پوری دنیا کی طرح ہمارا معاشرہ بھی اس وقت نفسانفسی اور خود غرضی کا شکار نظر آتا ہے۔ معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کے کام آنے کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف رہتے ہیں۔ایک دوسرے کی جاسوسی کرنا، ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کرنا، ایک دوسرے کی برائی کرنا، دوسروں کے ساتھ حسد کرنا ، دوسرے کو مل جانے والی نعمت کے چھن جانے کی تمنا کرنا اس وقت معاشرے میں عام ہو چکا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی مشکلات میں کام آنے کے بجائے دوسروں کی مشکلات اور پریشانیوں پر مسرور ہوتے ہیں اور ان کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ مشکلات کا شکار رہیں۔ یہ رویے فقط سماج اور سیاسیات میں موجود نہیں بلکہ خاندانی حوالے سے بھی ہمارا معاشرہ اس قسم کے رویوں کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ گھروں میں پائے جانے والے جھگڑے اور انتشار کی بنیادی وجہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے وقف رہنا اور دوسروں کے حقوق کو نظر انداز کرنا ہے۔ اس معاشرتی خلفشار پر قابو پانے کے لیے معاشرے کی تربیت کرنا انتہائی ضروری ہے اور لوگوں کو یہ بات سمجھانی چاہیے کہ خود غرضی کے بجائے دوسروں کے کام آنا ہی بہتری کا راستہ ہے۔ اس حوالے سے علماء کرام، والدین اور اساتذہ پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ معاشرے کی تعلیم وتربیت کے لیے مؤثر کردار ادا کریں۔ اس حوالے سے بعض اہم باتوں کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ جب کتاب وسنت کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو بہت سی خوبصورت باتیں سامنے آتی ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حجرات کی آیات 11 اور 12 میں ارشاد فرمایا: ''اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو! نہ مذاق کرے کوئی قوم کسی (دوسری) قوم سے‘ ہو سکتا ہے کہ وہ بہتر ہوں اُن سے اور نہ کوئی عورتیں (مذاق کریں دوسری) عورتوں سے‘ ہو سکتا ہے کہ وہ بہتر ہوں اُن سے اور نہ تم عیب لگاؤ اپنے نفسوں (یعنی ایک دوسرے) پر اور ایک دوسرے کو مت پکارو (برے) القاب سے (کسی کو) فسق والا نام (دینا) برا ہے ایمان لانے کے بعد ، اور جس نے توبہ نہ کی تو وہ لوگ ہی ظالم ہیں۔ اے (وہ لوگو!) جو ایمان لائے ہو اجتناب کرو بہت گمان کرنے سے‘بے شک بعض گمان گناہ ہیں اور تم جاسوسی نہ کرو ، اور نہ غیبت کرے تم میں سے کوئی (کسی) دوسرے کی‘ کیا تم میں سے کوئی ایک (اس بات کو) پسند کرتا ہے کہ وہ گوشت کھائے اپنے مردہ بھائی کا؟ تو تم ناپسند کرتے ہو اُسے، اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے‘‘ ۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حجرات ہی کی آیت نمبر 10میں مسلمانوں کے باہمی بھائی چارے کی اہمیت کو اس انداز میں اجاگر فرمایا:''یقینا مومن (تو ایک دوسرے کے) بھائی ہیں‘ پس صلح کرا دو اپنے دونوں بھائیوں کے درمیان‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں انصاری صحابہ کرام ؓکی تعریف کی ہے کہ انہوں نے مہاجر صحابہ کرامؓ کے ساتھ دین کی بنیاد پر بے مثال محبت کی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حشر کی آیت 9 میں اس حقیقت کو یوں واضح فرماتے ہیں: ''وہ ــمحبت کرتے ہیں (ان سے) جس نے ہجرت کی ان کی طرف اور وہ نہیں پاتے اپنے سینوں میں کوئی خواہش (اور خلش) اس سے جو وہ دیے جائیں اور وہ ترجیح دیتے ہیں اپنے نفسوں پر اور اگرچہ ان کو سخت ضرورت ہی ہو اور جو بچا لیا گیا اپنے نفس کی حرص (یا بخیلی) سے تو وہی (لوگ ہی) فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام اللہ میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ مہاجر اور انصار صحابہ کرامؓ کے بعد آنے والے اہلِ ایمان ان کے لیے اخوت اور خیر خواہی کے جذبات رکھا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس بات کو سورہ حشر ہی کی آیت 10میں کچھ یوں فرماتے ہیں: ''اور (ان لوگوں کے لیے) جو ان کے بعد آئے‘ وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے (ان) بھائیوں کو بھی جنہوں نے ہم سے پہل کی ایمان لانے میں اور نہ ڈال ہمارے دلوں میں کوئی کینہ ان (لوگوں ) کے لیے جو ایمان لائے‘‘۔
دنیا میں کئی مرتبہ اچھے عقیدے اور عمل کو رکھنے والے لوگ بھی غلط فہمیوں یا مزاج کی ہم آہنگی نہ ہونے کے سبب ایک دوسرے کی مخالفت پر آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کے دن ایسے لوگوں سے کینے کو دور کر کے اُن میں محبت کو پیدا فرما دے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف کی آیت 43میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ہم نکال ڈالیں گے جو ان کے سینوں میں کوئی کینہ ہو گا‘ (اور وہ ایسے گھروں میں داخل ہوں گے) بہتی ہوں گی ان کے نیچے سے نہریں اور وہ کہیں گے: سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہدایت دی ہمیں اس کی اور نہ تھے ہم کہ ہدایت پاتے اگر نہ اللہ ہمیں ہدایت دیتا‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو سورہ حجر کی آیت 47میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے: ''اور ہم نکال دیں گے جو ان کے سینوں میں ہوگی کوئی کدورت، (جنت میں وہ ) بھائی بھائی (بن کر) تختوں پر آمنے سامنے (بیٹھے ) ہوں گے‘‘۔
احادیث مبارکہ میں بھی ایک دوسرے کی خیر خواہی کی اہمیت کو بہت احسن انداز میں اجاگر کیا ہے۔ اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔صحیح بخاری میں حضرت خذیفہ ؓسے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ پہلے زمانے میں ایک شخص کے پاس ملک الموت ان کی روح قبض کرنے آئے تو اس سے پوچھا گیا کوئی اپنی نیکی تمہیں یاد ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے تو یاد نہیں پڑتا۔ اس سے دوبارہ کہا گیا کہ یاد کرو! اس نے کہا کہ مجھے کوئی اپنی نیکی یاد نہیں، سوائے اس کے کہ میں دنیا میں لوگوں کے ساتھ خرید و فروخت کیا کرتا تھا اور لین دین کیا کرتا تھا، جو لوگ خوشحال ہوتے انہیں تو میں (اپنا قرض وصول کرنے میں) مہلت دیا کرتا تھا اور تنگ ہاتھ والوں کو معاف کر دیا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اسی بات پر جنت میں داخل کر دیا۔
2۔صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بدگمانی سے دور رہو کیونکہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے، دوسروں کے ظاہری عیب تلاش کرو نہ دوسروں کے باطنی عیب ڈھونڈو، مال و دولت میں ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت نہ کرو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، آپس میں بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو، اور اللہ کے ایسے بندے بن کر رہو جو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
3۔سنن ابی دائود میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے: تم جنت میں نہ جاؤ گے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ، اور تم (کامل) مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ رکھنے لگو۔ کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں کہ جب تم اسے کرنے لگو گے تو تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو: آپس میں سلام کو عام کرو۔
4۔جامع الصغیر میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں بہترین وہ ہے جو دوسرے لوگوں کیلئے زیادہ نفع مند ہو۔
5۔ الترغیب و الترھیب میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، اور عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ، اللہ کے ہاں محبوب ترین کون ہے؟ اور کون سے اعمال اللہ کو زیادہ پسند ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے، جو لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہے، مشکل دور کرتاہے، قرض ادا کردیتاہے، بھوک مٹاتاہے اور کسی شخص کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ چلنا، مجھے مسجد نبوی میں ایک ماہ کے اعتکاف سے بھی زیادہ پسند ہے۔
ان احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رسول کریمﷺ نے معاشرے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے حسد کرنے اور ایک دوسرے سے مسابقت کرنے سے منع فرمایا ہے اور ایک دوسرے سے ہر وقت خیر خواہی اور بھلائی کی تلقین کی ہے۔ ہمار ا معاشرہ اس وقت جس اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے اس سے باہر نکلنے کے لیے ہمیں خود غرضی اور خود پسندی کے بجائے خیر خواہی کے راستے پر چلنا چاہیے اور اس مسئلے کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں کتاب وسنت سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ خیر خواہی کوفروغ دینے کے لیے والدین کو اپنی اولاد، اساتذہ کو اپنے شاگردوں اور علماء کرام کو اپنے حلقہ احباب کی اچھے طریقے سے تربیت کرنی چاہیے تاکہ معاشرہ حقیقی معنوں میں ایک مثالی معاشرے کی شکل اختیار کر جائے اور معاشرے میں محرومیوں اور مشکلات کا شکار لوگوں کی معاونت اورخیر خواہی کا سلسلہ آگے بڑھ سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے معاشرے کو مثالی معاشرے میں تبدیل فرما دے، آمین !