جس معاشرے میں عدل اور انصاف ہو اس میں ہر طرف امن وسکون نظر آتا ہے اور جس سماج میں عدل اور انصاف قائم نہ ہو‘ اُس میں بے چینی‘ انتشار اور فساد اپنے پورے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اہل ایمان کو عدل اور احسان کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 90میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک اللہ حکم دیتا ہے عدل اور احسان کا اور قرابت والوں کو دینے کا اور وہ روکتا ہے؛ بے حیائی ‘برے کام اور سرکشی سے۔‘‘ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہمیں ذاتی مفادات ‘نفسانی خواہشات‘ کسی قرابت دار کی قربت اور کسی قریبی عزیز کی محبت کی وجہ سے عدل کے راستے کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 135میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو !ہو جاؤ انصاف پر قائم رہتے ہوئے گواہی دینے والے اللہ کی خاطر اور‘ اگرچہ اپنے آپ کے خلاف ہی ہو یا والدین اور قریبی رشہ داروں کے (خلاف ہی کیوں نہ ہو) اگر ہو وہ امیر یا فقیر ہوں تو اللہ تعالیٰ (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے‘ اُن دونوں کا۔ تو نہ پیروی کرو خواہش نفس کی کہ تم عدل (نہ) کرو اور اگر توڑ مروڑکر بات کرو گے (گواہی دیتے ہوئے) یا منہ موڑو گے (گواہی دینے سے) تو بے شک اللہ تعالیٰ خوب خبردار ہے اُس سے جو تم عمل کرتے ہو ۔‘‘
جہاں پر کسی کی محبت‘ رفاقت‘ رشتہ داری اور تعلق کی وجہ سے ہمیں عدل اور انصاف کے راستے کو نہیں چھوڑنا چاہیے ‘وہیں پر کسی شخص یا گروہ کے ساتھ دشمنی‘ تعصب اورحسد کی وجہ سے ناانصافی کے راستے کو اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 8میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! ہو جاؤ قائم رہنے والے اللہ کے لیے گواہی دینے والے انصاف کی اور نہ ہرگز آمادہ کرے تم کو کسی قوم کی دشمنی اس بات پر کہ تم عدل نہ کرو ۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ زیادہ قریب ہے ‘تقویٰ کے اور للہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ بے شک اللہ تعالیٰ خوب باخبر ہے‘ اس سے جوتم عمل کرتے ہو۔ ‘‘
بدقسمتی سے ہمارے معاشرہ میں زندگی کے مختلف شعبوں میں نا انصافی اور زیادتی عام ہے۔ اس ناانصافی کا آغاز گھریلو سطح سے ہی ہو جاتا ہے۔ اولاد کے درمیان تفریق کرنا بھی نا انصافی کی ہی ایک قسم ہے؛ چنانچہ اس سلسلے میں جب ہم احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں ‘تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمیں اولاد کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر ؓ منبر پر بیان کر رہے تھے کہ میرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دیا‘ تو عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا ( نعمان کی والدہ ) نے کہا کہ جب تک آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ نہ بنائیں میں راضی نہیں ہو سکتی؛ چنانچہ ( حاضر خدمت ہو کر ) انہوں نے عرض کیا کہ عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو میں نے ایک عطیہ دیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے میں آپ کو اس پر گواہ بنا لوں‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو؛ چنانچہ وہ واپس ہوئے اور ہدیہ واپس لے لیا۔
اسی طرح سنن ابن ماجہ میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی اولاد کے درمیان انصاف کیا کرو‘ اپنے بیٹوں کے حقوق کی ادائیگی میں برابری کا خیال رکھا کرو ( کسی کے ساتھ نا انصافی اور زیادتی نہ ہو ) ۔
اسلام میں تعدد ازواج کی اجازت ہے اور کوئی بھی صاحب استطاعت شخص چار تک شادیاں کرسکتا ہے‘ لیکن اُس کو اپنی بیویوں کے درمیان انصاف کرنا ہو گا اور اگر اس کو اندیشہ ہو کہ وہ انصاف نہیں کر سکے گا تو اس کو ایک ہی شادی کرنے کی رغبت دلائی گئی ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 3میں ارشاد فرماتے ہیں: '' پس تم نکاح کر لو جو تمہیں بھلی لگیں عورتوں میں سے دو دو اور تین تین اور چار چار‘ پھر اگر تمہیں ڈر ہو کہ نہ عدل کر سکو گے (زیادہ میں) تو ایک ہی (کافی ہے) یا جس کے مالک بنے ہیں تمہارے ہاتھ (لونڈی)۔ یہ زیادہ قریب ہے (اس بات کے) کہ تم بے انصافی نہ کر سکو۔ ‘‘اسی حوالے سے جامع ترمذی کی ایک حدیث درج ذیل ہے :
''حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب کسی شخص کے پاس دو بیویاں ہوں اور وہ اُن کے درمیان انصاف سے کام نہ لے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہو گا۔‘‘
ہماری سیاست میں خوشامد کا کلچر اپنے پورے عروج پر ہے۔ اپنے من پسند‘ لیڈر کی ہر بات کا دفاع کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں عدل اور انصاف کے راستے کو ترک کر دیا جاتا ہے‘ جبکہ مخالف جماعت کے لیڈر پر بے جا تنقید کی جاتی ہے اوراس سلسلے میں بھی عدل اور انصاف سے کام نہیں لیا جاتا؛ حالانکہ ہمیں ہر حالت میں حق بات کہنے کی ہی تلقین کی گئی ہے۔ ظالم حاکم کے سامنے عدل اور انصاف کی بات کہنے کو احادیث مبارکہ میں جہاد قرار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے سنن ابن ماجہ کی ایک حدیث درج ذیل ہے: ''حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ یا ظالم حاکم کے پاس انصاف کی بات کہنا ہے ۔ ‘‘
حاکم وقت کو بھی رعایا کے معاملات کو چلاتے ہوئے عدل اور انصاف سے کام لینا چاہیے اور اختیار ات سے تجاوز کرتے ہوئے ظلم کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ‘ جن سات خوش بخت لوگوں کواپنا یا اپنے عرش کا سایہ نصیب کریں گے ‘ان میں سے ایک انصاف کرنے والا حاکم بھی ہو گا۔ اس حوالے سے صحیح بخاری کی حدیث درج ذیل ہے:
'' حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سات طرح کے آدمی ہوں گے۔ جن کو اللہ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔ جس دن اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ اول انصاف کرنے والا بادشاہ‘ دوسرے وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں جوانی کی امنگ سے مصروف رہا‘ تیسرا ایسا شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگا رہتا ہے‘ چوتھے دو ایسے شخص جو اللہ کے لیے باہم محبت رکھتے ہیں اور ان کے ملنے اور جدا ہونے کی بنیاد یہی ( اللہ کے لیے محبت ) محبت ہے‘ پانچواں وہ شخص جسے کسی باعزت اور حسین عورت نے ( برے ارادہ سے ) بلایا لیکن اس نے کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں‘ چھٹا وہ شخص جس نے صدقہ کیا‘ مگر اتنے پوشیدہ طور پر کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ ساتواں وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور ( بے ساختہ ) آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ ‘‘
حکمرانوں اور عدل کی مسند پر بیٹھے ہوئے ذمہ داران کو صحیح بخاری میں مذکور اس اہم واقعہ کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے : ''مخزومیہ خاتون ( فاطمہ بنت اسود ) جس نے ( غزوہ فتح کے موقع پر ) چوری کر لی تھی‘ اس کے معاملہ نے قریش کو فکر میں ڈال دیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کون کرے! آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت عزیز ہیں۔ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کر سکتا؛ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کچھ کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اسامہ! کیا تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا ( جس میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پچھلی بہت سی اُمتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔ ‘‘
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''انسان کے بدن کے ( تین سو ساٹھ جوڑوں میں سے ) ہر جوڑ پر ہر اس دن کا صدقہ واجب ہے ‘جس میں سورج طلوع ہوتا ہے اور لوگوں کے درمیان انصاف کرنا بھی ایک صدقہ ہے۔‘‘
ہمارے معاشرے میں نا انصافی اور ظلم کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے حکمرانوں اور معاشرے میں بسنے والے تمام افراد کو کتاب وسنت میں بیان کردہ تعلیمات پر بھرپور توجہ دینی چاہیے‘ تاکہ اللہ تبارک تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر صحیح طرح عمل ہو سکے اور ہمارا معاشرے امن وسکون کا گہوارہ بن سکے!۔