حد تک مایوس کیا۔ مسلم لیگ پنجاب کے دور حکومت میں ریمنڈڈیوس کو فرار کروایا گیا، جب کہ ممتاز قادری کو دینی جماعتوں کے تحفظات کے باوجودپھانسی دے دی گئی۔ اسی طرح حقوق نسواں بل کے ذریعے خاندانی نظام کو شدید نوعیت کے خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ اس ساری صورتحال کے پیش نظر قائدین نے اتفاق کیا کہ تمام معاملات کو جزوی طور پر طے کرنے کی بجائے معاملات کی جڑ کی اصلاح کرنی چاہیے اور اصلاح کی ایک ہی صورت ہے کہ ملک کو سیکولر ازم اور لبرل ازم کی آماجگا ہ بنانے کی بجائے اس بنیاد پر پلٹایا جائے جس پر اس ملک کو حاصل کیا گیا تھا۔ تمام قائدین نے اتفاق کیا کہ اس مقصد کے لیے آئینی‘ قانونی اور سیاسی راستہ اختیار کیا جائے اور طاقت کی بجائے پرامن طریقے سے تحریک کو آگے بڑھایا جائے۔ 
دینی جماعتیں تاریخ کے اس نازک موڑ پر اگر یکجا ہو کر نظام مصطفی کی بحالی اور عملداری کے لیے آواز اُٹھانے اور مشترکہ لائحہ عمل بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو پاکستان کی سمت کے حوالے سے پایا جانے والا ابہام ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے گا۔ پاکستان میں بعض طبقات ایسے ہیں جو 73 ء کے آئین میں قرآن وسنت کے سپریم لاء ہونے اور قرار دادِ مقاصد پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ جب کہ دینی جماعتیں اس کو آئین کی اساس سمجھتی ہیں۔ آنے والے دنوں میں دیکھنا ہے کہ دینی جماعتیں اپنے اہداف کے حصول کے لیے کیا لائحہ عمل قوم کے سامنے رکھتی ہیں۔ ملک میںبڑی تعداد میں بسنے والے مذہبی طبقات پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں ، جب کہ ملک میں ایک طبقہ وہ بھی موجود ہے جو ملک کو اس کے برعکس قومی ریاست بنانا چاہتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مذہبی طبقات اس طبقے کی سازشوں اور چالبازیوں سے کس طرح نبردازما ہو تے ہیں اور عوام کی حمایت حاصل کرکے کس طرح نظام مصطفی کی عملداری کے لیے ایک موثر لائحہ عمل بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں