چند دنوں سے ملک میں سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پر غیر قانونی طریقے سے اپنے سرمائے کو ملک سے باہر منتقل کرنے اور اثاثوں کو بڑھانے کے الزامات ہیں۔ یہ الزامات کسی بھی اعتبار سے ملک کی ایک بڑی جماعت کے سربراہ کے شایان شان نہیں۔ اس حوالے سے جاری ہونے والی جے آئی ٹی رپورٹ نے ملک کی سیاست میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔ مسلم لیگ کے ناقدین اس وقت میاں صاحب پر کڑی تنقید کر رہے ہیں‘جب کہ میاں صاحب کے ہمنوا پوری شدت سے ان کے دفاع میں سرگرم عمل ہیں۔ اس واقعہ نے کئی فکر انگیز سوالات کو بھی جنم دیا ہے جن کا تجزیہ ہر شخص اپنے اپنے انداز میں کرے گا۔
قرآن وسنت میں زندگی کے تمام شعبوں کے حوالے سے کامل رہنمائی موجود ہے۔ جب ہم قرآن مجید پر غوروفکر کرتے ہیں تو اس حوالے سے اٹھنے والے بہت سے سوالات کا نہایت تسلی بخش جواب ہم کو میسر آجاتا ہے۔ اس ضمن میں اُٹھنے والا ایک اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے حکمران کس قسم کے ہونے چاہیئں۔ اس سوال کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ جب کبھی حکمرانوں کے حوالے سے بدعنوانی اور بے راہ روی کی بات سننے کو ملتی ہے تو حساس انسان دکھ اور کرب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ہر محب وطن انسان اس بات کی تمنا رکھتا ہے کہ ملک کے حکمران ملک کے بہی خواہ اور عوام الناس سے ہمددری رکھنے والے ہوں۔ حکمرانوں کی لالچ، خودغرضی اور لوٹ کھسوٹ کاسن کر عوام بے چینی اور اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں۔لوگوں کے ذہنوں میں قوم کے مستقبل کے حوالے سے طرح طرح کے خدشات جنم لینا شروع ہو جاتے ہیں۔عوام تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ نجانے ہم کب تک حکمرانوں کی انانیت، خود غرضی ، مفادات اور کرپشن کا نشانہ بنے رہیں گے۔ مثالی حکمران کے حوالے سے لوگ اکثر نیک خواہشات اور تمناؤں کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالنے کے بعد اکثر ناامیدی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ مثالی حکمران کس طرح کا ہونا چاہیے ؟ مثالی حکمران کے چناؤ کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ میں حضرت شموئیل علیہ السلام کے واقعہ کو بیان کیا کہ بنی اسرائیل کے لوگ ان کے پاس آئے اور ان کی خدمت میں عرض کیا کہ ہمیں ایک ایسے حاکم کی ضرورت ہے کہ جس کی قیادت میں ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں جہاد کر سکیں۔ حضرت شموئیل علیہ السلام نے ان کو کہا کہ اللہ نے تمہارے لیے حضرت طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ بنی اسرائیل کے لوگ اس تقرری پر بہت حیران ہوئے اس لیے کہ طالوت صاحب مال نہیں تھے انہوں نے اپنی سوچ کا ذکر حضرت شموئیل علیہ السلام سے کیا۔ تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تم پر منتخب کیا ہے اور ان کو علم اور جسم میں کشادگی دی ہے۔قرآن مجید میں مذکور یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ حکمران اگر صاحب علم وطاقت ہو تو وہ ہی قوم کی بہترین رہنمائی کر سکتا ہے۔حکمرانوں کے چناؤ کے حوالے سے من حیث القوم ہمارا رویہ درست نہیں ۔ ہم شخصی اور خاندانی سطح پر تو ایمانداری‘ دیانتداری اور دیگر اعلیٰ اوصاف کو اہمیت دیتے ہیں ۔ لیکن اپنے حکام کو چنتے وقت ان تمام اوصاف کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ہمیں اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور ایمان دار اور درست قیادت کا انتخاب کرنا چاہیے۔
حالیہ دنوں میں ہونے والی کشمکش کے دوران معاشرے میں نظام عدل و انصاف کے حوالے سے بھی مختلف طرح کے سوالات اٹھائے گے۔ ہمارے معاشرے کا عمومی رویہ یہ ہے کہ ہم اپنے ممدوح اور پسندیدہ رہنما کے خلاف ملنے والی شہادتوں اور ثبوتوں کو بھی قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہوتے۔ اس کے مدمقابل ہمیں جس شخص سے نفرت ہوتی ہے ہم بلا ثبوت بھی اس کی کردار کشی پر آمادہ وتیار رہتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمارا رویہ کتاب وسنت سے مطابقت رکھتا ہے؟ کتاب وسنت میں عد ل وانصاف کے حوالے سے تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر اہل ایمان کوانصاف اور عدل کو اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ سورہ نساء کی آیت نمبر 135 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! عدل وانصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور اللہ کی خوشنودی کے لیے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ خواہ وہ گواہی تمہارے اپنے خلاف یا تمہارے ماں باپ یا رشتہ دار عزیزوں کے خلاف ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو اللہ ان دونوں کا زیادہ خیر خواہ ہے پس تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اگر تم نے کج بیانی یا پہلو
تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ اس سے پوری طرح با خبر ہے۔ ‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس آیت میں اس بات کو واضح کر دیا کہ ہمیں کسی شخص کی محبت یا قرابت میں انصاف کے راستے کو ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے اور اگر ہمارے کسی قریبی عزیز نے کسی کی حق تلفی کی ہو یادوسرے سے زیادتی کی ہو تو قرابت داری کی وجہ سے اس کا ساتھ دینے کی بجائے حق پرستی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور حق ہی کی حمایت کرنی چاہیے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مائدہ میں اس بات کی نصیحت کی ہے کہ انسان کو کسی قبیلے کی دشمنی کی وجہ سے حق کے دامن کو نہیں چھوڑ دینا چاہیے۔یہ بات کسی بھی طور پر درست نہیں کہ انسان کسی کی عداوت کی وجہ سے اس کے ساتھ زیادتی کرنے پر آمادہ وتیار ہو جائے۔ چنانچہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر8 میں اللہ تبارک وتعالیٰ اعلان فرماتے ہیں ''اے ایمان والو!تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ ،راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ ،کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل کسی بات پر آمادہ نہ کرے اور عدل کیا کرو جو پرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو ،یقین مانو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ ‘‘
اسلام کی تمام حدودیعنی سزائیں بھی درحقیقت عدل کو قائم کرنے کے لیے ہی ہیں۔ چنانچہ اگرچوری کی حد پر عمل کر لیاجائے تو انسان کا مال محفوظ ہوسکتاہے ۔قانون قصاص پر عمل کرلیا جائے تو زندگیوں کے تحفظ کی ضمانت مل سکتی ہے۔ قذف کی حد پر عمل کرلیا جائے تو کسی انسان کو بدنامی سے بچایا جا سکتا ہے اسی طرح اگر زناکی حد پر عمل کر لیاجائے تو لوگوں کے نسب محفوظ ہو سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے اور دنیا کے دیگر معاشروں کو اس وقت عدل اور انصاف کے نظام کی ضرورت ہے۔ نظام عدل کے قیام کے لیے ہمیں صحیح معنوں میں قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو جانا چاہیے۔
اس موقع پر اٹھنے والے سوالوں میں سے ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا معاشرے کے بڑے افراد قانون کے اطلاق اور نفاذ سے بالا تر ہیں ‘تو کتاب وسنت کی روشنی میں اس کا جواب کچھ یوں ہے کہ کسی بھی اسلامی معاشرے میں رہنے والا شخص خواہ کتنا ہی بااثر اور صاحب حیثیت ہی کیوں نہ ہو اگر اس پر الزام لگایا جائے تو اس کی تحقیقات کی جا سکتی ہے۔ اور الزام کے ثبوت کے بعد اس کو کڑی سے کڑی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے ہمارے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ موجود ہے کہ جب بنو مخزوم کی ایک بااثر عورت نے چوری کی تو حضرت اسامہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سفارشی بنا کر بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بھیجا گیا تو اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی چوری کرے تو میں اس کے ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔ اس مقام پر اس بات کی بھی وضاحت کی گئی کہ سابقہ قوموں پر آنے والے عذابوں کے سبب میں سے ایک یہ بھی تھا کہ جب ان میں سے کوئی بڑا شخص جرم کرتا تو اس کو چھوڑ دیا جاتا اور اگر کوئی چھوٹا جرم کرتا تو اس کو سزا دی جاتی۔بعض سیاسی دانشوروں کا یہ ذہن ہے کہ عوامی رائے اور تائید کسی شخص کے بے گناہ ہونے کا ثبوت ہے ۔ اگر کسی شخص کے اثرورسوخ ، مال ودولت اور دباؤ کی وجہ سے لوگ اس کو منتخب کرلیتے ہیں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ اپنے جرائم سے بری ہو جائے گا ۔بلکہ اس کو عوام تائید کے باوجود بھی اپنے جرائم کے حوالے سے قانون کا سامنا کرنا ہو گا۔ ہمارے معاشرے میں سیاسی اعتبار سے لوگ مختلف طرح کے طبقات میں تقسیم ہیں اور ہر طبقہ اپنے لیڈر کی ہر طرح کی خامی سامنے آنے کے باوجود بھی اس کا دفاع کرنے پر آمادہ وتیار رہتا ہے۔ جب کہ اپنے مد مقابل دھڑے کے رہنما کی بہت سے خوبیوں کے سامنے آنے کے باوجود بھی اس کی مخالفت پر آمادہ وتیار رہتا ہے۔ ہماری قوم کی اس حوالے سے بھی ذہن سازی ہونی چاہیے کہ قوم کی قیادت کے حق دار صرف وہی لوگ ہیں جن کا دامن مالی اور اخلاقی بد عنوانیوںسے پاک ہو۔ مالیاتی اور بدعنوانیوں میں ملوث شخص خواہ کسی بھی دھڑے یا جماعت کا رہنما ہو اسے قوم کی قیادت کا کوئی حق حاصل نہیں۔ جب تک قوم اپنے رویوں پر نظر ثانی نہیں کرے گی ہمارے معاملات جوں کے توں رہیں گے اور ملک میں سیاسی اعتبار سے آئے دن افراتفری ، کشمکش اور ٹکراؤ کی باتیں سننے کو ملتی رہیں گی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری قوم کو صحیح حکمرانوں کا چناؤ کرنے کا شعور عطا کرے اور ہمارے ملک کو سیاسی اعتبار سے مستحکم کرے تاکہ پاکستان صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بن سکے۔