اس دنیا میں رہتے ہوئے ہر شخص معاشی استحکام کی خواہش کو اپنے دل میں سموئے ہوئے ہے۔ معاشی استحکام کے نتیجے میں انسان اپنی زندگی کی ضروریات کو بطریقِ احسن پورا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور عدم استحکام کی صورت میں اس کو بہت سی محرومیوں، غموں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ معاشی استحکام کی بدولت انسان کی خودداری اور انانیت برقرار رہتی ہے اور انسان دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور دوسروں سے مانگنے سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کے مدمقابل معاشی گراوٹ کی وجہ سے انسان کی خودداری اور انانیت پر ضرب لگتی ہے اور وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور بھی ہو جاتا ہے۔ جہاں معاشی استحکام کی وجہ سے انسان کی بہت سی ضروریات اور تمنائیں پوری ہوتی ہیں‘ وہیں انسان اس کی بدولت بہت سی سہولتیں بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اپنے بچوں کو بہترین تعلیمی اداروں سے تعلیم دلانا، علاج معالجے کی سہولتوں کے لیے بہترین ڈاکٹرز تک رسائی حاصل کرنا ‘یقینا معاشی استحکام کی وجہ سے انسان کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔ اس کے مدمقابل معاشی تنگ دستی کی وجہ سے انسان علاج معالجے، اچھی خوراک اور اچھی تعلیمی سہولتوں سے بھی محروم رہتا ہے۔ معاشی استحکا م کی بدولت انسان موسم کی تلخیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوتا ہے جبکہ معاشی عدم استحکام کی صورت میں انسان موسمی شدت اور تلخی کا مقابلہ کرنے سے بھی قاصر ہو جاتا ہے۔
انسان اپنے معاشی استحکام کے لیے ہر چند کوشاں رہتا ہے اور اس کے لیے وہ اپنی تمام تر توانائیوں اور وسائل کو صرف کرتا ہے۔ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اچھی تعلیم میں صرف کرنے کا مقصد یقینا معاشی استحکام کا حصول ہوتا ہے اور انسان پیشہ ورانہ تعلیم اور مہارت کے بعد اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے پلاننگ مرتب کرتا ہے اور زندگی کے آنے والے سالوں میں اس تعلیم اور فن کو اپنے معاشی استحکام کے لیے استعمال کرتا ہے۔ بہت سے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے اپنی محنت کی بدولت رزق کے اچھے اسباب جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ بہت سے لوگ لاپروائی، تساہل اور کوتاہی کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس نعمت کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ اس بات کا بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ کاروباری منڈیوں میں تجارت کرنے والے ہر تاجر کے پاس گاہکوں کا یکساں رش نہیں ہوتا۔ بعض دکانداروں کے پاس ہر وقت گاہک موجود ہوتے ہیں او ر ان کے مدمقابل بہت سے دکاندار ہاتھوں پر ہاتھ دھرے گاہکوں کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔ کئی مرتبہ معیاری کام کرنے کے باوجود رزق حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور کئی مرتبہ مناسب کام کرنے والوں کے رزق میں بتدریج اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ان تمام چیزوں کو دیکھ کر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ درحقیقت رزق کی تقسیم اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کے قبضۂ اختیار میں ہے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ہود کی آیت نمبر 6میں ارشاد فرماتے ہیں:''اور نہیں ہے کوئی چلنے والا (جاندار) زمین میں مگر اللہ ہی پر ہے اس کا رزق‘ اور وہ جانتا ہے اس کے قرار کی جگہ اور اس کے سونپے جانے کی جگہ‘ سب کچھ ایک واضح کتاب میں (درج) ہے‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ذاریات کی آیات 22 تا 23 میں اس امر کا اعلان فرمایا: ''اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اور وہ بھی جس کا تم وعدہ کیے جاتے ہو۔ پھر قسم ہے آسمان اور زمین کے رب کی‘ بے شک یہ (بات اسی طرح) یقینا حق ہے جس طرح یقینا تم بات کرتے ہو‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کے بہت سے مقامات پر اس بات کا اعلان فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جس کو چاہتا ہے بلا حساب رزق دیتا ہے۔ قرآنِ مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بعض بندوں کے رزق میں اس لیے اضافہ نہیں کرتا کہ وہ زمین پر بغاوت کرنا نہ شروع کر دیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 27میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور اگر اللہ فراخ کر دیتا رزق کو اپنے بندوں کے لیے (تو) یقینا وہ سرکش ہو جاتے زمین میں‘ لیکن وہ اُتارتا ہے ایک اندازے کے ساتھ جتنا وہ چاہتا ہے، بے شک وہ اپنے بندوں سے بہت باخبر‘ خوب دیکھنے والا ہے ‘‘۔
جہاں رزق کی تقسیم اللہ تبارک وتعالیٰ کے قبضۂ اختیار میں ہے وہیں قرآن وسنت کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ رزق کے حصول کے لیے کی جانے والی مادی جدوجہد کے ساتھ حصولِ رزق کے بہت سے روحانی اسباب بھی ہیں جن کو اختیار کرنے کے بعد یقینا انسان کے رزق میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ وہ چند اسباب درج ذیل ہیں:
1۔ تقویٰ: تقویٰ کا معنی درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کو اختیار کرتے ہوئے گناہوں سے اجتناب کرنا ہے۔ جو شخص متقی بن جاتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی تنگیوں کو دور فرما دیتے ہیں اور اس کو رزق وہاں سے دیتے ہیں جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ طلاق کی آیات 2 تا 3میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا کوئی راستہ۔ اور وہ رزق دیتا ہے اُسے (وہاں سے) جہاں سے وہ گمان (بھی) نہیں کرتا‘‘۔
2۔ توکل: توکل کا مطلب اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرنا ہے۔ جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر توکل کرتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے کافی ہو جاتے ہیں اور اس کے جملہ معاملات کو درست فرما دیتے ہیں۔ اس حوالے سے سورہ طلاق کی آیت نمبر 3میں ارشاد ہوا: ''اور جو اللہ پر بھروسا کرے تو وہ کافی ہے اُسے‘ بے شک اللہ پورا کرنے والا ہے اپنے کام کو‘ یقینا اللہ نے مقررکر رکھا ہے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ‘‘۔ توکل کے حوالے سے ایک اہم حدیث بھی درج ذیل ہے:
مسند احمد میں روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر تم اللہ تعالیٰ پر اس طرح توکل کرو، جیسے اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو وہ تمہیں اس طرح روزی دے گا، جیسے وہ پرندے کو روزی دیتا ہے، کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ پرندے کو‘صبح کو وہ خالی پیٹ ہوتا ہے اور شام کو سیرو سیراب‘‘۔
3۔ دُعا: قرآنِ مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بندوں کی دعاؤں کو سننے والے ہیں؛ چنانچہ جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں بکثرت دعا کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ جہاں اس کی دیگر ضروریات کو پورا فرماتے ہیں وہیں اس کی احتیاج اور رزق کی تمنا کو بھی پورا فرما دیتے ہیں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام مدین کے گھاٹ پر موجود تھے تو آپ نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا مانگی۔ اس واقعے کو اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ قصص کی آیت نمبر 24 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں :'' (اے میرے) رب بے شک میں (اس ) کا‘ جو تو نازل فرمائے بھلائی سے میری طرف‘ محتاج ہوں‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اجنبی شہر میں سیدناموسیٰ علیہ السلام کے لیے نہ صرف یہ کہ رزق کا اہتمام فرمایا بلکہ ان کے لیے تمام معاشرتی لوازمات کو بھی پورا فرما دیا۔
4۔ توبہ و استغفار :جب انسان سچے دل سے اپنے ماضی کے گناہوں پر ندامت کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو معاف فرما دیتے ہیں اور اس کے رزق میں اضافہ بھی فرما دیتے ہیں۔ اس حوالے سے سورہ نوح کی آیات 10 سے 12 میں ارشاد ہوا: ''بخشش مانگو اپنے رب سے‘ بے شک وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ بھیجے گا بارش تم پر موسلا دھار اور وہ مدد کرے گا تمہاری مالوں اور بیٹوں کے ساتھ اور وہ (پیدا) کر دے گا تمہارے لیے باغات اور (جاری) کر دے گا تمہارے لیے نہریں‘‘۔
5۔ احکامِ الٰہی کا قیام: کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کو زمین پر قائم کیا جاتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کے رزق میں اضافہ فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 66میں ارشاد فرماتے ہیں :''اور اگر بے شک وہ قائم رکھتے تورات اور انجیل کو اور جو نازل کیا گیا اُن کی طرف اُن کے رب کی طرف سے‘ ضرور وہ کھاتے (اللہ کا رزق) اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے‘‘۔
6۔انفاق فی سبیل للہ: قرآنِ مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو بدلے کے طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو مزید رزق عطا فرمادیتے ہیں؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ سباء کی آیت نمبر 39میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور جو تم (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہو کوئی چیز تو وہ عوض دیتا ہے اُس کا (یعنی اس کی جگہ اور دیتا ہے) اور وہ سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے‘‘ ۔
7۔نکاح: جو شخص اپنی پاک دامنی کے حصول کے لیے نکاح کرتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے فقر کر دور فرما دیتے ہیں۔ سورہ نور کی آیت نمبر 32میں ارشاد ہوا: ''اور نکاح کرو بے نکاح (مردوں اور عورتوں کا) اپنے میں سے اور (ان کا جو) نیک ہیں تمہارے غلاموں میں سے اور تمہاری لونڈیوں (میں سے) اگر وہ ہوں محتاج (تو) غنی کر دے گا اللہ انہیں اپنے فضل سے‘‘۔
احادیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ پے درپے حج وعمرہ کرنے سے بھی انسان کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔
اگر مادی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ساتھ مذکورہ بالا اسباب کو اختیار کر لیا جائے تو یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے انسان کے رزق میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں کتاب وسنت میں مذکور تدابیر کو اختیار کرنے کی توفیق دے، آمین !