علامہ اقبال برصغیر کے عظیم سیاسی رہنما ، نامورمسلمان مفکر اور عظیم فکری شاعر ہیں۔ علامہ اقبال سے پہلے سے بھی اُردو ادب میں بڑے بڑے قد آور شعرا گزرے ہیں جن میں مرزا غالبؔ، میرتقی میرؔ، خواجہ میر دردؔ، مولانا الطاف حسین حالیؔ، حسرتؔ موہانی اور اکبر الٰہ آبادی جیسے قادرالکلام شعرا قابلِ ذکر ہیں لیکن جو مقام اور عروج علامہ محمد اقبال کو حاصل ہوا‘ وہ کسی دوسرے کو حاصل نہ ہو سکا۔ علامہ محمد اقبال کے بطور شاعر عروج کی وجہ ان کی نظریاتی ، انقلابی اور تحریکی شاعری ہے۔ ان کی فکر انگیز آفاقی شاعری کی وجہ سے یوں محسوس ہوتا ہے گویا وہ آج بھی ملت اور اُمت کی رہنمائی کر رہے ہوں۔ علامہ اقبال کو ان کی حکیمانہ اور پُرفکر شاعری کی وجہ سے حکیم ِ مشرق بھی کہا جاتا ہے۔ آپ بڑی حکمت کے ساتھ اہلِ مشرق اور اہلِ اسلام کی زبوں حالی اور تنزلی کے سدباب کیلئے فکر انگیز کلام پیش کیا کرتے تھے۔ علامہ اقبال کے کلام کے حوالے سے دیگر پاکستانیوں کی طرح میری بھی یادیں ہیں۔
میں نے ابتدائی تعلیم کریسنٹ ماڈل سکول سے حاصل کی جہاں پر ہر ہفتے میں ایک روز اسمبلی میں علامہ اقبال کا ملی ترانہ پڑھا جاتا تھا۔ ملی ترانے کے الفاظ ہر اعتبار سے ایمان افروز ، روح پرور اور ملک و ملت کی محبت کو اجاگر کر دینے والے تھے۔ میں جب بھی کبھی سکول کے ایام کو یاد کرتا ہوں تو زیر نظر اشعار میرے دماغ کی سکرین پر چلنا شروع ہو جاتے ہیں:
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
دنیا کے بُت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اُس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا
گو ملی ترانے کا ہر شعر ہی قابلِ تحسین تھا لیکن اس کے بعض اشعار عظمت رفتہ کی بہت ہی عجیب انداز میں یاد دلاتے تھے۔ان اشعار کو سن کر یوں محسوس ہوتا تھاجیسے مسلمانوں کے دورِ عروج کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ روح اور قلب پر غیر معمولی اثرات چھوڑنے والے وہ اشعار درج ذیل ہیں:
اے گلِستانِ اندلس! وہ دن ہیں یاد تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں ہمارا
اے موجِ دجلہ! تُو بھی پہچانتی ہے ہم کو
اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا
اے ارضِ پاک! تیری حُرمت پہ کٹ مرے ہم
ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا
ملی ترانہ نبی کریم ﷺ کی محبت اور عظمت کو بڑے خوبصورت انداز میں اجاگر کرتا ہے۔ ملی ترانے کا عظیم شعر درج ذیل ہے: ؎
سالارِ کارواں ہے میرِ حجازؐ اپنا
اس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا
علامہ محمد اقبال نے ایک اور مقام رسول کریمﷺ کے ساتھ وفاداری کے نتائج کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا :؎
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم ترے ہیں
علامہ اقبال کی شاعری نوجوانوں کی ذہن سازی میں کلیدی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ علامہ اقبال کی بہت سی نظمیں نوجوانوں میں دین کی محبت اور تڑپ کو پیدا کرتی ہیں۔ اس حوالے سے ایک اہم نظم کے دو اشعار درج ذیل ہے:
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے
وہ کیا گردُوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹُوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبّت میں
کُچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا
علامہ اقبال نے مسلمان نوجوانوں کو جہدِ مسلسل کا بھی درس دیا۔ وہ اکثر ملت کے نوجوانوں کو شاہین سے تشبیہ دیتے تھے اور وہ اس کو مثالی پرندے کے طور پر پیش کرکے مسلمان نوجوانوں میں تحریک پیدا کیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے ان کا ایک خوبصورت شعر :؎
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پر دم ہے اگر تو ،تو نہیں خطرۂ گفتار
اسی طرح ایک اور مقام پر آپ نے فرمایا ؎
نہیں ترا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
آپ نے نوجوانوں کو خودداری اور غیرت و حمیت کا درس دیا اور غیرت کو فراموش کرکے مادی عروج کو حاصل کرنے کی بہت سے مقامات پر مذمت کی۔ اپنی مشہور نظم ''بڈھے بلوچ کی نصیحت‘‘ میں علامہ اقبال فرماتے ہیں:
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
اسی طرح آپ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
اقبال نے اُمت کے عروج ، دفاع اور بقا کے لیے اُن کی ایمانی قوت کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ آپ کے نزدیک مادی کمزوری پر روحانی عروج اور طاقت کے ذریعے غلبہ پایا جا سکتا ہے۔ آپ ایمان کی طاقت کو اسلحے کی طاقت سے زیادہ اہم گردانتے تھے۔ اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ؎
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
ایمان اور یقین کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں؎
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں، نہ تدبیریں
جوہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
آپ کے نزدیک تہذیبوں کی کشمکش میں مسلمانوں کی اصل قوت ان کا ایمان ہے۔ چنانچہ فرمایا:
اللہ کو پامردیٔ مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
آپ اپنی اس فکر کو ثابت کرنے کے لیے میدانِ بدر کی مثال پیش کرتے ہیں۔ آپ کا استدلال تھا کہ اگر بدر کے معرکے میں مسلمان اسلحے، وسائل اور افرادکی کمی کے باوجود کافروں پر غالب آسکتے تھے تو آج کا مسلمان اپنے ایمان کی طاقت سے کافروں پر غلبہ حاصل کیوں حاصل نہیں کرسکتا، آپ فرماتے ہیں: ؎
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
علامہ اقبال کے نزدیک ایمان کی پختگی کے حصول کے لیے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے والہانہ محبت ، زندگی میں پیش آنے والی مشکلات پر صبر کرنا اور حالات کے مدوجزر کے اسباب اور حکمت کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ زوالِ امت کے حوالے سے مسلمانوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک وشبہات کے بیان کے لیے آپ نے اپنی مشہور نظم ''شکوہ‘‘ لکھی۔ اس نظم میں اُٹھائے گئے سوالات کا جواب ''جوابِ شکوہ‘‘ میں دے کر اس بات کو واضح کر دیا کہ مسلمانوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے حالات کا گلہ کرنے کے بجائے اپنے اعمال پر غور کرنا چاہیے اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے کردار کے ساتھ اپنے طرزِعمل کا موازنہ کرناچاہیے۔ مسلمانوں کو ترقی کے راستے پر چلنے کے لیے اپنے ایمان وعمل کی اصلاح کرنی چاہیے۔
علامہ اقبال نے تحریک پاکستان کے دوران دو قومی نظریے کے فروغ میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور ہندو قومیت کے مقابلے میں مسلمان قومیت کے تصور کو اُجاگرکیا۔ آپ اس حوالے سے بڑے خوبصورت انداز میں فرماتے ہیں :
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رُسولِ ہاشمیؐ
اُن کی جمعیت کا ہے مُلک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رُخصت تو ملّت بھی گئی
آپ کے ان فکر انگیز اشعار کی وجہ سے مسلمانوں میں ایک علیحدہ قوم کا فرد ہونے کا احساس اور شعور پیدا ہوا اور برصغیر کے مسلمان ایک علیحدہ وطن کے حصول کے لیے متحد اور یکسوہو گئے۔ علامہ اقبال اپنی فکری اور انقلابی شاعری کی وجہ سے مسلمانانِ عالم میں بالعموم اور مسلمانان ِ برصغیر میں بالخصوص ہمیشہ کے لیے زندہ وجاوید ہو چکے ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ سے دُعاہے کہ وہ ہمیں علامہ اقبال کے افکار پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین !