موجودہ دنیا ذرائع آمدورفت اور ذرائع ابلاغ و مواصلات کی ترقی کی وجہ سے گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ دنیا کے کسی ایک مقام پر ہونے والی سیاسی تبدیلی یا کسی بڑے واقعہ کی اطلاع آناً فاناً پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ کسی دور میں بیرون ملک رہنے والے عزیز کو پیغام پہنچانے کے لیے خط یا ٹیلی گرام کا استعمال کرنا پڑتا تھا اور اعزاء واقارب ایک دوسرے کے حالات سے لمبے عرصے تک بے خبر رہا کرتے تھے‘ لیکن اب دنیا کے کسی بھی مقام پر موجود شخص کا اپنے گھر والوں سے مسلسل رابطہ رہتا ہے اور زمینی فاصلے رابطوں کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن پاتے۔ دنیا میں بڑی تعداد میں قومی ریاستیں موجود ہیں اور ہر قومی ریاست مختلف ہمسایوں میں گھری ہوئی ہے۔ کسی ملک کا دوسرے ملک سے ہمسائیگی کاتعلق اتفاقی اور قدرتی ہوتا ہے اور اس کا خواہش یا انتخاب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا؛ چنانچہ دنیا میں بہت سے ممالک ایسے ہمسایوں کے درمیان واقع ہیں‘ جو ان سے خیر خواہانہ اور اچھے تعلقات رکھنے کی بجائے ان سے عناد اور مخالفت رکھتے ہیں۔ بدنصیبی سے پاکستان کا ہمسایہ ممالک بھارت بھی پاکستان کا بہی خواہ نہیں اور وہ ہمیشہ پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے مختلف طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتا رہتا ہے۔ پاکستان کے قیام کے دن سے لے کر آج تک بھارت اور پاکستان کے درمیان بہت سے امور میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کشمیر اور پانی کی تقسیم کے مسئلے کی وجہ سے دونوں ممالک ایک دوسرے سے بد گمان رہتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1965 ء اور 1971ء میں د و بڑی جنگیں بھی ہو چکی ہیں‘ جن کی وجہ سے دونوں طرف کی عوام ایک دوسرے سے بدظن ہیں۔
ان حالات میں پاکستان کو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح دنیا بھر میں دوست اور ہمددر ممالک کی طلب اور تمنا رہتی ہے۔ پاکستان کا ہمسایہ ملک چین یقینا پاکستان کا قابل اعتماد دوست ہے اور مختلف ادوار میں چین نے معاشی اور عسکری شعبوں میں پاکستان کے ساتھ معاونت پر مبنی رویے کو اختیار کیے رکھا ہے‘اسی طرح ترکی بھی پاکستان کا قریبی دوست ہے اور اس نے پاکستا ن کی تعمیر وترقی میں اپنی بساط کی حد تک مثبت کردار ادا کیا ہے۔
عالم عرب میں سعودی عرب ایک بلند مقام کا حامل ہے اور مکہ اور مدینہ کی نسبت کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز بھی ہے۔ ہر مسلمان سرزمین حرمین سے والہانہ عقیدت رکھتا ہے اور اسی مناسبت سے دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان عمرے اور حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں۔ پاکستان سے بھی ہر سال ہزار ہا حجاج کرام حج بیت اللہ کی سعادت سے بہرہ ور ہوتے ہیں اور پورے سال کے دوران بھی پاکستانی زائرین کی بڑی تعداد عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جاتی ہے۔ مجھے گزشتہ ماہ عمرے کی سعادت حاصل ہوئی اور اس دوران سعودی عرب کی بہت سی اہم شخصیات سے ملنے کا موقع ملا۔ ان میں مسجد نبوی شریف کے امام شیخ صلاح البدیر اور شیخ عبداللہ بیعجان بھی شامل تھے۔ شیخ صلاح البدیر نے اس موقع پر پاکستان سے بڑی محبت کا اظہار کیا اور یہ بات بتلائی کہ مسجد نبوی شریف میں رمضان کے مہینے میں اعتکاف کرنے والوں میں بڑی تعداد میں پاکستانی مسلمان بھی شامل ہوتے ہیں۔
پاکستان کا اپنے قیام کے دن سے سعودی عرب سے نہایت گہرا تعلق ہے اور گزشتہ سات عشروں کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات انقطاع یا تعطل کا شکار نہیں ہوئے۔ پاکستان میں خواہ کسی بھی جماعت کی حکومت ہو سعودی عرب نے جماعتی وابستگی سے بالاتر ہو کر ہمیشہ پاکستان کو اپنے قریبی دوست سے حیثیت سے دیکھا ہے اور پاکستان کی اقتصادی مشکلات کو حل کرنے کے لیے اپنا تعاون پیش کیا ہے۔ بعض افراد اور گروہ پاک سعودی تعلقات کو فرقہ وارانہ اختلافات اور تعصبات کے تناظر میں دیکھتے ہیں‘ لیکن وہ اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ 1965ء کی جنگ سے لے کر 1971 ء کی جنگ تک اور ایٹمی دھماکوں سے لے کر ایبٹ آباد زلزلہ زدگان کی بحالی تک سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی معاونت کے لیے اپنے دل کو فراخ کیے رکھا ہے؛ چنانچہ سورہ رحمن کی آیت نمبر60پر عمل کرتے ہوئے کہ ''نہیں ہے احسان کا بدلہ‘ مگراحسان ہی۔‘‘ ہمیں اس حوالے سے کسی قسم کے انقباض کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔پاکستان کے اہم سیاسی تنازعات کو حل کرنے کے لیے بھی سعودی عرب نے ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا ہے؛ چنانچہ قومی اتحاد اور پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں پیدا ہونے والے ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لیے بھی سعودی عرب نے اپنا کردار نہایت احسن طریقے سے ادا کیا ۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے سیاسی تنازعات کے حل کے لیے سعودی عرب نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے۔ گو بعض پاکستانی حلقے سعودی عرب کے اس کردار پر تشویش کا اظہار بھی کرتے ہیں‘ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سعودی عرب نے یہ تمام کام فقط پاکستان کے سیاسی استحکام کے لیے انجام دئیے ہیں۔
گزشتہ کئی عشروں سے ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی روزگار کے حصول کے لیے سعودی عرب میں آباد ہیں اور ان آبادکاروں کی وجہ سے پاکستان کوہر سال زرمبادلہ کی شکل میں خطیر رقم حاصل ہوتی ہے‘ اسی طرح پاکستان کے سینکڑوں طلباء سعودی عرب کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرکے یا تو سعودی عرب ہی میں ملازمت کو اختیار کر چکے ہیں یاپاکستان واپس آ کر مختلف یونیورسٹیوں اور کالجز میں اسلامی علوم پڑھانے میں مشغول ہیں۔ پاکستان میں پڑھانے والے بہت سے اساتذہ نے بھی سعودی عرب سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ سعودی حکمرانوں کی پالیسیوں سے کو ئی اتفاق کرے یا اختلاف کرے‘ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انہوںنے کبھی بھی پاکستان سے دوری کو اختیار نہیں کیا ہے۔ شاہ فیصل مرحوم جہاں عالم اسلام کے لیے اپنے دل میں بہت زیادہ درد رکھتے تھے‘ وہیں پر ان کو پاکستان سے بھی بہت زیادہ محبت تھی اور پاکستان کے حکمرانوں سے ہمیشہ انہوں نے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات استوار کیے رکھے‘ اسی طرح شاہ فہد مرحوم بھی ہمیشہ پاکستان کو اپنے قریبی دوست کی حیثیت سے دیکھتے رہے۔ شاہ سلمان کا رویہ بھی پاکستان کے ساتھ انتہائی مثبت ہے۔ موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان کے حوالے سے بہت سے لوگ مختلف طرح کے تصورات رکھتے ہیں‘ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اُن کے افکار اور نظریات کا پاکستان کے اقتصادی معاملات پر کوئی منفی اثر نہیں ہے۔
پاکستان میں موجود سعودی سفارتکار جہاں پر سعودی عرب کی احسن طریقے سے نمائندگی کا فریضہ انجام دیتے ہیں ‘وہیں پر ہر سال یوم الوطنی کی تقریب میں پاکستان کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے قد آور لوگوں کو جمع کرکے قومی سطح پر اہم لوگوں کو باہم ملاقات اور تعارف کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔اس تقریب میں حکومت پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے نمایاں رہنما شریک ہوتے ہیں اور کئی مرتبہ یہ تقریب ایک آل پارٹیز کانفرنس کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ مجھے گزشتہ برسوں کے دوران کئی مرتبہ اس تقریب میں شرکت کا موقع ملا اور عرب میزبانوں کی گرمجوشی اور میزبانی کو دیکھ کر یوں محسوس ہوا کہ وہ کسی دوسری قوم کے افراد نہیں‘ بلکہ ہماری ہی قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔
جب بھی کبھی سعودی عرب کی کوئی اہم شخصیت پاکستان آتی ہے تو پاک سعودی تعلقات میں مزید پختگی آجاتی ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان آج پاکستان آ رہے ہیں اور اس بات کی توقع کی جا رہی ہے کہ ان کے اس دورے سے نا صرف یہ کہ پاک سعودی تعلقات کا تسلسل برقرار رہے گا‘ بلکہ دونوں ممالک کی قربتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس موقع پر بعض عناصر ان کی آمد کے حوالے سے جس تشویش کا اظہار کر رہے ہیں‘ وہ درست نہیں۔ ہمیں بحیثیت ِقوم دوسرے ممالک سے تعلقات کو ذاتی پسند نا پسند سے بڑھ کر قومی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ شہزادہ محمد بن سلیمان اس دورے میں اپنے ہمراہ سعودی عرب کی اہم سیاسی اور کاروباری شخصیات کو بھی لا رہے ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ اس دورے کے نتیجے میں پاکستان اور سعودی عرب کے روحانی ‘ سیاسی اور اقتصادی تعلقات مزید پختہ ہوں گے۔