قوموں اور افراد کی زندگی میں کئی مرتبہ ایسے لمحات آتے ہیں جب انسان بیک وقت خوشی اور غم سے دو چار ہوجاتا ہے۔ غم کسی دکھ اورخوشی کسی کامیابی کی وجہ سے ہوتی ہے جو انسان کے دل میں ملے جلے احساسات کو جنم دیتے ہیں۔ برہان وانی کی شہادت اور اس کے بعد میں ہونے والے مظالم کی وجہ سے اہل کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں نے بھیـ مظلوم کشمیریوں کے دکھ اور غم کو بڑی شدت سے محسوس کیا۔ لیکن اس کے فوراً بعد پاکستان میںکشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی ایک زبردست لہر دیکھنے میں آئی۔ جماعۃ الدعوۃ نے بروقت لانگ مارچ کا انعقاد کرکے اور اس کے بعد انڈین وزیر داخلہ کے آمد پر مؤثر احتجاج کرکے کشمیر میں جدوجہد کرنے والے سیاسی اور مذہبی کارکنوں کے ساتھ کامل اظہار یکجہتی کیا۔ اسی طرح جماعت اسلامی نے بھی اس موضوع پر بہت سے اہم پروگراموں کا انعقاد کیا۔ لاہور میں پنجاب کی سطح پر آل پارٹیز کانفرنس اور اس کے بعد اسلام آباد میں قومی سطح کی آل پارٹیز کانفرنس جس میں تمام اہم جماعتوں کے نمائندگان نے شرکت کی۔ پاکستانی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کے رہنماؤں کے نمائندوں نے مسئلہ کشمیر پرانتہائی مؤثر اور مدلل گفتگو کی۔ ملی یکجہتی کونسل کا مقصد ملک میں مذہبی ہم اہنگی کو برقرار رکھنا ہے۔ لیکن اس دن ملی یکجہتی کونسل کے صدر بھی تمام رہنماؤں کی نشستوں پر جا کر مسئلہ کشمیر کے تناظر میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کی دعوت دیتے ہوئے نظر آئے۔
جماعت اسلامی کے لاہور مال روڈ سے لے کر واہگہ بارڈر تک ہونے والے مارچ نے بھی تحریک آزادی ٔ کشمیر کو جلہ بخشی۔ جمعہ کے روز جب میں لارنس روڈ پر جمعہ پڑھانے کے لیے جار رہا تھا تو میں نے کنال روڈ پر سڑک کے دونوں کناروں پرتحریک آزادی کشمیر کے بہت بڑے بڑے بینرزلگے ہوئے دیکھے۔ یہ کشمیر میں ہونے مظالم کا منظر دہی نہایت احسن انداز میں پیش کر رہے تھے۔ اسی طرح ان فلیکسز پر کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو اجاگر کرنے کے لیے بھی بہت سے مؤثر پیغامات اور نعرے درج تھے۔ یہ فلیکس عام عوام کے ذہنوں میں کشمیری عوام کے لیے پائی جانے والی وابستگی کو مزید گہرا کرنے کا سبب بن رہے تھے۔ جمعہ پڑھا کر جب میں اپنے گھر پہنچا تو میں جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر عبدالرشید ترابی کے خط کو موجود پایا۔ عبدالرشید ترابی15 اگست کو مظفر آباد سے چکوٹھی تک لانگ مارچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کی یہ خواہش تھی کہ میں بھی اس لانگ مارچ میں شرکت کروں ۔
کشمیر کے ساتھ اہل پاکستان کی والہانہ وابستگی قیام پاکستان کے دن سے ہی موجود ہے اور ہر پاکستانی اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ کشمیریوں کے انسانی، مذہبی اور آئینی حقوق کو جبراً پامال کیا جار ہا ہے۔ کشمیریوں نے اپنے سیاسی اور مذہبی حقوق کی بحالی کے لیے کئی عشروں تک طویل اور پر مشقت جدوجہد کی ہے۔ کئی مرتبہ آزادی ٔ کشمیر کے لیے چلنے والی تحریک اپنے عروج پر پہنچی اور کئی مرتبہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے وجہ سے اس تحریک کو سبوتاژ کر دیا گیا۔ کشمیری جہاں پر اپنی آزادی کے لیے بھرپور جدوجہد کر رہے ہیں وہیں پر وہ عالمی برادری ، امت مسلمہ اور بالخصوص پاکستان کی اخلاقی اور آئینی مدد کے ہمیشہ منتظر اور طلب گاررہتے ہیں۔ کسی بھی علاقے میں چلنے والی تحریک اس وقت کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے جب اس کے گردوپیش میں رہنے والے لوگ اس تحریک کی اخلاقی اور آئینی مدد کرنے کے لیے بھرپور طریقے سے آواز اُٹھاتے ہیں۔ ماضی میں کئی حکمرانوں کی سیاسی مصلحت اور ذاتی ترجیحات کی وجہ سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی کما حقہ تائید نہیں ہو سکی۔ لیکن حالیہ دور میں چلنے والی تحریک اس اعتبار سے کارگر ثابت ہوئی کہ جماعت اسلامی، جماعۃ الدعوۃ اور دیگر جماعتوں کی پیہم اور مسلسل جدوجہد کی وجہ سے حکمرانان ِ وقت بھی کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی پر آمادہ وتیار نظر آرہے ہیں۔ راج ناتھ کے دورے کے موقع پر مسجد شہداء میں جماعۃ الدعوۃ نے جلسے کا انعقاد کیا اس میں میں مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔ میںنے اہل لاہور کے دل میں کشمیریوں کے بارے میںبھرپورجذبات کو پایا۔اہل لاہور کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پرسیخ پا تھے۔ یہ بات درست ہے کہ عصرحاضر میں ملکوں کے درمیان سفارتی، سیاسی اور حکومتی تعلق رہتے ہیں ۔ موجودہ دنیا میں ان کو برقرار رکھنے کا کسی نہ کسی اعتبار سے جوازبھی ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود کئی موقعوں پر سفارتی سرگرمیاں اور اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلے بہت حد تک ناپسندیدہ تصور کیے جاتے ہیں۔ سارک کانفرنس میں بھارت اور بنگلہ دیش کے وزراء اور نمائندگان کی آمد وقت کے لحاظ سے کسی بھی طور پر موزوںنہ تھی۔
اہل لاہور اور پورا پاکستان اس بات کو محسوس کر رہا تھا کہ بھارتی وزیر داخلہ کی بے وقت آمد کی وجہ سے اہل کشمیر کے پاکستان سے وابستہ جذبات کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ چنانچہ جب مسجد شہداء میں سٹیج کو لگایا گیا اور مقررین نے اپنے اپنے انداز میں جذبات کا اظہار کیا تو اہل لاہور نے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انڈین وزیر داخلہ اور اسی طرح بنگلہ دیشیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بنگلہ دیش سے آنے والے نمائندگان کی آمد پر شدید غم وغصے کا اظہار کیا۔ اس غم وغصے کی لہر کو دیکھ کر اس بات کو محسوس کیا جاسکتاتھا کہ اہل کشمیر کو آزادی کے لیے جس حمایت وتائید کی ضرورت ہے وہ اس وقت پاکستان کے طول وعرض میں پھیل چکی ہے۔ اہل کشمیر بھی اس وقت صرف پاکستان کی اخلاقی اور سیاسی معاونت پر انحصار نہیں کر رہے بلکہ وہ اپنی حد اور اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے آزادی کے لیے بھرپور جدوجہد کرنے میں مصروف ہیں۔ اگرکشمیری اسی طرح جدوجہد کرتے رہے تو بھارتی حکومت کے تمام ترجبر ، تشدد، قتل وغارت گری، گرفتاریوں اور نظر بندیوں کے باوجود کشمیر کی آزادی کے لمحات کو آنے سے روکنا ممکن نہیں رہے گا۔ قوموں کی زندگی میں جب ایسے لمحات آ جاتے ہیں کہ وہ کفن باندھ کراپنے گھروں سے نکل آئیں ، اپنے بوڑھوں کی عزت ،ماؤں ، بہنوں کی حرمت اور معصوم بچوں کی جانوں کی قربانیاں دینے سے بھی گریز نہ کریں اس موقع پر ان کی آزادی کو غصب کیے رکھنا ممکن نہیں رہتا۔
جس وقت مسلم لیگ کے رہنما قیام پاکستان کے لیے جستجو کر رہے تھے اس وقت قیام پاکستان کا مطالبہ بھی فقط ایک نعرہ ، تشنہ خیال یا ادھور ا خواب نظر آتا تھا۔ لیکن وقت نے اس بات کو ثابت کیا کہ کئی عشروں کی جدوجہد کے بعد بالآخر وہ لمحات آگئے جب 14 اگست 1947ء کو مسلمانانِ ہند کی قربانیاں رنگ لے آئیں اور دنیا کے نقشے پر پاکستان دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی حیثیت سے ابھر آیا ۔ بھارت کو پاکستان کا قیام کسی بھی طور پر گوارا نہ تھا۔ چنانچہ وہ پاکستان کے خلاف پیہم اور مسلسل سازشوں میں مصروف رہا۔ 1971 ء میں بنگالی قوم پرستوں کی مکمل اعانت کرتے ہوئے وہ پاکستان کے خلاف ایک مکروہ اور بھیانک سازش کے تانے بانے بننے میں کامیاب ہوا اور دنیا اسلام کی سب سے بڑی مملکت ہندوؤںکی مکاری، عیاری اور سازشوں کی وجہ سے دو لخت ہو گئی۔ 1971 ء میں لگنے والا زخم ہر اعتبار سے تکلیف دہ تھا۔ لیکن کشمیر کے افراد اور عوام نے بغیر کسی انقطاع کے جدوجہد آزادی اور پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کو برقرار رکھا۔ کشمیر کی آزادی جہاں پر پاکستان کی تکمیل ہے وہیں پر بنگلہ دیش کے قیام کی شکل میں لگنے والے زخموں کا ازالہ اور مداوہ بھی ہے۔ کشمیر مذہبی، اخلاقی ، آئینی اور قومی اعتبار سے ہمارا ہے اور سارے کا سارا ہے ۔ یہ نعرہ اس وقت پاکستان کے گلی کوچوں میں گونج رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جس وقت یہ نعرہ اور تمنا مکمل ہو جائے گی اور کشمیریوں کی قربانیاں اور جدوجہد ثمر آور ہو جائے گی۔ اس کے لیے جہاں پر حکومت کو موثر اقدامات کرنے ہوں گے وہیں پر مذہبی جماعتوں اورقوم کو حکومت کو بیدار اور کھڑا رکھنے کے لیے عوامی اجتماعات ، جلسے، جلوسوں ، ریلیوںاور جدوجہد کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔