عام مسلمانوں کا گمان یہ ہے کہ گناہوں سے اجنتاب کے نتیجے میں انسان کو جنت حاصل ہو گی اور گناہوں کے ارتکاب کے نتیجے میں وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔ لیکن انسانی زندگی پر گناہوں کے اثرات اور ان سے اجتناب کے فوائد کو عموما ً نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ انسان گناہوں کے مسلسل ارتکاب کے ذریعے جہنم کا مستحق ٹھہرے گا۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 81میں ارشاد فرماتے ہیں ''ہاں جس نے گناہ کیے اور اس کی برائیوں نے اس کو گھیر لیا تو یہی لوگ اہل نار ہیں اور یہیں ہمیشہ رہیں گے۔ ‘‘اسی طرح سورہ بقرہ ہی کی آیت نمبر 82 میں ارشاد ہواکہ'' جو لوگ ایمان لائے اور (انہوں نے )عمل صالح کیے تو وہی لوگ جنتی ہیں ،وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔‘‘لیکن اس حقیقت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ گناہوں کے اثرات انسان کی دنیاوی زندگی پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کلام حمید میں مختلف مقامات پر اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30 میں اعلان فرماتے ہیں ''اور جو تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہے۔ ‘‘اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کے اجتماعی گناہوں کے حوالے سے سورہ روم کی آیت نمبر 41 میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ ''فساد ظاہر ہوگیا خشکی اور سمندر میں اس وجہ سے جو کمایا لوگوں کے ہاتھوں نے۔‘‘ گویا کہ انسان کی بداعمالیاں اس کی زندگی میں تکالیف کو لے کر آتی ہیں۔ اس طرح انسانوں کے اجتماعی گناہوں کے نتیجے میں زمین پر انتشار اور فساد پھیل جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت نمبر 112میں ایک بستی کا ذکر کیا جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے رزق اور امن کی نعمت عطا کر رکھی تھی جب انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو خوف اور بھوک میں مبتلا کر دیا۔ گویا کہ انسانوں کی ناشکری اور نافرمانی کی وجہ سے امن خوف میں اور رزق بھوک میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید نے ہمیں یہ بھی بتلایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جہاں گناہوں پر گرفت فرمانے والے ہیں وہیں پر نیک و کاروں کو حیات طیبہ کی عظیم نعمت سے بھی نوازنے والے ہیں ۔اسی طرح قرآن مجید نے ہمارے سامنے یہ بات بھی رکھی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انتہائی مہربان اور انسانوں کی جملہ خطاؤں کو معاف فرمانے والے ہیں۔ سورہ زمر کی آیت نمبر 53میں مالک کائنات اعلان فرماتے ہیں ''اے میرے بندو! جو اپنی جانوں پر زیادتی کر چکے ہو اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو‘بے شک اللہ تعالیٰ سب گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ ‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فرقان کی آیت نمبر 68میں شرک، قتل اور زنا کا ذکر کیا اور ان کبیرہ گناہوں کے مرتکبین کو جہنم کی وعید سنائی۔ چنانچہ آیت نمبر 68، 69 اور 70میں ارشاد ہوا '' وہ لوگ جو نہیں پکارتے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو ، اور جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے نا حق قتل نہیں کرتے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ کرے گا وہ ملے گا سخت گناہ کو ،دوگنا کیا جائے گا اس کے لیے عذاب قیامت کے دن اور وہ ہمیشہ رہے گا اس میں ذلیل ہو کر۔مگر جس نے توبہ کی ایمان لایا اور نیک عمل کیے تو یہی لوگ ہیں کہ اللہ بدل دے گا ان کے گناہوں کو نیکیوں سے۔‘‘گویا کہ گناہوں کے ارتکاب کے بعد بھی توبہ کی شکل میںواپسی کی ایک صورت موجود ہے۔ جو شخص (سیئات )کا ارتکاب کرنے کے بعد بھی اپنی اصلاح کرلیتا ہے وہ بھی نیک وکاروں میں شامل ہو جاتا ہے ۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے ابتداء ہی سے پرہیز گار ی کی زندگی گزارنے والوں اور توبہ تائب ہو کر نیک و کاروں میں شامل ہو جانے والوں کے لیے آخرت کی سرخروئی اور کامیابیوں کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی بہت سی کامیابیاں تیار کر رکھی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ طلاق کی آیت نمبر 2 اور 3 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے تقویٰ کا اختیار کرے گا اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنائیں گے اور اس کو رزق وہاں سے دیں گے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا۔‘‘
انسان کی زندگی میں دو بڑی خواہشات ہوتی ہیں ایک یہ کہ وہ اپنی پریشانی پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے اور دوسرا یہ کہ وہ خوشحالی کی زندگی گزارنے کے قابل ہو جائے۔ آیات مذکورہ اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ انسان کی یہ دونوں خواہشات تقویٰ کے ذریعے پوری ہو سکتی ہیں۔
گناہوں سے اجتنا ب او ر تقویٰ کو اختیار کرنے کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ طلاق ہی کی آیت نمبر 5میں ارشاد فرماتے ہیں ''جو اللہ تبارک وتعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرے گا تو وہ گناہوں کو معاف کردے گا اور اس کے اجر کو زیادہ کر دے گا۔ ‘‘ گویا کہ گناہوں سے اجتناب اور تقویٰ کا اختیار کرنے کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ سابقہ تمام خطاؤں کو بھی معاف فرما دیتے ہیں۔اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ طلاق کی آیت نمبر 4میں اس بات کا بھی ذکر کیا ''جو تقویٰ کو اختیار کرے گا تواللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کے کام میں آسانی کر دے گا۔‘‘ جب اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کے کسی کام یا معاملے کو آسان کر دیں تو معاملہ خواہ کتنا ہی بوجھل کیوں نہ ہو انسان کے لیے آسانی والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ اس کے بالمقابل اگر انسان کسی مسئلے میں نفسیاتی الجھاؤ ،حیرت یا مشکل سے دوچار ہو جائے تو ایسی صورت میں چھوٹی سے چھوٹی تکلیف بھی انسان کے لیے وبال جان بن جاتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آیت مذکور میں اس بات کی نوید سنائی کہ جو کوئی اللہ تبارک وتعالیٰ کے تقویٰ کوا ختیار کرے گا اللہ اس کے معاملات کو آسان بنا دیں گے۔ معاملات ملازمت، تعلیم، روزگاریا کسی بھی اور نوعیت کے ہوں جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کو اختیار کرتے ہوئے گناہوں سے اجتناب کرنا شروع کردیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے آسانی پیدا فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ اعراف میں سابق اقوام پر آنے والے عذابوں کا ذکر کیا کہ ان اقوام کے لوگوں نے جب اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر اپنی گرفت اور اپنے عذابوں کو مسلط کر دیا۔ اقوام سابق پر آنے والے عذابوں کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف کی آیت نمبر 97میں اس بات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ''اگر واقعی بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ کا اختیار کر لیتے تو ہم ضرور کھول دیتے ان پر برکتیں آسمان اور زمین سے ‘لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے پکڑ لیا انہیں ۔‘‘گویا کہ گناہوں اللہ تبارک وتعالیٰ کی پکڑ کو دعوت دینے والے اور اس کے بالمقابل تقویٰ اور گناہوں سے اجتناب انسان کے لیے آسمان اور زمین سے برکات کے دروازے کھل جانے کا سبب بن جاتا ہے۔
انسان کی دشواریاں، تنگیاں اور تکالیف اللہ کے فضل وکرم سے گناہوں سے اجتناب کے نتیجے میں دور ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ انفال کی آیت نمبر 29میں اس بات کا ذکر فرمایا کہ ''اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لیے حق وباطل کا فرق ظاہر کر دے گا۔‘‘ نیکی ،بدی اور اندھیرے اجالے کے درمیان فرق کرنا اس کے بارے میں صلاحیت کا پیدا ہوجانا اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی عطا ہے۔ جب کوئی انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کے ڈر کو اپنے دل میں جگہ دینا شروع کر دیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس میں حس پیدا فرما دیتے ہیں کہ وہ ہدایت اور گمراہی کو پہچاننے کے قابل ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ ہدایت کے راستوں کو اختیار کر لیتا ہے اور برائی کے راستوں سے بچ جاتا ہے۔ تقویٰ ہی کے فوائد کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حجرات کی آیت نمبر 13میں اس بات کا اعلان فرماتے ہیں '' بے شک تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ عزت دار وہ ہے جو پرہیز گار ہے۔ ‘‘ ہر انسان عزت کا طلب گار ہے اور اس عزت کے حصول کے لیے انسان کئی مرتبہ ہر چیز کو داؤ پر لگانے کے تیار ہو جاتا ہے۔ لیکن قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت بتلائی ہے کہ حقیقی عزت اگر حاصل ہوگی تو وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت اور گناہوں سے اجتناب کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔ اخروی کامیابی کے ساتھ ساتھ دنیا میں رہتے ہوئے تقویٰ کو اختیار کرنے کے نتیجے میں بہت سے فوائد ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کو دینے والے ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 189میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ کامیابی پاؤ۔‘‘ تقویٰ کے نتیجے میں جہاں اخروی کامیابیاں حاصل ہوں گی ہم مندرجہ بالا دنیاوی فوائد کو بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نیکی کے راستے پر چلنے اور گناہ سے اجتناب کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین!