دنیا بھر میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر ظلم کے واقعات عام ہیں۔ گھروں میں ماتحتوں اور خادموں پر ظلم کرنا ایک عام بات ہے‘ اسی طرح صاحب ِاثر اور صاحب ِ اختیار لوگ بھی کئی مرتبہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے بہت سے لوگوں کو ظلم کا نشانہ بناتے ہیں۔ دنیا کے مختلف مقامات پر بہت سی حکومتیں رعایا کا استحصال کرنے میں مصروف ہیں۔ برما‘ فلسطین اور کشمیر میں ہونے والا ظلم ہم سب کے سامنے ہیں۔ ظالم عام طور پر اس بات کا گمان کرتا ہے کہ مظلوم ظلم کا بدلہ لینے سے قاصر رہے گا اور وہ جب تک چاہے ظلم اور جبر کا راستہ اختیار کیے رکھے گا۔ کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتے اور نہ ہی ظلم کو پسند فرماتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر40 میں ارشاد فرمایا: ''بے شک اللہ تعالیٰ نہیں ظلم کرتا‘ ذرے کے وزن برابر (بھی) اور اگر ہو کوئی نیکی وہ دوگنا کردیتا ہے‘ اسے اور وہ دیتا ہے اپنی طرف سے بہت بڑا اجر۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل میں انسانوں کو عدل اور احسان کرنے کا حکم دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 90میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک اللہ حکم دیتا ہے عدل اور احسان کا۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ تلخ نوائی کو پسند نہیں فرماتے‘ لیکن مظلوم شخص کو اس حوالے سے استثنیٰ حاصل ہے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 148میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اللہ نہیں پسند کرتااعلانیہ بری بات کہنا‘ مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو اور اللہ ہے خوب سننے والا‘ جاننے والا۔‘‘
کتب ِاحادیث میں بھی ظلم کی نہایت بلیغ انداز میں مذمت کی گئی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ پس ‘اس پر ظلم نہ کرے اور نہ ظلم ہونے دے۔ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے‘ اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دور کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت کو دور فرمائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے گا۔اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کے عیب چھپائے گا۔ اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے ہی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ''ظالم قیامت کے دن اندھیرے ہوں گے‘‘۔
بہت سے لوگ دوسروں پر طرح طرح کے ظلم کرتے ‘ان کی بے عزتی کرتے اوران کے مالوں کو ہتھیا لیتے ہیں۔ ان کو درج ذیل احادیث کو پیش نظر رکھنا چاہیے:۔
1۔حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:''اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ ( سے ظلم کیا ہو ) تو آج ہی‘ اس دن کے آنے سے پہلے معاف کروا لے‘ جس دن نہ دینار ہوں گے‘ نہ درہم‘ بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کے (مظلوم ) ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی‘‘۔
2۔ صحیح بخاری میں حضرت سعید بن زید ؓسے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا :میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا: آپ ﷺنے فرمایا : ''جس نے کسی کی زمین ظلم سے لے لی‘ اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا‘‘۔
3۔صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : ''ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے والے ‘جو کچھ بھی کہتے ہیں ‘ اس کا وبال پہل کرنے والے پر ہے‘ جب تک مظلوم حد سے تجاوز نہ کرے ۔‘‘
4۔ سلسلہ احادیث الصحیحہ میں حضرت سلمان ؓسے مروی ہے کہ رسول کریم ؐنے فرمایا: قیامت کے دن ایک آدمی اتنی نیکیاں لائے گا کہ گمان ہو گا کہ ان کے ذریعے نجات پالے گا۔ جن پر اس نے ظلم کیا ہوگاوہ آدمی کھڑے ہوں گے‘ تو اس کی نیکیوں میں سے لے کر مظلوم کو دے دی جائیں گی؛ حتیٰ کہ اس کی کوئی نیکی باقی نہیں بچے گی‘ پھر بھی مظلوم آتے رہیں گے‘ جب اس کی نیکیاں باقی نہیں رہیں گی تو مظلوم کے گناہ لے کر اس کے گناہوں پر رکھ دیئے جائیں گے۔
بعض لوگ اپنی اولادوں کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کرتے انہیں صحیح بخاری میں مذکور اس حدیث پر غور کرنا چاہیے۔ حضرت نعمان بن بشیر ؓسے روایت ہے کہ میری ماں نے میرے باپ سے مجھے ایک چیز ہبہ دینے کے لیے کہا ( پہلے تو انہوں نے انکار کیا ‘کیونکہ دوسری بیوی کے بھی اولاد تھی ) پھر راضی ہو گئے اور مجھے وہ چیز ہبہ کر دی‘ لیکن ماں نے کہا کہ جب تک آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملہ میں گواہ نہ بنائیں میں اس پر راضی نہ ہوں گی؛ چنانچہ والد میرا ہاتھ پکڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں ابھی نوعمر تھا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اس لڑکے کی ماں عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا مجھ سے ایک چیز اسے ہبہ کرنے کے لیے کہہ رہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: اس کے علاوہ اور بھی تمہارے لڑکے ہیں؟ انہوں نے کہا :ہاں‘ ہیں۔ نعمان رضی اللہ عنہ! نے بیان کیا‘ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا ''تو مجھ کو ظلم کی بات پر گواہ نہ بنا۔‘‘
بعض لوگ قرض لینے کے بعد واپس کرتے ہوئے ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں ‘ انہیں صحیح بخاری کی اس حدیث سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''( قرض ادا کرنے میں ) مالدار کی طرف سے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔‘‘
ظالم کو اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جب چاہیں اس کو اس کے ظلم کی بنیاد پر پکڑ سکتے ہیں۔
صحیح بخاری میں حضرت ابو موسی ؓسے روایت ہے کہ رسول کریمﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو چند روز دنیا میں مہلت دیتا رہتا ہے ‘لیکن جب پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا۔
مسلمان حکمرانوں کو بھی ظلم سے بچتے رہنا چاہیے اور مظلوم عوام کی بددعا کے اثرات کو پہچاننا چاہیے۔ اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہیں: ۔
1۔صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب ( عامل بنا کر ) یمن بھیجا‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کہ اس (دعا) کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔
2۔سلسلہ احادیث الصحیحہ میں خزیمہ بن ثابت ؓسے مرفوعا مروی ہے کہ مظلوم کی بددعا سے بچو‘ کیوں کہ یہ بادلوں پر اٹھالی جاتی ہے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے: ''میری عزت اور جلال کی قسم! میں اس کی ضرور مدد کروں گا؛ اگرچہ کچھ دیر بعد ہی کیوں نہ ہو‘‘۔
3۔صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓنے ہنی نامی اپنے ایک غلام کو ( سرکاری ) چراگاہ کا حاکم بنایا ‘ تو انہیں یہ ہدایت کی ‘ اے ہنی! مسلمانوں سے اپنے ہاتھ روکے رکھنا ( ان پر ظلم نہ کرنا ) اور مظلوم کی بددعا سے ہر وقت بچتے رہنا ‘ کیونکہ مظلوم کی دعا قبول ہوتی ہے۔
4۔سنن ابو داود میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی مہربان حضرت محمد ﷺنے فرمایا: ''تین دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں‘ ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں: باپ کی دعا‘ مسافر کی دعا‘ مظلوم کی دعا ۔‘‘
کتب احادیث کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر مظلوم کی مدد کرنا لازم ہے۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔سلسلہ احادیث الصحیحہ میں عبداللہ بن مسعودؓسے مروی ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: ''اللہ کے ایک بندے کے بارے میں حکم دیا گیا کہ اسے قبر میں سو کوڑے مارے جائیں۔ وہ التجاو دعائیں کرتا رہا؛ حتیٰ کہ ایک کوڑا بطور سزا رہ گیا۔ اسے ایک کوڑا مارا گیا‘ اس کی قبر آگ سے بھر گئی‘ جب آگ ختم ہوئی اور اسے کچھ افاقہ ہوا تو اس نے پوچھا : تم نے مجھے کس وجہ سے کوڑا مارا ہے؟ فرشتوں نے کہا: تم نے ایک نماز بغیر طہارت کے پڑھی تھی‘ اور تم ایک مظلوم کے پاس سے گزرے تھے ‘لیکن تم نے اس کی مدد نہیں کی تھی۔
2۔ سلسلہ احادیث الصحیحہ میں حضرت برائؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺانصار کی ایک مجلس کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ''اگر تم راستے میں بیٹھنے پر بضد ہو تو (مسافروں کو) راستے کی رہنمائی کرو‘ سلام کا جواب دو اور مظلوم کی مدد کرو۔‘‘
مظلوم کی مدد کے ساتھ ساتھ شریعت نے ہمیں ظالم کی مدد کرنے کا طریقہ بھی بتلایا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا :''اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔" ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! جب وہ مظلوم ہو تو میں اس کی مدد کروں گا‘ لیکن آپ کا کیا خیال ہے جب وہ ظالم ہو گا پھر میں اس کی مدد کیسے کروں؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اس وقت تم اسے ظلم سے روکنا‘ کیونکہ یہی اس کی مدد ہے۔‘‘
ان احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو زندگی کے کسی معاملے میں کسی دوسرے پر ظلم نہیں کرنا چاہیے۔ نہ ہی کسی کے مال کو ہڑپ کرنا چاہیے‘ نہ ہی کسی کی زمین پر قبضہ کرنا چاہیے اور نہ ہی کسی کی عزت پر حملہ کرنا چاہیے۔ ان تمام معاملات میں دوسروں کا استحصال کرنے والے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی گرفت کا نشانہ بنتے ہیں اور دنیا اور آخرت کی تباہیوں اور ہلاکتوں کواپنے لیے اکٹھا کر لیتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ظلم سے محفوظ رکھے اور عدل واحسان والا راستہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)