"AIZ" (space) message & send to 7575

ایک جلیل القدر شخصیت

عشرہ ذو الحجہ اپنے جلو میں بہت سے نیک اعمال لے کر آتا ہے۔ سال بھر میں کوئی دن بھی ان ایاّم کی عظمت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ رمضان کریم کے آخری عشرے کی طاق راتیں اپنی فضیلت کے اعتبارسے افضل ترین راتیں اور ذو الحجہ کے یہ دس دن اپنی فضیلت کے اعتبار سے سال کے ممتازترین دن ہیں۔ ان دنوںمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرنا خصوصاً اس کی تکبیر کو بلند کرنے کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ صحابہ کرام ؓ ان ایام کو غنیمت جانتے اور اپنی تخلیق کے بنیادی مقصد یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کو کما حقہ بجا لانے کی کوشش کرتے۔ ایام ذوالحجہ جہاں پر ہمیں نیکی کی رغبت دلاتے ہیں وہیں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال اور جلیل القدر شخصیت کی یاد بھی دلاتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس اعتبار سے انتہائی عظیم ہستی ہیں کہ آپؑ نے اپنی صلاحیتوں، توانائیوں اور وقت کا صحیح اور درست استعمال کرکے جمیع انسانیت کی اس سمت رہنمائی کی کہ ہمارا جینا، ہمارا مرنا ، ہماری نمازیں ،ہماری قربانیاں غرض یہ کہ ہمارا سبھی کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہونا چاہیے۔ 
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بچپن ہی سے غیر معمولی بصیرت اور شعور کی نعمت سے نوازا تھا۔ چنانچہ آپ ؑنے بستی کے بت پرستوں اور اجرام سماویہ کی پوجا کرنے والے نا عاقبت اندیشوں کی حرکات وسکنات کو دیکھ کر اس حقیقت کو بھانپ لیا تھا کہ یہ بداعتقادی کے راستے پر گامزن ہیں۔ بتوں کی حقیقت کو بھانپنا تو چنداں مشکل نہ تھا لیکن اجرام سماویہ پر غور کرنے کے بعد جب آپؑ نے ستارے کو ڈوبتے ہوئے، چاند کو صبح کے دھندلکوں میں غائب ہوتے ہوئے اور سورج کو رات کے دامن میں سو جاتے ہوئے دیکھا تو آپؑ پہچان گئے کہ یہ رب اور الٰہ نہیں ہو سکتے ۔ چنانچہ آپؑ نے اجرام سماویہ کی پوجا سے برأت ا ظہار کرتے ہوئے اپنے چہرے کارخ اس اللہ کی ذات کی طرف کر لیا جس نے زمین وآسمان کو بنایا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کی حقیقت کو بھی بے نقاب کرنے کے لیے ایک زبردست تدبیر کو اختیار کیا۔ آپؑ نے بستی والوں کی عدم موجودگی میں بت کدے میں داخل ہو کر تمام بتوں کو توڑڈالا اور صرف ایک بڑے بت کو چھوڑ دیا۔ بستی والے جب اپنے بت کدے میں داخل ہوئے تو انہوں نے اپنے بتوں کو ٹوٹا ہوا دیکھ کر ایک دوسرے کو کہا جس نے ہمارے معبودوں کو توڑا ہے وہ زیادتی کرنے والا ہے ۔ اس کے بعد اس بات پر بھی تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہنے لگے ہم نے ایک نوجوان یعنی ابراہیم علیہ السلام کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا ہے۔ اس موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو طلب کیا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ؑ نے ہمارے بتوں کو توڑا ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیتے ہوئے کہا ان کو بڑے نے توڑا ہو گا اگر ان کے پاس بولنے کی صلاحیت ہے توتم ان سے پوچھ سکتے ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جواب پر بستی کے لوگ شرمندہ ہوئے لیکن ہٹ دھرمی کامظاہرہ کرتے ہوئے یہ بات کہنے لگے کہ آپ ؑکو پتا ہے کہ یہ بات نہیں کر سکتے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس موقع پر کہا کہ تم اللہ کے سوا اُن کی پوجا کرتے ہو جو تمہیں نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان۔ تم پر افسوس ہے کہ تم اللہ کی پوجا کیوں نہیں کرتے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دلائل سن کر بستی کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ان کو چتا میں جلا دیا جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے چتا کو بھڑکایا گیا اور جب اس میں ان کو ڈالنے کا ارادہ کیا گیا تو ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو اپنے لیے کافی سمجھا اور اس کو بہترین کار ساز قرار دیا۔ 
یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے اشیاء میں اثر موجود ہے۔ آگ میں حدت، پانی میں تری، زہر میں ہلاکت، پھول میں خوشبو، سورج میں حرارت، چاند میں روشنی، غرض یہ کہ ہر چیز میں جو اثر بھی موجود ہے سب کچھ اللہ ہی کا پیدا کردہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے توکل کو دیکھتے ہوئے آگ کو حکم دیا کہ اے آگ ابراہیم علیہ السلام پر سلامتی والی ٹھنڈی ہو جا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے بستی کے لوگوں کی سازشوں سے محفوظ ومامون فرما لیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دربار نمرود میں بھی صدائے توحید کو بلند فرما دیا اور نمرود کو جا کر کہا میرا رب وہ ہے جو زندہ بھی ہے اور مارتا بھی کرتا ہے۔ نمرود نے اس موقع پر بستی کے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے ایک بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور مجرم کو چھوڑ دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سارے منظر کودیکھ کر اس امر کا اعلان فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے تو سورج کو مغرب سے لے کر آ۔اس بات کو سن کر نمرود کے لبوں پر چپ کی مہر لگ جاتی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جہاں پر اللہ کی توحید کے لیے بستی والوں کی بداعتقادی سے برأت کا اظہار کیا اور دربار نمرود میں صدائے توحید کو بلند کیاوہاںپر سورہ ممتحنہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ آپ نے معبودان باطل کا انکار کرنے کے ساتھ ساتھ معبودان باطل کے پجاریوں سے بھی برأت کا اظہار کیا اور اللہ کے دوستوں اور اس کے تابعداروں سے محبت اور اس کے دشمنوں اور باغیوں سے نفرت والے والے عقیدے کو کائنات کے لوگوں کے سامنے رکھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے لیے حاکم وقت اور بستی والوں کی دشمنی کو مول لیا وہیں پر آپؑ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحیدکے لیے بہت سی محبتوں کی قربانیاں بھی دیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر آپؑ نے اپنی اہلیہ ہاجرہ اور نومولود بچے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو وادیٔ بے آب وگیا ہ میں چھوڑ دیا۔ حضرت ہاجرہ نے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر توکل کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے لیے زم زم کو جاری فرمادیا اورا ن کے ساتھ اس وادیٔ بے آب وگیاہ میں ایک قبیلے کو بھی آباد کر دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جہاں پر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ کو وادیٔ بے آب وگیاہ میں چھوڑا وہیں پر جب حضرت اسماعیل علیہ السلام دو ڑ دھوپ کے قابل ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک خواب آیا کہ آپ ؑحضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری کو چلا رہے ہیں۔ آپؑ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے پوچھا میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ کے گلے پر چھری کو چلا رہا ہوں ۔ پس آپ بتلائیے آپ کی کیا رائے ہے؟ تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے ایک مؤدب فرزند ہونے کے ناطے عرض کی کہ اے بابا! آپ کو جس بات کا حکم دیا گیا آپ اس پر عمل کر گزریں۔ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلانے کے لیے ان کو لٹایا تو اللہ نے آپ ؑکو بتلایا کہ آپ ؑ کی قربانی کو قبول کر لیا گیا ہے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے جنت کے مینڈھے کو ذبح کر وا دیا گیا ۔
ابراہیم علیہ السلام نے تربیت اولاد کے حوالے سے بھی ایک مثالی باپ کا کردار ادا کیا۔ اپنے بچوں کے اچھے عقیدے کے لیے دعا مانگتے رہے۔ اور بڑھاپے میں حضرت اسماعیل اورحضرت اسحاق ؑ کی ولادت پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہے۔ آپؑ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے پھلوں سے رزق اور لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے محبت کی دعا بھی مانگی۔ آپؑ نے اپنی اولاد کے لیے اقامت صلوٰۃ کی دعا کو بھی مانگا اور تعمیر بیت اللہ میں بھی آپؑ نے جہاں پر خود اپنا کردار ادا کیا وہاںپر آپؑ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بھی اس کام میں شامل فرمایا۔ 
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بہو کے انتخاب کے حوالے سے بھی ہمارے لیے ایک مثال کو قائم کیا۔ آپ ؑنے اپنے بیٹے کو ناشکری اور بے صبری کرنے والی بہو سے لاتعلقی کی وصیت کی اور شکر گزار اور صابرہ بہو کے انتخاب پر ان کی تحسین فرمائی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے آخری وقت میں بھی اپنے بیٹے اسماعیل ؑاور اسحاقؑ کو اس بات کی وصیت کی اے میرے بیٹو! تمہارے لیے اللہ نے دین کو منتخب کیا ہے پس تمہیں موت نہ آئے مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو۔ گویا کہ اپنی زندگی کے ابتدائی ایام سے لے کر اپنی زندگی کے آخری ایام تک آپؑ اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت اور اس کی محبت سے سرشار رہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلمے کی سربلندی کے لیے اپنی زندگی اور اپنے اعزہ واقارب کی قربانی دینے کے لیے بھی ہمہ وقت آمادہ وتیار رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت وکردار کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی شخصیت کو مسلمانوں کے لیے اسوہ بنا دیا اور آپؑ کو ملت اسلامیہ کا روحانی باپ قرار دے دیا۔ اہل اسلام کو چاہیے کہ ایام ذوالحجہ میں نیک اعمال کو بجا لائیں اورا س کے ساتھ ساتھ اپنے سیرت وکردار کو بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو اپنی توحید کی اہمیت اور افادیت کا شعور دے اور اپنے کلمے کی سربلندی کے لیے کام کرنے والوں میں شامل فرمائے۔ آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں