ڈاکٹر ذیشان معروف ماہرِ تعلیم ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور برطانیہ کے معروف تعلیمی ادارے نوٹنگھم یونیورسٹی سے آر این اے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ 22جنوری کو انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں کورونا کے سماجی اثرات کے حوالے سے ایک فکری نشست کا اہتمام کیا جس میں ملک کے ممتاز دانشوروں اور ماہرینِ تعلیم کو مدعو کیا گیا تھا۔ معروف صحافی اور دانشور مجیب الرحمن شامی ، حفیظ اللہ نیازی، معروف ماہرِ ابلاغیات ڈاکٹر شفیق جالندھری ، ڈاکٹرمجاہد منصوری، پروفیسر وقار ملک اور پنجاب یونیورسٹی لائبریری سائنس کے ڈین ڈاکٹر خالد محمود کے علاوہ دیگر دانشوران اس نشست میں موجود تھے۔ اس موقع پر جہاں پر کورونا کے پھیلاؤ، اس کے معاشرتی اثرات اور اس کے تدارک کے حوالے سے دانشوروں نے اپنی اپنی آرا کا اظہار کیا ‘وہیں پر مجھے ایک طویل مدت کے بعد اپنے عظیم اساتذہ ڈاکٹر شفیق جالندھری اور ڈاکٹر مجاہد منصوری کے ساتھ مل بیٹھنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر شفیق جالندھری شعبہ ابلاغیات کے ایک ممتاز استاد ہیں جنہوں نے 38 برس تک پنجاب یونیورسٹی میں تدریس کی ذمہ داریاں انجام دیں اور اس کے بعد 14 برس مختلف تعلیمی اداروں میں خدمات کو انجام دیتے رہے اور تاحال ابلاغیات کے طلبہ کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر مجاہد منصوری کا شمار ملک کے ممتاز اہل قلم میں ہوتا ہے اور فنِ صحافت کے حوالے سے آپ نے طویل عرصے تک طلبہ کی بہترین انداز میں رہنمائی کی ہے۔ ان اساتذہ سے ملاقات کے دوران ماضی کے ان خوشگوار ایام کی یادیں میرے دماغ کی سکرین پر چلنے لگیں جب میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کا طالب علم ہوا کرتا تھا۔ اس وقت شعبہ میں ڈاکٹر مسکین علی حجازی، ڈاکٹر مغیث الدین شیخ اور ڈاکٹر اے آر خالد جیسے ممتاز اساتذہ تدریس کی ذمہ داریاں نبھایا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان تمام اساتذہ کو فکر ونظر کی بہت سی صلاحیتوں سے نوازا تھا اور طلبہ کے ساتھ شفقت ان کے وجود اور کردار میں رچی بسی ہوئی تھی۔ یقینا انسان کی شخصیت سازی میں والدین کے بعد اساتذہ نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ مجھے بھی بچپن سے لے کر اب تک بہت سے اساتذہ سے علم حاصل کرنے کا موقع ملا اور جب بھی کبھی ان اساتذہ کی محنت ، لگن اور جستجو کی یادیں ذہن میں ابھرتی ہیں تو ان عظیم اساتذہ کے احسان کا احساس رگ وپے میں سرایت کرتا چلا جاتا ہے۔ ڈاکٹر شفیق جالندھری اور ڈاکٹر مجاہد منصوری کے ساتھ ملاقات جہاں ماضی کی خوشگوار یادوں کو دہرانے کا سبب تھی وہیں پر میرے ذہن میں اساتذہ کی عظمت اور حقوق کے حوالے سے بھی مختلف قسم کے خیالات گردش کرنے لگے۔ دورِ حاضر کے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد اساتذہ کے حقوق سے یکسر غافل ہے اور ان کے ادب واحترام اور دیگر پہلوئوں کے حوالے سے جو ذمہ داریاں اُن پر عائد ہوتی ہیں ان کو فراموش کر چکی ہے۔ یہ وقت کا اہم تقاضا ہے کہ ہم کتاب وسنت کی روشنی میں اپنے اساتذہ کے حقوق کی معرفت حاصل کریں۔ اساتذہ کے حوالے سے جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں ان میں سے بعض اہم درج ذیل ہیں:
1۔ اساتذہ کا ادب واحترام: اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ رحمن کی آیت نمبر 60میں ارشاد فرمایا ہے :''نہیں ہے احسان کا بدلہ مگر احسان ہی‘‘۔ چنانچہ جن لوگوں نے ہمیں تعلیم دینے کے لیے اپنے وقت اور صلاحیتوں کو صرف کیا ہو اور ہماری شخصیت کی نشوونما میں کلیدی کردار ادا کیا ہو یقینا والدین کے بعد ان کا ادب اور احترام ہم پر لازم ہے اور ہمیں کوئی ایسا عمل نہیں کرنا چاہیے جس سے ان کی تنقیص یا بے ادبی ہوتی ہو۔ احادیث مبارکہ میں بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کیا گیا ہے؛ چنانچہ ہمیں اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کرتے ہوئے اساتذہ کے ادب واحترام میں کسی قسم کی کمی نہیں کرنی چاہیے۔
2۔ اساتذہ کی باتوں کو توجہ سے سننا: طلبہ کو دورانِ تدریس اساتذہ کی باتوں کو توجہ سے سننا چاہیے اور اپنی سوچ وفکر کو ان کی گفتگو کی طرف مرکوز رکھنا چاہیے۔ جو طلبہ اساتذہ کی گفتگو کو توجہ سے سنتے ہیں یقینا وہ اساتذہ سے علم ودانش کے موتیوں کو چننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اس طرزِ عمل کی وجہ سے علم کے میدان میں ترقی کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس بات کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ علم فقط کتب بینی سے ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ علم کے حصول میں اساتذہ کا حاصلِ مطالعہ نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ جو لوگ اساتذہ کے تجربات اور مطالعے سے استفادہ کرتے ہیں وہ کئی مرتبہ بہت سی کتابوں کے مطالعے سے بڑھ کر علمی نکات جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
3۔ ادب اور دلیل سے اختلاف: بسا اوقات اساتذہ کی کہی ہوئی بات علمی اعتبار سے مستند نہیں ہوتی۔ اس موقع پر ان پر طنز یا تنقید کرنے کے بجائے طالب علم کو دلیل کے ساتھ اپنے موقف کو اساتذہ کے سامنے رکھنا چاہیے جس سے علم اور تحقیق کا حق بھی ادا ہو جائے اور اساتذہ کی دل شکنی یا تنقیص بھی نہ ہو۔
4۔ اساتذہ کی ضرورت کے وقت ان کے کام آنا: اہلِ اسلام پر دوسرے مسلمانوں کی خیر خواہی اور ان کی معاونت لازم ہے ۔ احادیث مبارکہ کے مطابق بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کو فائدہ پہنچانے والا ہے۔ بہت سے لوگ اس حوالے سے سستی اور کوتاہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس بہت سے لوگ مثالی زندگی گزارتے ہیں اور دوسروں کے کام آتے ہیں۔ ہمارے قرب وجوار میں بسنے والے لوگوں میں سے اساتذہ ہماری توجہات کے بہت زیادہ حق دار ہیں۔ بہت سے اساتذہ کئی مرتبہ مالی مشکلات یا کسی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے موقع پر اسلام اور انسانیت کے ناتے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم مالی مشکلات کے دوران ان کی مالی معاونت کریں اور بیماری کی صورت میں ان کی تیمارداری کریں۔ ایسا کرنا ان شاء اللہ ہمارے لیے اجروثواب کا باعث ہے ۔ احادیث مبارکہ میں بیماروں کی تیماری داری کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی گئی ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے عظیم اساتذہ بیماری کے ایام میں تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں اور جہاں پر ان کے اعزہ واقارب ان کو نظرانداز کر دیتے ہیں وہیں پران کے شاگرد بھی ان کی خبر گیر ی نہیں کرتے۔ یہ بہت بڑا معاشرتی المیہ ہے جس کے ازالے کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
5۔ اساتذہ کے لیے دعا کرنا: مسلمانوں کو جہاں پر دوسرے مسلمانوں کے لیے دعا کرنی چاہیے وہیں پر اپنی دعاؤں میں اپنے محسنین اور اساتذہ کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے اور ان کے لیے دعائے خیر کرتے رہنا چاہیے۔ جو شخص غائب مومن کے دعا کرتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ ایک فرشتے کو مقرر فرماتے ہیں جو اس کے لیے بھی وہی دعا کرتا ہے۔
اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح مسلم میں حضرت اُم درداء ؓسے روایت ہے اور انہوں نے حضرت ابو درداء ؓسے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کوئی مسلمان بندہ نہیں جو اپنے بھائی کی پیٹھ پیچھے اس کے لیے دعا کرے مگر ایک فرشتہ (ہے جو) کہتا ہے: تمہیں بھی اس کے مانند ملے۔
6۔ اساتذہ کے لیے کلمہ خیر کہنا: اساتذہ کے لیے کلمہ خیر کہنا بھی انتہائی ضروری ہے بہت سے لوگ اپنے اساتذہ کے احسانات کو فراموش کرکے ان کو اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرتے اور ان کی تنقیص یا ان کا استہزا کرتے ہیں۔ یہ رویہ ہر اعتبار سے قابلِ مذمت ہے۔ انسان کو اپنے اساتذہ کی عدم موجودگی میں ان کے لیے کلمہ خیر کہنا چاہیے اور لوگوں کو ان کے اچھے اخلاق ، کارہائے نمایاں اور شخصی احسانات سے بھرپور طریقے سے آگاہ کرنا چاہیے۔
7۔ اساتذہ کے ساتھ خوش اخلاقی سے ملاقات: اگر انسان کو زندگی کے کسی موڑ پر اپنے اساتذہ سے ملنا پڑے تو اپنی سماجی اور معاشی حیثیت کی وجہ سے ان کے ادب واحترام میں کسی قسم کی کمی و کوتاہی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اساتذہ کے منصب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کی بھرپور عزت اور تکریم کرنی چاہیے اور ماضی کے ان لمحات کو ذہن میں رکھنا چاہیے جب بحیثیت استاد وہ انسان کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کر رہے تھے۔
8۔ موت کے بعد دعائے مغفرت: اساتذہ کی موت کی صورت میں انسان کو ان کے جنازے میں شرکت کرنی چاہیے اور ان کے لیے دردِدل سے دعائے مغفرت کرنی چاہیے اور اگر جنازے میں شرکت کرنا ممکن نہ ہو تو انسان کو ان کے لیے دعائے مغفرت کو جاری رکھنا چاہیے۔
انسان یقینا اپنے اساتذہ کے لیے صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اُس کا اپنے اساتذہ کے ساتھ مثبت رویہ معاشرے کی تعمیر و ترقی اور اخلاقی قدروں کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے؛ چنانچہ معاشرے کے تمام طبقات کو اساتذہ کی عزت اور تکریم کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں علم اور علم سکھانے والوں کی قدر کرنے اور ان کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق دے، آمین!