"AIZ" (space) message & send to 7575

تخلیق کا مقصد

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو مشاہدے کی نعمت سے نوازا ہے۔جب ایک ذہین انسان کسی خوبصورت عمارت کو دیکھتا ہے تو اس کی توجہ اس کے بنانے والے اور اس کے بنانے کے مقصد کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ چنانچہ کسی بڑے پارک ، ہسپتال یا خوبصورت سکول کو دیکھ کر اس کو بنانے والے انجینئر اور معمار کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ انہیں بنانے کا مقصد بھی سمجھ آ جاتا ہے۔ ایک بڑے پارک کے بنانے کا مقصد ورزش اور تفریح کا موقع فراہم کرنا، ایک ہسپتال کے بنانے کا مقصد علاج ومعالجے کی سہولیات کو بہم پہنچانا ،جب کہ کسی سکول یا کالج کے قیا م کا مقصد لوگوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ یہ تاسف کا مقام ہے کہ وہی انسان جو اپنے گردوپیش میں موجود اشیاء کی بناوٹ اور ان کے بننے کے مقاصد پر غوروفکر کرتا رہتا ہے ۔کائنات کے اس اسرارورموز پر غور کرنے کی چنداں کوشش نہیں کرتا۔ حالانکہ اس کو زمین وآسمان کی تخلیق پر بھی غوروفکر کرکے اپنے خالق اور تخلیق کے مقصد کو پہچاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حوالے سے قرآن مجید میںمتعدد آیات کا نزول فرمایا ۔چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر164 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے آنے جانے میں اور ان کشتیوں میں جو سمند رمیں چلتی ہیں (وہ چیزیں )لے کر جو نفع دیتی ہیں لوگوں کو اور (اس میں ) جو اللہ نے اتارا ہے آسمان سے پانی، پھر زندہ (آباد) کیااس کے ذریعے زمین کو اس کے مردہ (بنجر) ہونے کے بعد اور پھیلادی اس میں ہر طرح کی جاندار مخلوق اور ہواؤں کی گردش اور تابع فرماں بادل میں (جو) درمیان ہے آسمان اور زمین کے ۔(ان سب میں ) یقینا نشانیاں ہیں اس قوم کے لیے جو عقل رکھتی ہے۔‘‘
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ غاشیہ کی آیت نمبر 17 سے لے کر 20 تک انسانوں کی توجہ اپنی تخلیق کردہ مختلف چیزوں کی طرف مبذول کروائی۔ ''تو کیا وہ نہیں دیکھتے اونٹوں کی طرف کہ وہ کیسے پیدا کیے گئے ہیں۔ اور آسمان کی طرف کہ وہ کیسے بلند کیا گیا ہے۔ اور پہاڑوں کی طرف کہ وہ کیسے گاڑے گئے ہیں اور زمین کی طرف کہ وہ کیسے بچھائی گئی ہے۔ ‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر8 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور گھوڑے اور خچر اور گدھے (پیدا کیے)تاکہ تم سواری کرو ان پر اور زینت (کے لیے) اور وہ پیدا کرتا ہے (ایسی چیزیں) جو تم نہیں جانتے۔ ‘‘اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت نمبر 10 ،11 ،12 اور 13 میں ارشاد فرمایا ''وہی ہے جس نے نازل کیا آسمان سے پانی تمہارے لیے ،تمہارے لیے اس سے کچھ پینا ہے اور اسی سے پودے ہیں (کہ) اس میں تم چراتے ہو۔وہ اگاتا ہے تمہارے لیے اس کے ذریعے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر طرح کے پھل۔ بے شک اس میں یقینا نشانی ہے ان لوگوں کے لیے (کہ) وہ غوروفکر کرتے ہیں۔اور اس نے مسخر کر دیا تمہارے لیے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو اور ستارے مسخر ہیں اس کے حکم سے۔ بے شک اس میں یقینا نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے (جو) عقل سے کام لیتے ہیں ۔ اور جو کچھ اس نے پھیلادیا تمہارے لیے زمین میں کہ مختلف ہیں اس کے رنگ ۔بے شک اس میں یقینا نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ ‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے خشکی پر موجود اپنی نشانیوں کے ساتھ ساتھ سمندروں میں موجود اپنی نشانیوں کی طرف بھی مبذول فرمایا۔ چنانچہ سورہ نحل کی آیت نمبر 14 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور وہ وہی ہے جس نے مسخر کر دیا سمندر کو تاکہ تم کھاؤ اس سے تازہ گوشت اور تم نکالو اس سے سامان زینت (کہ) تم پہنتے ہو انہیں اور تودیکھتا ہے کشتیوں کو پانی چیرتی چلی جانے والی ہیں اس میں ۔اور تاکہ تم تلاش کرو اس کے فضل سے ۔ اور تاکہ تم شکر کرو (اس کی نعمتوں کا) ۔‘‘زمین کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے پہاڑوں کو پیدا کیا اور اس میں نہروں اور راستوں کو بنایا تاکہ انسان زمین پر باآسانی سفر بھی کر سکے اور اپنی آب پاشی کی ضروریات کو بھی پورا کر سکے۔چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ اسی سورہ کی آیت نمبر 15 اور 16 میں ارشا د فرماتے ہیں ''اور اس نے گاڑ دیے زمین میں پہاڑ کہ وہ ہلا (نہ ) دے تم کو، اور نہریں اور راستے (بنائے)تاکہ تم راہ پاؤ ۔ اور راستوں میں نشانات (بنائے)اور ستاروں سے وہ لوگ راستہ معلوم کرتے ہیں۔‘‘
ان تمام آیات پر غوروغوض کرنے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید ہی میں انسان کے سامنے اس بات کو بھی رکھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ سب کچھ کھیل تماشے کے لیے نہیں بنایا ۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انبیاء کی آیت نمبر16 اور 17 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور نہیں ہم نے پیدا کیا آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کھیلتے ہوئے (یعنی بے مقصد پیدا نہیں کیا) اگر ہم چاہتے کہ بنائیں کوئی کھیل تماشہ تو یقینا ہم بنالیتے اسے اپنے پاس سے اگر ہم ہوتے ایسا کرنے والے۔ ‘‘
اسی حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ الذاریات کی آیت نمبر56 میں یوں کیا ''اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔ ‘‘
اسی مقصد تخلیق کو اللہ تبارک وتعالیٰ ایک اور انداز میں سورہ نحل کی آیات نمبر78 سے 83 میں یو ں بیان فرماتے ہیں ''اور اللہ نے نکالا تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے (اس حال میں کہ )تم نہیں جانتے تھے کچھ بھی اور اس نے بنا دیے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل تاکہ تم شکر کرو۔ کیا نہیں دیکھا انہوں نے پرندوں کی طرف (کہ)مسخر ہیں آسمان کی فضامیں۔ نہیں روکتا انہیں فضا میں مگر اللہ ہی ، بے شک اس میں یقینا نشانیاں ہیں اس قوم کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔اور اللہ نے بنائی تمہارے لیے گھروں سے رہنے کی جگہ اور بنائے تمہارے لیے چوپایوں کے چمڑوں سے گھر (خیمے)۔ تم ہلکا پھلکا پاتے ہو انہیں اپنے سفر کے دن اور اپنی اقامت کے دن اور ان کی اون ،پشم اور بالوںسے گھر کا سامان اور ایک وقت تک فائدہ اُٹھانے کی چیزیں بنائیں۔اورا للہ ہی نے بنا دیے تمہارے لیے سائے (ان چیزوں ) سے جو اس نے پیدا کیں۔ اور اس نے بنائی تمہارے لیے پہاڑوں میں غاریں اور اس نے بنائیں تمہارے لیے قمیصیں وہ بچاتی ہیں تمہیں گرمی سے اور وہ قمیصیں (زرہیں) (جو) بچاتی ہیں تمہیں تمہاری جنگ میں۔ اسی طرح وہ پوری کرتا ہے اپنی نعمت تم پر تاکہ تم فرماں بردار بن جاؤ۔پھر اگروہ پھر جائیں بے شک صرف آپ کے ذمے واضح طور پرپہنچا دینا ہے۔وہ پہچانتے ہیں اللہ کی نعمت کو پھر وہ انکار کرتے ہیں اس کا اور ان میں سے اکثر ناشکرے ہیں۔ ‘‘
اس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ملک کی پہلی دو آیات میں یہ بات ارشاد فرمائی ''بہت برکت والا ہے وہ جو (کہ) اس کے ہاتھ میں ہے بادشاہی اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (وہ ) جس نے پیدا کیا موت اور زندگی کو تاکہ وہ آزمائے تمہیں (کہ) تم میں سے کون زیادہ اچھا ہے عمل کے لحاظ سے اور وہی غالب اور خوب بخشنے والا ہے۔ ‘‘ یہ تمام آیات اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر ایمان لانا،اچھے اعمال کو بجالانا اور اس کی نعمتوں کی شکر گزاری کرناہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ انہی حقائق کو سورہ آل عمران کی آیت نمبر 190 اور 191 میں یوں بیان فرماتے ہیں ''بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں یقینا نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے ۔وہ لوگ جو ذکر کرتے ہیں اللہ کا کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر اور اپنے پہلوؤں کے بل۔ اور غوروفکر کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں (اور کہتے ہیں ) اے ہمارے رب! نہیں پیدا کیا تو نے یہ (سب کچھ) بے کار ، تو پاک ہے (ہرعیب سے) پس بچا ہمیں آگ کے عذاب سے۔ ‘‘
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان کائنات کے اسرارورموز پر غوروفکر کر لیتا ہے تو اس حقیقت کو سمجھ لیتا ہے کہ اس کی پیدائش کا مقصد اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کرنا اور دنیاوی اور اخروی کامیابیوں کو اس انداز میں حاصل کرنا ہے کہ وہ آگ کے عذاب سے بچ کر جنت میں داخل ہو جائے۔ کائنات کے اسرارورموز پر غور نہ کرنا ،اپنے مقصد تخلیق کو نہ سمجھنا اور اپنی زندگی کو فقط دنیا کی زیب وزینت میں محو ہو کر گزار دینا درحقیقت ناکامی کا راستہ ہے۔ انسان کو چاہیے کہ خالق کائنات کی نشانیوں پر غوروغوض کرنے کے بعد اپنے خالق کی معرفت کو بھی حاصل کرے اور اخروی کامیابیوں کے حصول کے لیے بھی اپنے آپ کو آمادہ وتیار کر لے۔ جس نے بھی ایسا کیا وہ حقیقی معنوں میں کامیاب اور کامران ہو گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کودنیا اور آخرت میں کامیاب اور سر بلند فرمائے اور دنیا کی ناکامیوں اور آخرت کی رسوائیوں سے محفوظ فرمالے۔ آمین !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں