اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو جہاں بہت سی دوسری نعمتیں عطا کی ہیں‘ وہاں اظہار کے لیے زبان کی نعمت سے بھی نوازا ہے۔ زبان انسان کے جذبات، احساسات، تمناؤں، خیالات، افکار اور نظریات کی ترجمان ہوتی ہے۔ انسان اس زبان کے ذریعے دنیا اور آخرت کی سربلندیوں سے ہمکنار ہو سکتا ہے اور اسی کے ذریعے دنیا اور آخرت کی ذلت اور رسوائیوں کو بھی اپنے لیے جمع کر سکتا ہے۔ زبان کہنے کو گوشت کا ایک ٹکڑا ہے لیکن یہی زبان کبھی انسان کی عظمت کی علامت اور کبھی اس کی ذلت و رسوائی کا سبب بن جاتی ہے۔ اگر ہم زبان کے استعمال پر غور کریں تو یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ اس سے بہت سے مثبت کام کیے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ ذکر الٰہی: زبان کے ذریعے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ اس کے قرآن مجید کے تلاوت کی جا سکتی ہے اور اس کے ذریعے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی عبادات میں مشغول رکھا جا سکتا ہے۔ جب انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو سورہ بقرہ کی آیت نمبر152 کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا‘‘۔ گویا کہ زبان کے درست استعمال کے ذریعے انسان اللہ تبار ک و تعالیٰ کی قربت کی منازل طے کرنا شروع کر دیتا ہے۔
2۔ دعا: انسان کی زندگی نشیب و فراز سے عبارت ہے۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو بہت سے اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زبان کے ذریعے انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد طلب کر سکتا ہے اور اپنی تمنائیں اور ضروریات اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کر سکتا ہے۔ گو دعا انسان کی ضرورت اور تشنہ تمناؤں کا اظہار ہے‘ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ انسان کی اس دعا کو بھی عبادات میں شامل کر لیتے ہیں۔
3۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر: اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر110 میں مسلمانوں کو بہترین اُمت قرار دیا اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ یہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ زبان کے ذریعے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے کر انسان جہاں پر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے‘ وہاں لوگوں کی اصلاح کا فریضہ بھی احسن طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔
4۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا اور ان کی نعت کہنا: زبان کا ایک مثبت استعمال یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جائے اور ان کی تعریف کی جائے۔ جو شخص ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر درود بھیجتا ہے اللہ تبار ک و تعالیٰ دس مرتبہ اس پر درود بھیجتے ہیں۔
5۔ جائز ضروریات اور معاشی معاملات کی تکمیل: زبان کے ذریعے انسان اپنی جائز ضروریات اور معاشی معاملات کی تکمیل کا فریضہ بھی انجام دے سکتا ہے۔ زبان ہی کے ذریعے انسان سامان تجارت فروخت کرتا اور اسی کے ذریعے انسان اپنی بیوی بچوں کی جائز ضروریات پورا کرتا ہے۔
6۔ علم کا حصول: زبان کے ذریعے انسان اپنے علم میں اضافہ کرتا ہے۔ انسان آنکھوں اور کانوں کے ذریعے علم اور معلومات سنتا اور جمع کرتا ہے اور ابہام اور شک پیدا ہونے کی صورت میں زبان کے ذریعے مشتبہ اور مشکل امور کے حل کے لیے سوال کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ انبیاء کی آیت نمبر7 میں ارشاد فرمایا: ''تم اہلِ ذکر سے سوال کر لیا کرو اگر خود تمہیں علم نہ ہو‘‘۔
7۔ قرابت داروں سے پیار اور محبت کا اظہار: زبان کے ذریعے انسان اپنے اعزا و اقارب اور رشتہ داروں سے پیار اور محبت کا اظہار کر سکتا ہے۔ والدین کو ادب اور احترام کے ساتھ پکار کر اپنے لیے جنت کی راہوں کو آسان کر سکتا ہے۔
8۔ بیوی بچوں کی اصلاح: زبان کے ذریعے انسان اپنے گھربار کی اصلاح کا فریضہ انجام دے سکتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ مریم کی آیت نمبر55 میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''وہ اپنے اہل خانہ کو برابر نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا کرتے تھے‘‘۔ اسی طرح سورہ تحریم کی آیت نمبر6 میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امر کا اظہار فرمایا کہ''اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘۔ اہل خانہ کی اصلاح اسی وقت ممکن ہے جب انسان زبان کو ان معاملات کے لیے استعمال کرے۔
9۔ احسان کرنے والوں کا شکریہ ادا کرنا: زبان کا ایک مثبت استعمال یہ بھی ہے کہ جس شخص نے آپ پر احسان کیا ہو‘ اس کا شکریہ ادا کریں۔
جہاں زبان کے بہت سے مثبت استعمال ہیں وہاں اس کے بہت سے منفی استعمال بھی ہیں‘ جن کے ذریعے انسان ناکامی اور نامرادی کے راستوں پر گامزن ہو سکتا ہے۔ ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ جھوٹ بولنا: بہت سے لوگ گاہے بگاہے بلا ضرورت جھوٹ بولتے رہتے ہیں اور مسلسل جھوٹ بولنے کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضگی کے مستحق بن جاتے ہیں۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر61 کے مطابق جھوٹوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔
2۔ غیبت کرنا: بہت سے لوگ زبان کے ذریعے اپنے بھائیوں کے عیبوں کو ٹٹولتے اور اُچھالتے ہوئے نظر آتے ہیں‘ حالانکہ یہ انتہائی گناہ کا کام ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ حجرات میں غیبت کرنے والے کی مثال کچھ اس طرح دی ہے گویا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہو۔ جس طرح کوئی شخص اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند نہیں کرتا اسی طرح انسان کو دوسرے شخص کی غیبت کرنے کو بھی ناپسند کرنا چاہیے۔
3۔ بہتان طرازی: ہمارے معاشرے میں جہاں غیبت کا چلن عام ہے وہیں بہتان ترازی کا عمل بھی تواتر سے دیکھنے میں آتا ہے کہ کئی مرتبہ لوگ دوسروں کی نسبت ایسی بات کرتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسے الفاظ بہتان کے زمرے میں آتے ہیں۔ قرآن مجید میں بہتان تراشی کی مذمت کی ہے اور اس حوالے سے ان لوگوں کو‘ جو پاکدامن عورتوں پر جھوٹے الزام لگاتے ہیں‘ حد قذف کا مستحق قرار دیا ہے۔ پاکدامن عورتوں پر بدکرداری اور بے حیائی کے جھوٹے الزام لگانے کی پاداش میں انہیں ازروئے شریعت 80 کوڑے لگنے چاہئیں۔
4۔ گالی گلوچ: زبان کے منفی استعمال میں سے ایک‘ دوسروں کو گالی دینا بھی ہے۔ حدیث پاک کے مطابق مسلمان کو گالی دینا گناہ کا کام ہے اور اس سے لڑائی جھگڑا کرنا‘ دست و گریبان ہونا یا اس کے خلاف اسلحہ اُٹھانا کفر کے راستے پر چلنے کے مترادف ہے۔ انسان کو اپنی زبان کو احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے اور دوسروں کی حرمت کو پامال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
5۔ استہزا کرنا اور غلط القاب سے کسی کو پکارنا: سورہ حجرات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو دوسروں کا بلاجواز استہزا کرنے سے روکا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورت میں مسلمان مردوں اور عورتوں کو یہ بات سمجھائی کہ جن کا تم مذاق اُڑاتے ہو‘ ہو سکتا ہے وہ تم سے بہتر ہوں۔ اسی طرح دوسروں کے لیے ایسے القاب استعمال کرنا جس سے دوسروں کی حیثیت کم ہوتی ہو‘ اس کا بھی اسلام میں کوئی جواز موجود نہیں۔ دوسروں کے عیب اچھالنے کے لیے نقالی کرنا بھی استہزا اور طنز کرنے ہی کا ایک انداز ہے جس سے ہر مومن و مسلمان کو بچنا چاہیے۔
6۔ کسی کے نسب پر طعن کرنا: زمانہ جاہلیت میں لوگ دوسروں کے نسب پر طعن کیا کرتے تھے۔ آج بھی لوگ ایک دوسرے کے نسب اور برادری پر طعن کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم سب اولاد آدم ہیں، ہم سب کی نسل ایک ہے، اس لیے ہمیں کسی دوسرے کو اپنے سے کم تر نہیں جاننا چاہیے۔
7: حسب و نسب پر فخر: جس طرح کسی کے نسب پر طعن کرنا درست نہیں‘ اسی طرح اپنے حسب و نسب پر فخر کرنے کی بھی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ سورہ حجرات کے مطابق قبائل اور برادریاں تعارف کے لیے ہیں۔ اللہ کی نظروں میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو اس سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔
8۔ بدگمانی پیدا کرنا: بعض لوگ دوسروں کے خلاف بد گمانی پیدا کرنے کے لیے افواہیں اُڑاتے اور غیر مصدقہ گفتگو کی نشرواشاعت کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِس رویے کی مذمت کرتے ہوئے سورہ حجرات کی آیت نمبر6 میں ارشاد فرمایا کہ ''اے ایمان والو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اُٹھاؤ‘‘۔
9۔ فحاشی کی نشرواشاعت: بعض لوگ اپنی زبان کے ذریعے فحش گوئی میں مشغول رہتے ہیں اور ان کا مقصد مسلمانوں کے درمیان فحاشی کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ نور کی آیت نمبر19 میں ارشاد فرمایا کہ ''جو لوگ مسلمانوں میں فحاشی پھیلانے کے آرزومند رہتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے‘‘۔ اسی طرح زبان کے منفی استعمال میں اپنے نظریات اور محبوب شخصیات کی شان میں بے جا غلو کرنا ‘ناشکری کرنا‘ تکبر کرنا‘ گمراہی پھیلانا‘ نیکی سے روکنا اور بدی کا حکم دینا بھی شامل ہیں۔ ان تمام باتوں سے احتراز کرنا ہر مومن و مسلمان کے لیے ضروری ہے۔
ہمیں چاہیے کہ زبان کے مثبت استعمال کے ذریعے جنت کی راہوں کو اپنے لیے آسان کر لیں اور زبان کے منفی استعمال کے ذریعے جہنم کمانے والے راستے پر نہ چل پڑیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں زبان کے مثبت استعمال کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔