انسان کی اولاداس کا بیش قیمت اثاثہ ہے اورا س کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرنا ‘والدین کی اہم ذمہ داریوں میںسے ایک ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اولاد کے خورونوش‘ لباس اور اچھی تعلیم کا انتظام کرنے کے لیے بالعموم والدین بھرپور انداز میںتگ ودوکرتے ہیں‘ لیکن والدین کی لاپروائی کی وجہ سے ہمارے معاشرے میںنوجوانوں کی اکثریت دینی تعلیمات اور اخلاقی اقدار سے دور ہوتی چلی جا رہی ہے۔ دین کے حوالے سے دورِ حاضر کے اکثر نوجوانوںکی معلومات انتہائی سطحی نوعیت کی ہیں‘ اسی طرح اخلاقی اعتبار سے بھی آج کا نوجوان گراوٹ کا شکار نظر آتا ہے۔ آج کا نوجوان جھوٹ‘ دھوکہ‘ فریب‘ عیاری‘ مکاری‘ خود پسندی ‘ مادہ پرستی اور حسن پرستی کی دلدل میںاُتر چکا ہے۔ بہت کم نوجوان ان عیوب سے پاک نظر آئیں گے۔ اولادکے بگڑ جانے کا ایک بڑا سبب والدین کی حد سے بڑھی ہوئی معاشی سرگرمیاں اوراولاد کے معمولات سے بے خبری ہے۔ بری صحبت کے انسان پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ والدین کی اکثریت اپنی اولادوں کے معمولات اوران کے دوست احباب سے نا آشنا ہے۔ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اولاد کی اچھے طریقے سے معاشی کفالت کر رہے ہیں اور ان کو سہولیات فراہم کر رہے ہیںتوگویا انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو اداکر دیا ہے؛ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ معاشی ترقی اور استحکام؛ اگرچہ ہر انسان کا ایک اہم ہدف ہے‘ لیکن اگر اس کو تربیت سے جدا کر دیا جائے تو یہی معاشی ترقی کئی مرتبہ اولاد کی عادات کے بگڑنے کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ والدین کو اس بات کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اولادکی تربیت اور ان کی دینی اور اخلاقی ترقی کے لیے ان کو اپنے وقت کا ایک حصہ ہر صورت اولاد کی ہمراہی میں صرف کرنا پڑے گا اور اولاد کی ذہن سازی کے لیے اچھی نصیحتوں اور موثر باتوںکو ان تک منتقل کرنا پڑے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میںحضرت لقمان علیہ السلام کے کردار کو بطورِ باپ بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو انتہائی بیش قیمت نصیحتیں کی تھیں ‘جو سورہ لقمان کی آیت نمبر 13سے 19میں یوں بیان کیا گئی ہیں:۔
''اور جب کہالقمان نے اپنے بیٹے سے جب کہ وہ نصیحت کر رہا تھا‘اُسے اے میرے بیٹے ! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا بے شرک یقینا بہت بڑا ظلم ہے۔ اور ہم نے وصیت (تاکید) کی انسان کو اپنے والدین کے ساتھ (حسن سلوک کی)۔ اُٹھائے رکھا اُسے اُس کی ماں نے کمزوری پرکمزوری (کے باوجود) اور اُس کادودھ چھڑانا دو سال میں(ہے) (اور) یہ کہ تو شکر کر میرااور اپنے والدین کا۔ میری ہی طرف (تم سب کا)لوٹنا ہے اور اگر وہ دونوں زور دیں تجھ پر اس پر کہ تو شریک ٹھہرائے میرے ساتھ (اُسے) جو (کہ) نہیں ہے تجھے اُس کا کوئی علم تو تم اطاعت نہ کرو اُن دونوں کی۔ اورسلوک کر اُن دونوں سے دنیا میںاچھے طریقے سے اور پیروی کر اُس شخص کے راستے کی جو رجوع کرتا ہے ‘میری طرف‘ پھر میری ہی طرف تمہارا لوٹنا ہے تو میں تمہیں خبر دوںگا (اُس)کی جو تم عمل کرتے تھے۔ اے میرے پیارے بیٹے بے شک وہ (اچھائی یا برائی) اگر ہو رائی کے کسی دانے کے برابر پھر وہ ہو کسی چٹان میں یا (وہ ہو) آسمانوں میں یا زمین میں (تو) لے آئے گا اُس کو اللہ ۔ بے شک اللہ بہت باریک بین خوب خبردار ہے۔ اے میرے پیارے بیٹے ! تو نماز قائم کر اور نیکی کا حکم کر اور برائی سے روک اور صبر کر اس (تکلیف) پر جو تجھے پہنچے بے شک یہ ہمت کے کاموںمیں سے ہے۔ اور نہ پُھلا اپنا رخسار لوگوں کے لیے اور مت چل زمین میںاکڑ کر بے شک اللہ نہیںپسند کرتا ہر تکبر کرنے والے فخر کرنے والے کو۔ اور میانہ روی رکھ اپنی چال میںاور پست رکھ اپنی آواز کو بے شک بدترین آوازوں میں سے یقینا گدھوں کی آواز ہے۔‘‘
ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو دین اور دنیا کے اہم امور سے متعلق خوبصورت نصیحتیں کیں۔ آپ نے جہاںپر اپنے بیٹے کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید اور بندگی کا حکم دیا‘ وہیںپر آپ نے اپنے بیٹے نماز کی اقامت اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا بھی حکم دیا‘ اسی طرح سماجی اعتبار سے بھی آپ نے اپنے بیٹے کو کبر سے بچنے اور صبر پر مداومت اختیار کرنے کی نصیحت کی اور لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی۔قرآن مجید میںاللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مثالی کردار کا بھی ذکر کیا ہے۔ آپ کو جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلانے کا حکم دیا تو آپ نے اس موقع پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بھی مشورے میں شامل کیا۔ اس کا مقصد حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دلجوئی کرنا اوران کو قربانی کے لیے آمادہ کرنا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ صف کی آیت نمبر 102میںاس واقعہ کو یوںبیان فرماتے ہیں: ''پھر جب وہ پہنچا اس کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو‘ اس نے کہا اے میرے بیٹے! بے شک میں دیکھتا ہوں خواب میں کہ بے شک میںذبح کر رہا ہوں تجھے پس تو دیکھ تو کیا خیال کرتا ہے ‘ اس نے کہا؛ اے میرے ابا جان! آپ کر گزرئیے جو آپ کو حکم دیا جا رہا ہے‘ آپ عنقریب ضرور پائیںگے مجھے اگر اللہ نے چاہا صبر کرنے والوں میں سے۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں تعمیر بیت اللہ کے حوالے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کا ذکر کیا۔ قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل ؑ بھی ان کے ہمراہ اس کارِ خیر میںشریک تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 127‘128میں اس واقعہ کو یوںبیان فرماتے ہیں: ''اور جب بلند کر رہے تھے ‘ابراہیم بنیادیں بیت اللہ کی اور اسماعیل بھی (اور وہ دعا کر رہے تھے) اے ہمارے رب قبول فرما ہم سے (یہ خدمت) بے شک تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب اور بنا ہم دونوں کو فرمانبردار اپنا اور ہماری اولاد میںسے ایک گروہ اپنا فرمانبردار (بنا) اور ہمیں دکھا (سکھا) ہماری عبادت کے طریقے اور تو ہم پر متوجہ ہو بے شک تو ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اولاد کو آخری وقت تک دین سے وابستگی کی تلقین فرماتے رہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 132میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں: ''اور وصیت کی اس (دین) کی ابراہیم نے اپنے بیٹے کو اور یعقوب نے (اپنے بیٹے کو) اے میرے بیٹو! بے شک اللہ نے انتخاب کیا ہے تمہارے لیے دین (کا) تو تم ہرگز نہ مرنا مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔‘‘
والدین کو اپنی اولاد کی تربیت کے لیے اپنی بساط کی حد تک جستجو کرنے کے بعد اپنی اولاد کی دنیاوی اور اخروی کامیابی کے لیے دعا گو بھی رہنا چاہیے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام کے حق میں کی گئی دعاؤں کا سورہ ابراہیم کی آیت نمبر35 سے 40 تک میں کچھ یوں ذکر فرمایا ہے:۔
''اور جب کہا : ابراہیم نے اے میرے رب تو بنا دے اس شہر (مکہ) کو امن والا اور دور رکھ مجھے اور میرے بیٹوں کو کہ ہم عبادت کریں بتوں کی۔ اے میرے رب بے شک انہوں نے گمراہ کر دیا ہے بہت سے لوگوں کو پھر جس نے پیروی کی میری تو بے شک وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری نافرمانی کی بے شک تو بہت بخشنے والا‘ بڑا مہربان ہے۔ اے ہمارے رب بے شک میں نے آباد کیا ہے اپنی اولاد کو ایک (ایسی) وادی میں (جو) نہیں ہے ‘کسی کھیتی والی تیرے حرمت والے گھر کے پاس اے ہمارے رب‘ تاکہ وہ نماز قائم کریں ‘ تو کردے لوگوں میں سے (کچھ کے) دلوں کو (کہ) وہ مائل ہوں‘ اُن کی طرف اور رزق دے انہیں پھلوں سے تاکہ وہ شکر ادا کریں۔ اے ہمارے رب! بے شک تو جانتا ہے‘ جو کچھ ہم چھپاتے ہیںاور جو ہم ظاہر کرتے ہیں اور نہیں چھپتی اللہ پر کوئی چیز زمین میں اور آسمان میں۔ تمام تعریف اللہ کے لیے ہیں‘جس نے عطاکیے مجھے بڑھاپے کے باوجود اسماعیل اور اسحاق‘ بے شک میرا رب یقینا خوب سننے والا ہے دعا کا۔ اے میرے رب ! بناد ے مجھے قائم رکھنے والا نماز کا‘ اور میری اولاد میں سے (بھی) اے ہمارے رب ! اور تو قبول فرما میری دعا کو۔‘‘
قرآن مجید میں مذکور ان دعاؤںسے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ والدین کو اپنی بساط کی حد تک اپنی اولاد کوسنورانے کی کوشش کرنے کے بعد ان کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میںدعائیں بھی کرتے رہنا چاہیے۔ عصر ِ حاضر کے والدین کو بھی اپنی اولادکی تربیت کے لیے جہاں پر کوشش کرنی چاہیے‘ وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر ان کے لیے دعا گو بھی رہنا چاہیے ۔ اس طریقے پر عمل پیرا ہو کر اُمید کی جا سکتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اولاد کو دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے ہمکنار فرما دیں گے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی اولادوں کو دین اور دنیا کی اعلیٰ ترین کامیابیوں سے ہمکنار فرمائے۔ (آمین)