"AIZ" (space) message & send to 7575

ختم نبوت کانفرنس ہری پور

ہری پور خیبر پختونخوا کا ایک پرُ فضا علاقہ ہے‘ جس میں ملک و ملت اور دین ومذہب سے محبت کرنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ کچھ عرصہ قبل خیبر پختونخوا کے بعض دوستوں نے ہری پور میں ہونے والی ایک بڑی ختم نبوت ﷺکانفرنس میں خطاب کے لیے وقت مانگا۔ میں ان دوستوں کی محبت اور پیار کو دیکھ کر انکار نہ کر سکا۔ ہری پور کی اس کانفرنس میں ملک بھر سے جید علماء کرام کو خطاب کی دعوت دی گئی تھی‘ جن میں مرکزی جمعیت اہلحدیث کے امیر پروفیسر ساجد میر‘ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رانا محمد شفیق خاں پسروری‘ معروف عالم دین حافظ عبداللہ شیخوپوری مرحوم کے فرزند جناب حافظ عبدالباسط شیخوپوری اور دیگر احباب شامل تھے۔ 5 اکتوبر کو ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور سے اسلام آباد کا سفر میں نے مرکزی جمعیت اہلحدیث کے امیر پروفیسر ساجد میر کی ہمراہی میں جہاز کے ذریعے کیا۔ جہاز 5 بجے لاہور ائیر پورٹ سے روانہ ہوا۔ جہاز میں میری نشست پروفیسر ساجد میر کی نشست سے متصل تھی۔ جب جہاز فضا میں بلند ہوا تو ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی زمین اور آسمان کے درمیان معلق اس سواری کی پرواز کو دیکھ حیرت ہونا شروع ہوئی۔میں نے اس موقع پر پروفیسر ساجد میر صاحب کے سامنے اس بات کو رکھا کہ اگرچہ سائنسی ایجادات اپنے پورے عروج پر پہنچ چکی ہیں ‘لیکن آج بھی جہاز کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یقینا یہ ایک غیر معمولی ایجاد ہے۔ ہوا کے سمندر پر محو پرواز رہنے والے جہاز میں یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں۔ اس موقع پر پروفیسر ساجد میر صاحب نے کہا کہ یقینا جہاز فضائے بسیط میں اسی اندا ز میں محو پرواز رہتا ہے ‘جس انداز میں پرندے کو اللہ تبارک وتعالیٰ فضائے بسیط میں معلق رکھتا ہے۔ اس موقع پر پروفیسر ساجد میر صاحب نے اس امر کا بھی اظہار کیا کہ یقینا اس دور میں سائنس کی ترقی کے سبب اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت کو پہچاننے کے امکانات اور مواقع مزید بڑھ چکے ہیں‘ لیکن بدقسمتی سے ابھی بھی بہت سے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طاقت اور قدرت کو تسلیم کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ۔ انہوں نے اس موقع پر الحاد کے فتنے کے پھیلاؤ پردکھ اور تشویش کا اظہار کیا کہ نہ جانے ملحدین اس وسیع وعریض کائنات پر کیوں غوروفکر نہیں کرتے ؟ میں نے الحاد کے فتنے کے حوالے سے اپنے مشاہدے کو ان کے سامنے رکھا کہ جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا وجود ایمان اور دلائل کی روشنی میں بالکل واضح ہے‘ وہیں پر اعمال صالحہ کی بجا آوری کے ساتھ بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی معرفت اور پہچان میں آسانی پیدا ہوتی ہے‘ جو لوگ بکثرت اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز رہتے اور اس کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں ‘تو اللہ تبارک وتعالیٰ زندگی کے مشکل مراحل میں اُن کی مدد کرتے ہیں۔ ایمانی اور عقلی دلائل کے ساتھ ساتھ ان کا مشاہدہ بھی ‘ان کے ایمان میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے۔ 
50 منٹ کا یہ سفر مختلف علمی موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے بخیروخوبی مکمل ہو گیا۔اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اترنے کے بعد اپنے سامان کی وصولی سے قبل ہم نے مغرب کی نماز کو ائیر پورٹ پر ادا کیا ‘ سامان کو وصول کیا۔ باہر نکلے تو یوتھ فورس کے رہنما سلمان اعظم اور ہری پور کے دوست سید احسان اللہ شاہ ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ہم ہری پور جا پہنچے۔ جہاں پر مرکزی جمعیت اہل حدیث خیبر پختونخوا کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر ذاکر شاہ ‘ انجینئر انیس خلیل اور اہلحدیث یوتھ فورس خیبر پختون خوا کے صدر خورشید شاہ نے ہمارا استقبال کیا ۔ اس موقع پر کھانے کا بڑے پرُتپاک انداز میں اہتمام کیا گیا تھا۔ عشاء کی نماز کے بعد جلسہ شروع ہوا‘ جلسے میں ہری پور کے گردونواح سے آنے والے دوست احباب اور عوام نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی۔جلسے سے پروفیسر ساجد میر ‘ رانا شفیق خاں پسروری‘ حافظ عبدالباسط شیخوپوری اور دیگر علماء کرام نے خطاب کیا۔ ان خطابات کے بعد مجھے بھی ختم نبوتﷺ کے عنوان کے حوالے سے اپنی گزارشات کو عوام الناس کے سامنے رکھنے کا موقع میسر آیا‘ جن کے خلاصے کو میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:۔ 
قرآن مجید کی متعدد آیات اورنبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ کے بعد کسی رسول اور نبی کے آنے کے کوئی امکانات اور گنجائش موجود نہیں۔ نبی کریمﷺ سے قبل آنے والے انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی اقوام کی طرف مبعوث کیے گئے۔ سابقہ انبیاء اور رسل اللہ کی رسالت اور نبوت ایک مخصوص مدت کے لیے تھی‘ لیکن نبی کریمﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جمیع انسانیت کی رہنمائی کے لیے مبعوث کیا اور آپﷺ کی رسالت اور نبوت کو قیامت تک کے لیے جاری وساری فرما دیا اور کسی بھی رسول اور نبی کی ضرورت کو باقی نہ رہنے دیا۔اس کے باوجود بعض ناعاقبت اندیش لوگ مختلف حیلوں بہانوں سے عقیدہ ختم نبوت کا انکار کرتے رہے۔ ختم نبوت کے منکر بعض لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قرب قیامت نزول کا حوالہ دے کر اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیںکہ نبی کریمﷺ کے بعد بھی نبی آسکتا ہے ؛حالانکہ یہ ایک بدیہی اور واضح امر ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت نبی کریمﷺ کی تشریف آوری سے پہلے ملی تھی۔ بعض لوگ نبی کریمﷺ کو مہر نبوت قرار دے کر کسی نئے نبی کے آنے کے امکانات کی بات کرتے ہیں؛ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ مہر ہمیشہ تحریر کے آخر میں لگائی جاتی ہے۔ مہر سے پہلے لکھی جانے والی تحریر درست اور اس کے بعد لکھی جانے والی تحریر ہمیشہ جعلی اور مصنوعی قرار پاتی ہے۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اس بات کا ذکر کیا کہ انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں نبوت اور کتاب کو جاری فرمایا ہے ‘لیکن بعض لوگ ایسے لوگوں کونبی ماننے کی بات کرتے ہیں جن کا نسب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نہیں ملتا‘ اسی طرح احادیث مبارکہ میں حضرت امام مہدی کے ظہور کا ذکر ہے۔ جب حضرت امام مہدی کے ظہور سے متعلقہ احادیث کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کا تعلق نبی کریمﷺ کی اولاد سے ہوگا۔ بعض لوگ ایسے لوگوں کو امام مہدی ماننے کی بات کرتے ہیں ‘جن کا تعلق نبی کریمﷺ کے خانوادے کی بجائے کسی اور خاندان سے ہے‘ اسی طرح احادیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلا م کا نزول دمشق کی جامع مسجد کے مینار پر ہوگا ‘جبکہ منکرین ختم نبوت ایسے لوگوں کو نبی مانتے ہیں ‘جن کا تعلق دمشق اور شام کی بجائے دنیا کے کسی اور مقام سے ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرامین اور نبی کریمﷺ کی احادیث کی روشنی میں اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ نبی کریم ﷺ ‘اللہ تبارک وتعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ ختم نبوت کا انکار کرنے والے لوگوں کا عقیدہ جہاں پر قرآن مجید‘ احادیث مبارکہ‘ اجماع اور تواتر اُمت سے ہم آہنگی نہیں رکھتا ‘وہیں پر 7 ستمبر 1974ء میں ہونے والا قومی اسمبلی کا متفقہ اور بے مثال فیصلہ بھی اس بات کی تائید کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ 
اگر کوئی شخص دین اور مذہب کے اعتبار سے اپنے لیے درست یا غلط راستے کا انتخاب کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے‘ لیکن ایسے لوگوں کو زبردستی اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ کچھ اس قسم کی گفتگو ہی گزشتہ دنوں برمنگھم میں ہونے والی کانفرنس میں برادر لارڈ نذیر کی موجود گی میں ہوئی ‘جس پر منکرین ختم نبوت نے میری تقریر پر شدید نکتہ چینی کی اور اس حوالے سے جارحانہ ردعمل کا اظہار کیا۔ سچی بات یہ ہے کہ کسی کے غم وغصے کی وجہ سے حقائق کو تبدیل نہیں کیا جا سکتاہے۔ہری پور کی اس کانفرنس میں شریک ہونے والی عوام کی کثیر تعداد نے زبردست جوش وجذبے کا اظہار کیا اور خطباء کی تقاریر کو بڑی توجہ کے ساتھ سنا۔ میرے بعد بھی فیصل افضل شیخ ‘ سلمان اعظم اور دیگر مقررین اپنے اپنے انداز میں خطابات کرتے رہے۔لوگ ان خطابات کو نہایت انہماک اور توجہ کے ساتھ سنتے رہے اور ختم نبوت ﷺکے عنوان پر منعقد ہونے والی کانفرنس اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے ہوئے اختتام پذیر ہو گئی! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں