والدِگرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر نے مینار پاکستان کے عقب میں واقعہ راوی روڈ پر 23 مارچ 1987ء کو ایک جلسے سے خطاب کر نا تھا۔آپ جب گھر سے نکلے تو بھلے چنگے تھے‘ ہمیں اس وقت اس کا تصور بھی نہیں تھا کہ اس جلسے سے خطاب کے دوران ایک ایسا سانحہ ہو گا جس کے نتیجے میں آپ دنیا فانی سے کوچ کر جائیں گے۔ والد گرامی کو دنیا سے رخصت ہوئے 32 برس کا عرصہ ہونے والا ہے لیکن آج بھی ان کی یادوں کی خوشبو ان کے اہل خانہ ‘ اعزا و اقربا اورچاہنے والوں کے دلوں میں بسی ہوئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو بہت سی صلاحیتوں سے نوازا تھا ۔آپ انتہائی گرمجوش‘ ملنسار اور دوست پرور انسان تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ میں تالیف اور تصنیف کی بہت سی صلاحیتوں کو جمع کیا ۔آپ کی تحریروں کو پڑھنے والوں اور آپ کی تقریروں کو سننے والوں کی ایک بڑی تعداد دنیا بھر میں موجود تھی۔ 32 برس گزر جانے کے باوجود بھی لوگ بڑے ذوق وشوق سے آپ کی تقریروں کو سنتے اور تحریروں کو پڑھتے ہیں۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر اپنے عہد کے نامور عالم دین ‘ بے مثال منتظم اور مثالی سیاسی رہنما سمجھے جاتے تھے۔ آپ کی زندگی کی مختلف جہتیں اور آپ کی شخصیت کے مختلف رُخ ہیںجن کا ایک کالم میں احاطہ نہیں کیا جا سکتالیکن آپ کی ذات کے حوالے سے چند اہم باتوں کو میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
1۔خشیت الٰہی اور ذوقِ عبادت : والدِ گرامی کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید سے غیر معمولی رغبت عطا کی تھی اور آپ ہر سال باقاعدگی کے ساتھ قرآن مجید تراویح میں سنایا کرتے تھے۔ گو میری عمر اس وقت چھوٹی تھی لیکن میں نے آپ کی امامت میں کئی برس تک نمازِ تراویح ادا کرنے کے دوران اس بات کو محسوس کیا کہ آپ خال خال ہی کسی مغالطے یا شبہ کا شکار ہوتے تھے ۔آپ تراویح کی نماز میں انتہائی روانی ‘ سوز اور تسلسل کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے ۔ آپ کو جب بھی کبھی موقع ملتا‘ بالخصوص سفر کے دوران آپ آہستگی کے ساتھ تلاوت کرتے رہتے۔ آپ نے زندگی کے آخری بیس (20)سال نماز تراویح کی امامت کے ساتھ ساتھ پڑھی گئی منزل کا تفصیلی خلاصہ بھی بیان کیا۔ جس کو سننے کے لیے لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوا کرتے تھے۔ اسی طرح آپ کو جب بھی کبھی زندگی میں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا آپ بکثرت اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو عمرے اور حج کا بھی شوق عطا کیا تھا اور آپ بکثرت بیت اللہ الحرام اور مسجد نبوی شریف کی زیارت کے لیے سفر کیا کرتے تھے۔ جب کبھی آپ کسی پریشانی اور اضطراب کا شکار ہوتے تو جہاں پر پاکستان میں اپنی مسجد اور گھر میں دعا کا اہتمام کیا کرتے تھے وہیں پر بیت اللہ الحرام کا قصد کرتے اور وہاں پر جا کر اپنی التجاؤں اور مناجات کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا کرتے تھے۔جب آپ دعاکرتے تو آپ پر رقت طاری ہو جایا کرتی تھی۔ مارچ 1987ء میں میرے میٹرک کے بورڈ کے امتحانات ہو رہے تھے۔ آپ مجھے بڑی محبت سے گھر سے الوداع کرتے اور خصوصیت سے دعا کرنے کی تلقین کرتے ۔
2۔دعوت وتبلیغ: والدِ گرامی کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دعوت وتبلیغ کا جذبہ اور شوق عطا کیا تھا اور اس حوالے سے آپ نے ملک کے طول وعرض میں ہزاروں کی تعداد میں اجتماعات ‘ کانفرنسوں اور جلسوں سے خطاب کیا۔ اسی طرح آپ نے عرب ممالک کے ساتھ ساتھ جاپان‘ کوریا‘ برطانیہ اور امریکہ کے بھی تبلیغی سفر کیے اور وہاں پر منعقد ہونے والے مختلف پروگراموں ‘ اجتماعات اور جمعے کے خطبات کے ذریعے لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی طرف پلٹنے کی دعوت دی۔
3۔سیکولر ازم سے بیزاری: والد گرامی سیکولر ازم سے بیزار تھے اور دین کی مخالفت میں کی جانے والی کسی بھی بات کو آپ قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہ ہو ا کرتے تھے۔ گو آپ ملک میں سویلین بالا دستی کے قائل تھے لیکن روایتی سیاست دانوں کی طرح اپنے سیاسی ہدف کے حصول کے لیے اپنے نظریات پر سمجھوتہ نہیں کرتے تھے بلکہ ہمہ وقت کھل کر اپنے دینی نظریات کا ابلاغ کیا کرتے اور فواحش‘ منکرات اور دیگر سماجی برائیوں کے خلاف بھرپور طریقے سے آواز اُٹھایا کرتے تھے۔
4۔ختم نبوت: والد گرامی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے ساتھ والہانہ وابستگی تھی اور آپ نے دفاع ِختم نبوت پر چار مبسوط اور مفصل کتابوں کو تحریر کیا۔ القادنیہ‘ مرزائیت اور اسلام‘ البابیہ اور البہائیہ کے ذریعے آپ نے اُن گروہوں کا ڈٹ کر تعاقب کیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ آپ نے پاکستان میں اُن گروہوں کو جو ختم نبوت کے منکر ہیں‘ دائرہ اسلام سے خارج قرار دلوانے کے لیے ملک بھر میں بڑے بڑے جلسوں اور اجتماعات سے خطاب کیا اور بالآخر 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو دلائل کی روشنی میں اس بات کو تسلیم کرنا پڑا کہ منکرین ختم نبوت درحقیقت کتاب وسنت اور اجماع اُمت کی روشنی میں دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ اس جائز اور درست مطالبے کو منوانے کے لیے آپ نے تمام مکاتب فکر کے جید علما کی ہمراہی میں بھرپور کردار ادا کیا۔
5۔نظام مصطفیﷺ: والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر کو نظام مصطفی ﷺکی سر بلندی سے غیر معمولی لگاؤ اور پیار تھا اور آپ وطن عزیز میں کتاب وسنت کی عملداری چاہتے تھے؛ چنانچہ آپ نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قومی اتحاد کے قائدین کے ہمراہ ''تحریک نظام مصطفیﷺ‘‘ میں بھرپور حصہ لیا اور پوری زندگی اس مطالبے کوہر فورم پر اُٹھاتے رہے کہ وطن عزیز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ تعلیمات اور آپ ؐکے پیش کردہ نظام ہی کو نافذ ہونا چاہیے ۔آپ کا اس بات پر پختہ یقین تھا کہ کہ کتاب وسنت کے نفاذ سے ہی وطن عزیز کے جملہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
6۔جمہوریت کی بحالی: والد ِگرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر تمام اداروں کو اُن کے دائرہ کار میں کام کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے؛ چنانچہ آپ کے نزدیک مارشل لا یا ڈکٹیٹر شپ کی بجائے سویلین بالا دستی کا قیام نہایت ضروری تھا۔ اس لیے آپ نے ہمیشہ عوام کی حکمرانی کی بات کی اور دیگر اداروں کے سیاسی کردار کی حوصلہ شکنی کرتے رہے اور اس حوالے سے آپ نے بحالی جمہوریت کے لیے کوششیں کرنے والی تحریکوں کا تاحیات بھرپور ساتھ دیا اور اس سلسلے میں کسی قسم کی رورعایت اور لچک کا مظاہرہ نہیں کیا۔
7۔کتب بینی: والد ِگرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ذوقِ مطالعہ سے بھی نوازا تھا۔ آپ اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ عربی وفارسی کتب ‘جن میں تفسیر‘احادیث‘ فقہ اور تاریخ اسلامی سے متعلقہ اہم کتابیں شامل ہیں‘کے باریک بینی سے مطالعے میں مصروف رہے۔ آپ کے پاس ذاتی لائبریری تھی جس میں کئی ہزارکتابیں موجود تھیں۔ آپ اس لائبریری میں باقاعدگی کے ساتھ مطالعے اور کتب بینی میں مصروف رہا کرتے اور آپ کتابوں سے دور رہنے کو کسی بھی طور پر گوارا نہیں کرتے تھے۔
8۔وسیع حلقۂ احباب: آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے وسیع حلقۂ احباب عطا کیا تھا۔ دوست احباب سے ملنا ان کے پاس جانا اور ان کی اپنے گھر میں ضیافت کرنا آپ کی زندگی کا ایک اہم حصہ تھا؛چنانچہ آپ کے دوست احباب آپ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ہمیشہ آپ کے اخلاق اور دوستی کا بڑے احسن انداز میں ذکر کرتے رہے۔
9۔پسندیدہ مشاغل : اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو مادی اعتبار سے فراوانی اورخوشحالی سے نوازا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ آپ کو گھڑ سواری‘ تیراکی اور سائیکلنگ پسند تھی؛ چنانچہ آپ کو جب کبھی اپنی تعلیمی ‘ تبلیغی اور سیاسی مصروفیات سے موقع میسرآتا تو آپ ان مشاغل کو بھی وقت دیا کرتے تھے۔
آج والدِ گرامی ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن اُن کی شخصیت اور ان کے کردار میں ہمارے لیے تحریک دینے والی بہت سی باتیں موجود ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کی بشری خطاؤں سے درگزر فرمائے اور آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور جن اچھی روایات کو آپ نے قائم ودائم رکھا ہمیںبھی ان کو برقرار رکھنے کی توفیق عنائت فرمائے۔