کسی معاشرے میں بسنے والے تمام لوگ کبھی بھی ایک نکتہ نظر کے حامل نہیں ہو سکتے۔ ہر شخص کا تعلیمی اور فکری پس منظر جدا ہے۔ اسی طرح ہر شخص کی پرورش مختلف ماحول میں ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان کے تجر بات اور صحبت بھی اس کے افکار اور نظریات پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں؛ چنانچہ کسی بھی معاشرے میں بسنے والے لوگ مختلف افکار کے حامل ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی ترجیحات اور زندگی کے بارے میں آراء بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں؛ چونکہ ہر طرح کے لوگوں کو ملا کر ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اس لیے معاشرے میں آراء کا اختلاف ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں‘ لیکن رائے اور فکر کے اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ تعصب رکھنا ‘ نفرت کرنا‘ تشدد کا مظاہرہ کرنا اور گالی گلوچ کرنا یا ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے پر آمادہ ہو جانا کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔
ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے تربیت کی بہت زیادہ کمی نظر آتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی یا فکری اختلاف کی وجہ سے دشمنی پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ یہ رویہ معاشرے کی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ معاشرے میں صحت مند رجحانات کو پروان چڑھانے کے لیے بعض اہم باتوں کو مدنظر رکھنا اور ان پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے:
1۔ تعصب کا خاتمہ: انسان کی فکر خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو‘ اس کو دیگر انسانوں کے بارے میں متعصبانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے اور معاشرے میں فکری اختلاف رکھنے کے باوجود انسان ہونے کے ناطے دیگر لوگوں کے وجود کو گوارہ کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے۔ بقائے باہمی معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ معاشرے میں دیگر نقطہ ہائے نظر کو گوارہ کرنے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ تعصب نا انصافی کو جنم دیتا ہے۔ جب کہ اسلام کی تعلیمات اس حوالے سے بالکل واضح ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے اور اپنے قرابت داروں کے حق میں بھی ناانصافی کرنے سے منع کیا ہے؛ چنانچہ سورہ نساء کی آیت نمبر 135 میں ارشاد ہوا: ''اے ایمان والو!اللہ کی خاطر انصاف پر قائم رہتے ہوئے گواہی دینے والے ہو جاؤ اور اگرچہ اپنے آپ کے خلاف ہی ہویا والدین اور قریبی رشتے داروں کے (خلاف ہی کیوں نہ ہو) اسی طرح کسی بھی قوم کے ساتھ دشمنی بھی ہو جائے تو اس کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر8 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے ایمان والو! اللہ کے لیے قائم رہنے والے ہو جاؤ۔انصاف کی گواہی دینے والے۔اور ہرگز آمادہ نہ کرے ‘تم کو کسی قوم کی دشمنی کہ تم عدل نہ کرو‘ عدل کیا کرو وہ زیادہ قریب ہے تقویٰ کے۔‘‘
2۔ نیت پر شک نہ کرنا: انسان کو کسی بھی دوسرے نظریے یا فکر کے حامل انسان کی نیت پر بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے شک نہیں کرنا چاہیے اورعام حالات میں کسی بھی شخص کی کسی فکر کے ساتھ وابستگی کو بدنیتی پر محمول نہیں کرنا چاہیے۔ جب انسان کسی کے ظاہری موقف کو سننے کی بجائے اس کی نیت پر حملہ کرنا شروع کر دیتا ہے تو اس سے معاشرے میں بے چینی اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔ اسلام نے ہمیشہ ظاہر پر فیصلہ کرنے پر زور دیا ہے اور نیت پر شک کرنے کی اجازت نہیں دی؛ چنانچہ سورہ نساء کی آیت نمبر 94 میںارشاد ہوا کہ ''اور مت کہو (اس )کو جو ڈالے تمہاری طرف سلام کہ تو مومن نہیں ہے۔‘‘
جو شخص کلمہ پڑھ لیتا ہے‘ اس نیت پر شک کرتے ہوئے اس کے کلمے پر بداعتمادی کا اظہار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں؛ حالانکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جنگی حالات کے دوران انسانوں پر اضطراری کیفیت طاری ہوتی ہے اور اس دوران کسی شخص کے کلمہ پڑھنے کے بارے میں بظاہر تحفظات کا مظاہرہ کیا جا سکتا تھا‘ لیکن اس کے باوجود اسلام میںاس حالت میں بھی کسی کی نیت پر شک کرنے کی اجازت نہیں۔
3۔ حکمت اور دلیل سے گفتگو: جب کسی کے ساتھ اختلاف کیا جائے ‘تو اس کے نقطۂ نظر کے بارے میں جارحانہ رویہ اپنانے کی بجائے دلیل اور حکمت کے ساتھ گفتگو کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جس وقت فرعون کے پاس بھیجا‘ تو آپؑ اور حضرت ہارون علیہ السلام کو یہ بات کہی کہ آپ دونوں اس سے نرم بات کریں‘ شاید کہ وہ نصیحت پکڑ لے یا ڈر جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر فرعون کو نصیحت کرتے ہوئے نرمی سے کام لینے کا حکم دیا گیا ‘تو عام آدمی سے گفتگو کرتے ہوئے بھی حکیمانہ لب ولہجہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ اپنی بات کو زبردستی منوانے کی بجائے دلیل دینی چاہیے اور فریق مخالف سے دلیل طلب کرنی چاہیے۔ سورہ کی نمل کی آیت نمبر64میں ارشاد ہوا کہ '' کہہ دیجئے اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو‘‘اسی طرح سورہ احقاف کی آیت نمبر 4 میں کہا گیاکہ ''لاؤ میرے پاس کوئی کتاب اس سے پہلے کی یا علم کی کوئی نقل شدہ بات اگر تم سچے ہو۔‘‘ دلیل اور حکمت کے ساتھ حکیمانہ لب ولہجے کی استعمال کی وجہ سے بہت سے لوگ راہ ِ ہدایت کی طرف آ جا تے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 125 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بلائے اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ۔ ‘‘
4۔ زبردستی اور گالی گلوچ سے احتراز: انسان کو دوسرے پر اپنے نظریات ہرگز تھوپنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر میں 256ارشاد فرماتے ہیں ''دین میں کوئی زبردستی نہیں۔‘‘ چنانچہ ہر شخص کو دعوت تو دینی چاہیے لیکن کسی پر زور زبردستی نہیں کرنی چاہیے۔ اسی طرح فریق مخالف کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے گالی گلوچ نہیں کرنی چاہیے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انعام کی آیت نمبر 108 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور نہ برا کہو جنہیں یہ پکارتے ہیں اللہ کے سوا ‘ یہ برا (نہ )کہہ بیٹھیں اللہ کو زیادتی کرتے ہوئے نادانی میں۔ ‘‘ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو دوسروں کے ساتھ دوران گفتگو دلیل اور حکمت کا استعمال کرنا چاہیے اور زبردستی اور گالی گلوچ والا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
5۔ بہتر دلیل کا استعمال:اگربحث کے دوران یہ با ت محسوس ہو کہ کسی دلیل میں تاویل کی جار ہی ہے تو اس دلیل پر جمے رہنے کی بجائے بہتر دلیل کو اختیار کر لینا چاہیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب دربار نمرود میں گئے تو آپ نے اس کو یہ بات کہی کہ میرا رب وہ ہے جو مارتا بھی ہے اور زندہ بھی کرتا ہے۔ تو اس نے ایک بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ایک مجرم کو آزاد کر دیا۔ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا بے شک اللہ وہ ہے جو سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے پس تو سورج کو مغرب سے لے کر آ۔ تو اس با ت پر اس منکر کے لبوں پر چپ کی مہر لگ جاتی ہے۔
6۔ جاہلوں سے اعراض: اگر انسان کو اختلاف کرنے کے دوران اس بات کا اندازہ ہو جائے کہ وہ جن لوگوں سے گفتگو کر رہا ہے وہ کج بحثی کرنا چاہتے ہیں اور کسی بھی قیمت پر دلیل محکم کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو ایسے لوگوں سے بحث کرنے کی بجائے ان سے اعراض کر لینا چاہیے۔ جیسا کہ سورہ فرقان میں عباد الرحمن کے حوالے سے آیت نمبر63میں ارشاد ہوا :'' اور جب مخاطب ہوتے ہیں ان سے جاہل (تو)کہتے ہیں سلام ہے ۔‘‘ یعنی وہ ان سے سلامِ متارکت کو اختیار کر لیتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف کی آیت نمبر199میں یہ بھی ارشاد فرمایا :''اختیار کیجئے درگزر کرنے کو اور حکم دیجئے نیکی کا اور اعراض کیجئے جاہلوں سے۔‘‘
7۔ نفرت نہ کرنا: انسان کو دوسرے انسان سے نفرت کرنے کی بجائے اس کی غلطیوں سے کراہت رکھنی چاہیے اور اس کی غلطیوں کی اصلاح کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ جب لوگ کسی دوسرے انسان کی غلطیوں کی وجہ سے اس سے نفرت کرنا شروع کر دیتے ہیں تو اصلاح کے امکانات معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اگر ہم ان اصول وضوابط پر عمل کرنا شروع کر دیں تو معاشرے میں تشدد اور افتراق کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور صحت مند مذاکرے کا راستہ کھل سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے معاشرے کو امن وسکون کا گہوارہ بنائے ۔آـمین