"AIZ" (space) message & send to 7575

قرآنِ مجید اور ہماری ذمہ داریاں!

قرآنِ مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کی آخری کتاب ہے اوراس کے پروردگارِ عالم کی طرف سے ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرمایا : ''اس کتاب(کے اللہ کی جانب سے ہونے ) میں کوئی شک نہیں‘ پرہیز گاروں کو راہ دکھانے والی ہے‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کتاب کی سچائی اور اپنی طرف سے نازل ہونے کے متعدد دلائل دیے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کو واضح فرمایا کہ اگر یہ کتاب غیر اللہ کی طرف سے ہوتی تو اس میں اختلافِ کثیر پایا جاتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 82میں ارشاد فرماتے ہیں :''کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا اس میں بہت سارا اختلاف پاتے‘‘۔اسی طرح قرآنِ مجید میں اس بات کو بھی بیان فرمایا کہ اس کتاب کی مثل پیش کرنے سے جنات اور انسان ہمیشہ عاجز رہیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 88میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر بھی اس قرآن کی مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے۔ گو وہ (آپس میں) ایک دوسرے کے مدد گار بھی بن جائیں‘‘۔ اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت نمبر 23میں ارشاد ہوا: ''ہم نے جو کچھ اپنے بندے پر اُتارا ہے‘ اس میں اگر تمہیں شک ہے اور تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ، تمہیں اختیار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو بھی بیان فرمایا کہ رسول اللہﷺ نزولِ وحی سے قبل کسی کتاب کی تلاوت نہیں فرماتے تھے ،نہ ہی اپنے ہاتھ سے کسی کتاب کو لکھتے تھے جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ آپﷺ پر نازل ہونے والی کتاب یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی کتاب ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ عنکبوت کی آیات 48 تا 49میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے تھے نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے کہ یہ باطل پرست لوگ شک و شبہ میں پڑتے‘ بلکہ یہ قرآن تو روشن آیتیں ہیں‘ اہلِ علم کے سینوں میں محفوظ ہیں‘ ہماری آیتوں کا منکر بجز ظالموں کے اور کوئی نہیں‘‘۔ان تمام آیات پر غوروفکر کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ قرآنِ مجید یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی کتاب ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے جس میں اللہ نے بیک وقت عقائد، عبادات، معاشرتی معاملات، سیاسی زندگی ، تجارت اور زندگی کے جملہ اُمور سے متعلق رہنمائی کو سمو دیا ہے ۔ یہ کتاب علم، حکمت، ہدایت اور شفایابی کا ایک بحرِ بے کراں ہے جو رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات اور دستور العمل ہے اور قیامت تک اس کے بعد کوئی کتاب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اللہ کی طرف سے نازل نہیں ہو گی۔ بحیثیت مسلمان اس کتاب کے حوالے سے ہم پر بہت ساری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ جن میں سے چند اہم مندرجہ ذیل ہیں:
1۔کتاب اللہ پر ایمان لانا: کتاب اللہ سے وابستگی کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ ہمارا اس پر کامل، مستحکم اور غیر متزلزل ایمان ہونا چاہیے۔ جو کتاب اللہ پر صحیح ایمان لاتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتے اور اس کے معاملات کو سنوار دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ محمد کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور اس پر بھی ایمان لائے جو محمد (ﷺ) پر اتاری گئی ہے اور دراصل ان کے رب کی طرف سے سچا (دین) بھی وہی ہے، اللہ نے ان کے گناہ دور کر دیے اور ان کے حال کی اصلاح کر دی‘‘؛چنانچہ ہم سب کا اس کتاب کے اللہ کی طرف سے ہونے پر پختہ یقین ہونا چاہیے۔
2۔ کتاب اللہ کی تلاوت: قرآنِ مجید پر ایمان لانے کے بعد اس کی تلاوت کرنا اس سے وابستگی کا دوسرا اہم تقاضا ہے۔ قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت زیادہ اجر وثواب رکھا ہے اور اس کے ایک حرف کی تلاوت کرنے پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآنِ مجید کی تلاوت کو بھی ایمان کے تقاضوں میں شامل فرماتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر121 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''جنہیں ہم نے کتاب دی اور وہ اسے پڑھنے کے حق کے ساتھ پڑھتے ہیں‘ وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور جو اس کے ساتھ کفر کرے وہ نقصان والا ہے ‘‘۔ ہم سب کو چاہیے کہ زندگی کے طویل روزوشب کے دوران اس کی تلاوت کرتے رہیں۔
3۔ قرآنِ مجید کی آیات پر تدبر: قرآنِ مجید کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس سے وابستگی کا تیسرا اہم تقاضا یہ ہے کہ اس پر تدبر اور غوروفکر کیا جائے۔ اس پر تدبر کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات اور پیغامات تک رسائی ہوتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ان لوگوں پر تاسف اور ناراضی کا اظہار فرمایا جو قرآنِ مجید میں تدبر نہیں کرتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ محمد کی آیت نمبر 24میں ارشاد فرماتے ہیں: ''تو (بھلا) کیا وہ غور وفکر نہیں کرتے قرآن میں یا (ان کے) دلوں پر تالے (لگ گئے) ہیں‘‘۔
4۔ کتاب اللہ پر عمل: قرآنِ مجید کے ساتھ وابستگی کا اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ تدبر کرنے کے بعد اس کے احکامات پر عمل کیا جائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بے عمل علمائے یہود کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں کی مثال اس طرح ہے جیسے گدھے پر بوجھ لاد دیا گیا ہو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ جمعہ کی آیت نمبر 5میں ارشاد فرماتے ہیں: ''جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا‘ ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہو‘ اللہ کی باتوں کو جھٹلانے والوں کی بڑی بری مثال ہے اور اللہ (ایسی) ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔ اس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 44میں اس بات کو واضح فرمایا کہ انسا ن کو دوسروں کو اچھی بات کی تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی نیکی کے راستے پر چلنا چاہیے؛ چنانچہ ارشاد ہوا: '' کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیہ کہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟‘‘۔
5۔ قرآنِ مجید کی تبلیغ: قرآنِ مجید کے حوالے سے ہم پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ہم اس کے پیغام کا صحیح طریقے سے ابلاغ کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کے مختلف مقامات پر انبیاء کرام علیہم السلام کی ذمہ داریوں میں اس بات کو بیان کیا کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کا ابلاغ کیا کرتے تھے؛ چنانچہ ان کی پیروی میں ہمیں بھی دین حق کا ابلاغ کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 110میں ارشاد فرماتے ہیں: ''تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو ، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو ، اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لئے بہتر تھا ، ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں لیکن اکثر تو فاسق ہیں‘‘۔
6۔ قرآنِ مجید کا قیام اور احکامات الٰہیہ کا نفاذ: قرآنِ مجید کا قیام اور احکامات الٰہیہ کے نفاذ کے لیے کوشاں رہنا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ بہت سے لوگوں کے دلوں میں قرآنِ مجیدکے نظام کے حوالے سے شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں کہ شاید نفاذِ قرآن مجید کے نتیجے میں ہماری معیشت کے معاملات الجھ جائیں گے جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کو واضح فرمایا کہ اگر وہ تورات، انجیل اور احکاماتِ قرآنیہ کو نافذ کرنا شروع کر دیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو اوپر اور نیچے سے رزق دے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 66 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور اگر یہ لوگ تورات و انجیل اور ان کی جانب جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل فرمایا گیا ہے‘ ان کے پورے پابند رہتے تو یہ لوگ اپنے اوپر سے اور نیچے سے روزیاں پاتے اور کھاتے۔ ایک جماعت تو ان میں سے درمیانہ روش کی ہے، باقی ان میں سے بہت سے لوگوں کے برے اعمال ہیں‘‘۔
قرآنِ مجید کے حوالے سے ہمیں ا ن تمام نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی وابستگی اور ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتاب سے محبت اور وابستگی کا صحیح معنوں میں حق ادا کر سکیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآنِ مجید سے وابستگی اختیار کرنے کی توفیق دے، آمین !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں