علامہ محمد اقبال کو ہم سے جدا ہوئے 78 برس سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔ لیکن آج بھی ان کی یادوں کی شمع ہر محب دین وملت کے دل میں جگمگا رہی ہے۔ آپ ؒ ان عبقری شخصیات میں شامل ہیں کہ گردش دوراں اور وقت کا مد وجزرجن کی عظمت کے احساس کو دھندلا نہیں سکتا۔ علامہ محمد اقبال کو یہ مقام بلند اس لیے حاصل ہوا کہ انہوں نے اپنی شاعری کو ایک مقصد کے لیے استعمال کیا۔ اردو زبان نے اگرچہ جہاں پر غالب، میرتقی میر، الطاف حسین حالی،حسرت موہانی، اکبر الہ آبادی، مولانا ظفر علی خان اور دیگر بہت سے قادر الکلام شعراء کو پیدا کیا لیکن اس کے باوجود علامہ محمد اقبال اس اعتبار سے ایک منفرد مقام کے حامل ہیں کہ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے جو پیغام ملک و ملت کے بہی خواہوں کو دیا وہ اس قبل کوئی دوسرا شاعر دینے سے قاصر رہا۔ علامہ محمد اقبال اس دیس کے مصور ہیں جس میں آج ہم آزادی کے ساتھ سانس لے رہے ہیں۔ بہت سے لوگ علامہ محمد اقبال کی فکر پر تنقید کرتے ہیں لیکن یہ کوتاہ بین لوگ حضرت علامہ ؒ کی فکر اور بلندی کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ علامہ محمد اقبال کی شاعری کا مطالعہ کرنے کے بعد جہاںانسان کی فکر کی اصلاح ہوتی ہے وہیں پر وہ عمل کی طرف بھی راغب ہوتا ہے۔ بچپن ِمیں علامہ محمد اقبال کے یہ شعر سکول کی سطح پر پڑھنے اور سننے کا موقع ملا ؎
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
علامہ محمد اقبال نے اس شعر کے ذریعے انسانوںکو انتہائی خوبصورت پیغام دیا کہ ان کی زندگی شمع کی مانند ہونی چاہیے اور ان کو تاریکیاں اور اندھیرے پھیلانے کی بجائے ہرسو روشنی پھیلانی چاہیے۔ علامہ محمد اقبال کے یہ شعر بھی ہمارے سکول کی اسمبلی میں ہر ہفتے پڑھے جاتے تھے؎
چین وعرب ہمارا ، ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
علامہ محمد اقبال نے ان شعروں کے ذریعے ہمیں ایک آفاقی قوم ہونے کا احساس دلایا اور یہ بات بتلائی کہ مشرق و مغرب میں پھیلی ہوئی زمین درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی ملکیت ہے اور ہم چونکہ مسلمان ہیں اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ساری زمین ہی ہماری ہے۔ علامہ محمد اقبال نے ایک کثیر القومی ریاست میں بسنے والے مسلمانوں کو نظریاتی اور فکری اعتبار سے جوڑنے کے لیے جو فلسفہ پیش کیا اس کی وجہ سے ہندوستان میں رہنے والا مکار ہندوا ورچالباز انگریز مسلمانوں کی آزادی پر شب خون مارنے سے قاصر رہا۔ علامہ محمد اقبال نے اپنے شعروں کے ذریعے یہ انقلابی پیغام دیاکہ؎
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں، قوم رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملت ونسب پہ انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
علامہ محمد اقبال نے زوال امت کا اور مسلمانوں کی بے عملی کا نقشہ بھی بڑے خوبصورت اور احسن انداز میں کھینچا۔ علامہ محمد اقبال نے خوبصورت انداز میں یہ شعر کہے ؎
مسجد تو بناد ی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
علامہ محمد اقبال نے اس شعر کے ذریعے مسلمانوں کی دین سے دوری اور بے رغبتی کا منظر بہت ہی دردناک مناظرمیں کھینچا کہ آج کا مسلمان مسجد بنانے کی صلاحیت تو رکھتا ہے مگر اسے آباد کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ کچی چھتوں کے نیچے نماز پڑھنے والا مسلمان آج وسائل کی فراوانی کی وجہ سے مسجدوں سے دور ہو چکا ، اپنے مقصد زندگی کو بھلا چکا ہے اور اپنے خالق ومالک کی بندگی کو فراموش کر چکاہے۔ علامہ محمد اقبال نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے مسلمانوں کی قوت عمل کو بحال کرنے کے لیے بھی بہت سے خوبصورت اشعار کہے ایک مقام پر آپؒ ارشادفرماتے ہیں ؎
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دم ہے اگر تو ، تو نہیں خطرۂ افتاد
ایک اور مقام پر مسلسل جدوجہد کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے فرماتے ہیں:
سمجھتا ہے تو، راز ہے زندگی
فقط ذوق پرواز ہے زندگی
بہت اس نے دیکھے ہیں پست وبلند
سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند
سفر زندگی کے لیے برگ وساز
سفر ہے حقیقت،حضر ہے مجاز
علامہ اقبال اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ انسان کی فکری بے راہ روی اور صحیح راستے سے انحراف کا بڑا سبب مادہ پرستی اورلالچ ہے۔ علامہ اقبال نے انسان کی بڑھتی ہوئی مادی خواہشات کو حق پرستی کا بنیادی دشمن قرار دیتے ہوئے اس کی متعدد مقامات پر بھر پور مذمت کی ہے۔ فرماتے ہیں ؎
تعمیر آشیاں سے میں نے یہ راز پایا
اہل نواکے حق میں بجلی ہے آشیانہ
وہ اس بات کو بھانپ چکے تھے کہ مسلمان سامراج کے سامنے تبھی جھکے گا جب اس کی سوچ کا مرکز و محور اقتصادیات بن جائے گا۔ آج جس انداز میں ہماری حکومتیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینکوں کے شکنجوں میں پھنسی ہوئی ہیں ان سے آزاد فیصلوں کی توقع اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ مانگنے والا اور ہاتھ پھیلانے والا کبھی اپنے فیصلوں میں خود مختار نہیں ہو سکتا۔ علامہ اقبال نے اس حقیقت کو انتہائی خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے ، فرماتے ہیں؎
یہ بندگی خدائی، وہ بندگی گدائی
یا بندۂ خدا بن یا بندۂ زمانہ
بعض افرادکے نزدیک ریاست اورفرد کی اقتصادی ترقی اس کی کامیابی کی علامت ہے۔ ایسے لوگ غیرت کو بیچ کر حاصل ہونے والے رزق کو بھی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اس غلط تصور کی بھرپور نفی کرتے ہوئے فرمایا؎
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسدالٰہی
آئین جواں مردی، حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
علامہ اقبال نے قوموں کے دفاع اور بقاء کے لیے اُن کی ایمانی قوت کو اساسی حیثیت دی ہے ۔ آپ کے نزدیک مادی کمزوری پر روحانی طاقت کے ذریعے غلبہ پایا جا سکتا ہے۔ آپ ایمان کی طاقت کو اسلحے کی طاقت سے زیادہ اہم گردانتے تھے۔ اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا؎
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
ایمان اور یقین کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ایک اور مقام پر فرماتے ہیں؎
غلامی میںنہ کام آتی ہیں شمشیریں، نہ تدبیریں
جوہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
آپ کے نزدیک تہذیبوں کی کشمکش میں مسلمانوں کی اصل قوت ان کا ایمان ہے۔ چنانچہ فرمایا:
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
آپ اپنی اس فکر کو ثابت کرنے کے لیے میدان بدر کا نقشہ کھینچتے ہیں۔ آپ کا استدلال تھا کہ اگر بدر کے معرکے میں مسلمان اسلحے، وسائل اور افرادکی کمی کے باوجود کافروں پر غالب آسکتے تھے تو آج کا مسلمان اپنے ایمان کی طاقت سے کافروں پر غلبہ حاصل کیوں نہیں کر سکتا۔ فرماتے ہیں: ؎
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
علامہ اقبال کے نزدیک ایمان کی پختگی کے حصول کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی والہانہ محبت اور زندگی میں پیش آنے والی مشکلات پر صبر کرنا اور حالات کے مدوجزر کی حکمت کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ زوال امت کے حوالے سے مسلمانوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک وشبہات کے اظہار کے لیے آپ ؒنے اپنی مشہور نظم ''شکوہ ‘‘لکھی۔اس نظم میں اُٹھائے گئے سوالات کا جواب ''جواب شکوہ‘‘ میں دے کر اس بات کو واضح کر دیا کہ مسلمانوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے گلہ کرنے کی بجائے اپنے اعمال پر غور کرنا چاہیے اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے کردار کے ساتھ اپنے طرزعمل کا موازنہ کرناچاہیے۔ مسلمانوں کو ترقی کے راستے پر چلنے کے لیے اپنے ایمان وعمل کی اصلاح کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے جواب شکوہ کے علاوہ آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اپنی بے مثال نظم کو لکھ کر مسلمانوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑا اور انہیں احساس دلایا کہ ضرورت پڑھنے پر جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی ہر چیز کو اسلام کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ہمیں بھی دین اور اسلامی سرحدوں کے دفاع کے لیے اسی قسم کا کردار پیش کرنا چاہیے۔ علامہ اقبال نے اپنے کلام میں جن حقائق کی نشاندہی کی ہے ان سے رہنمائی حاصل کرکے امت مسلمہ اپنے اسلاف کی روایات کو واپس پلٹا سکتی ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم کلام اقبال سننے اور سنانے سے ایک قدم آگے بڑھا کر پیغام اقبال پر عمل کرنے اور اس کو آگے پہنچانا چاہیے۔