قرآنِ مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایک ایسی کتاب ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں ہماری کامل رہنمائی کرتی ہے۔ قرآنِ مجید جہاں عقائد، عبادات اور معاملات میں انسانوں کی کامل رہنمائی کرتا ہے‘ وہیں سیاست اور اس سے متعلقہ بہت سے اُمور کے بارے میں بھی بڑی واضح ہدایات جاری کرتا ہے۔ قرآنِ مجید میں مثالی حکمرانوں کے اوصاف اور ذمہ داریوں کا متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے۔ جن پر غوروخوض کرنے کے بعد مختلف باتیں سامنے آتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ میں حضرت طالوت علیہ السلام کی بطور بادشاہ تقرری کا ذکر کیاہے۔ اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیات 46 تا 47 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کیاآپ نے نہیں دیکھا بنی اسرائیل کے گروہ کو موسیٰ علیہ السلام کے بعد کہ جب انہوں نے کہا اپنے نبی سے (کہ) مقرر کر ہمارے لیے ایک بادشاہ (جس کی رہنمائی میں) ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں‘ انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اگر تم پر فرض کر دی جائے جنگ کہ تم جنگ نہ کرو‘ وہ کہنے لگے: اور کیا ہو گا ہمیں کہ ہم جنگ نہ کریں‘اللہ کے راستے میں؛ حالانکہ یقینا ہم نکالے گئے ہوں گے‘ اپنے گھروں سے اور اپنے بال بچوں سے‘ پھر جب فرض کر دی گئی ان پر جنگ (تو اپنے عہدسے)پھر گئے سوائے چند ایک کے ان میں سے اور اللہ خوب جاننے والا ہے ظالموں کو۔ اور کہا ان سے ان کے نبی نے کہ بے شک اللہ نے مقرر کرد یا ہے‘ تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ! کہنے لگے: کیسے ہو سکتی ہے اس کی بادشاہی ہم پر‘ حالانکہ ہم زیادہ حق دار ہیں بادشاہی کے اس سے اور نہیں دی گئی اسے وسعت مال کی۔ انہوں (اللہ کے نبی )نے کہا: بے شک اللہ نے اسے منتخب کیا ہے تم پر اور اسے زیادہ دی ہے کشادگی علم اور جسم میں اور اللہ دیتا ہے اپنی بادشاہت جسے چاہتا ہے اور اللہ وسعت والا‘ بہت علم والا ہے‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومتوں کا بھی ذکر کیا اور حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کو عطا کردہ اوصاف کا بھی ذکر کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ص کی آیت نمبر 20میں ذکر فرماتے ہیں: ''اور ہم نے مضبوط کر دی اس کی بادشاہی اور ہم نے دی اسے حکمت اورفیصلہ کن گفتگوکی (صلاحیت) ‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کی فہم وفراست کو بھی قرآنِ مجید میں بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا۔ سورہ انبیاء کی آیات78 تا 79میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں: '' اور (یاد کیجئے) داؤد اور سلیمان کو‘ جب وہ دونوں فیصلہ کر رہے تھے کھیتی (کے بارے) میں جب رات کو چر گئیں اس میں لوگوں کی بکریاں اور تھے ہم ان کے فیصلے کے وقت موجود۔ تو ہم نے سمجھا دیا وہ (فیصلہ) سلیمان کو اور ہر ایک کو ہم نے عطا کیا حکم اور علم ‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی حکومت کا بھی ذکر کیا اور ان کے اوصافِ حمیدہ کو بھی بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا۔ سیدناحضرت یوسف علیہ السلام کو جب وزیر خزانہ بنایا جانے والا تھا تو آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کیا کام کریں گے؟ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے جواب میںجو کہا‘ اس کا ذکر سورہ یوسف کی آیت نمبر 55میں یوں کیا گیا ہے: '' بنا دیں مجھے زمین کے خزانوں (پیداوار) پر (نگران)‘ بے شک میں پوری طرح حفاظت کرنے والا(اور) خوب علم والا ہوں ‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ص میں بیان فرمایا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ص کی آیت نمبر 26 میںارشاد فرماتے ہیں: ''اے داؤد! بے شک ہم نے بنایا ہے تجھے زمین میں خلیفہ تو تُو فیصلہ کر لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ اور نہ پیروی کر خواہشِ (نفس) کی۔ ورنہ وہ (شیطان) گمراہ کر دے گا تجھے اللہ کی راہ سے‘ بے شک (وہ لوگ) جو گمراہ ہوتے ہیں اللہ کی راہ سے ان کے لیے سخت عذاب ہے اس وجہ سے (کہ) انہوں نے بھلا دیا یومِ حساب کو ‘‘۔ مذکورہ بالا آیات پر غوروفکر کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حکمران میں مندرجہ ذیل اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے:
1: حکمران کو صاحب علم ہونا چاہیے۔ 2: حکمران کو صاحبِ طاقت ہونا چاہیے۔ 3: حکمران کو صاحبِ حکمت ہونا چاہیے۔ 4: حکمران صاحبِ فراست ہونا چاہیے۔ 5: حکمران کو اموال کی حفاظت کرنے والا ہونا چاہیے۔ 6: حکمران کوعادل ہونا چاہیے۔7: حکمران کو خواہشِ نفس سے محفوظ ہونا چاہیے۔
جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حکمرانوں کے اوصاف کا ذکر کیا ہے‘ وہیں مالکِ کائنات نے حکمرانوں کی ذـمہ داریوں کو بھی نہایت احسن انداز میں بیان کیا ہے۔ ان ذمہ داریوں پر غورکرنے کے بعد مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں:اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد کے ایک مندر کا ذکر کیا‘ تاخیر سے پہنچنے والے ہدہد نے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ سبا کے لوگ سورج کو سجدہ کرتے ہیں جبکہ ا نہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کو سجدہ کرنا چاہیے۔ اس بات کو سننے کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام بے تاب ہو گئے اور آپ نے فوراً سے پہلے ملکہ سبا کو تخت سمیت حاضر کرنے کا حکم دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بے تابی اور بے قراری سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے اپنی حکومت کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے قیام کے لیے استعمال کیا؛ چنانچہ حکمران وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ توحید کی نشرواشاعت کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کرے۔
توحید کی نشرواشاعت کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حکمرانوں کی بہت سی دیگر ذمہ داریوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حج کی آیت نمبر 41میں ارشاد فرماتے ہیں: ''وہ لوگ کہ اگر ہم اقتدار دیں انہیں زمین میں (تو)وہ نماز قائم کریں اور ادا کریں زکوٰۃ اور حکم دیں نیکی کا اور روکیں برائی سے ‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے حکمرانوں کی چار ذمہ داریاں واضح ہوتی ہیں (1)نمازکا قیام (2)زکوٰۃ کی وصولی (3)نیکی کا حکم (4)منکرات کی روک تھام۔
حاکمِ وقت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اموال کی احسن طریقے سے حفاظت کرے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالے سے اس بات کا ذکر کیا کہ آپ علیہ السلام نے غلے کی تدوین وتنظیم کا کام نہایت احسن طریقے سے انجام دیا اور غلے کی پیداوار کے سات سالوںمیں اس کو محفوظ کیااور اس دوران حسب ضرورت غلہ استعمال کیا اور قحط سالی کے سالوں میں اسی بچے ہوئے غلے کو احسن طریقے سے نہ صرف یہ کہ مصر کی ضروریات کے لیے استعمال کیا بلکہ دنیا بھر میں قحط سالی کی دوری کے لیے بھی یہ غلہ فراہم کیا۔ حکمرانوں کی ذمہ داریوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انہیں فتنے کے قلع قمع کے لیے اپنی صلاحیتوں اور طاقت کو استعمال کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ذوالقرنین کی حکومت اور مختلف سفروں کا ذکر کیا۔ جن میں سے ایک سفر آپ نے ایک ایسی بستی کی طرف کیا جن کو یاجوج وماجوج نے فتنے میں مبتلا کر رکھا تھا۔ حضرت ذوالقرنین نے اس فتنے کا قلع قمع کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعے کو سورہ کہف کی آیات 94 سے 97 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''(بستی والوں ) نے کہا: اے ذوالقرنین بے شک یاجوج اور ماجوج فساد کرنے والے ہیں زمین میں‘ تو کیا ہم کر دیں تیرے لیے کچھ مال (کا انتظام اس شرط پر) کہ تو بناد ے ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار۔ اس (ذوالقرنین) نے کہا: جو قدرت دی ہے مجھے اس (مال کے سلسلے) میں میرے رب نے وہ بہت بہتر ہے‘ پس تم مدد کرو میری قوت کے ساتھ، میں بنا دوں گا تمہارے اور ان کے درمیان ایک بند۔ تم لا دو مجھے لوہے کے (بڑے بڑے) تختے یہاں تک کہ جب اس نے برابر کر دیا (اس خلا کوجو) دو پہاڑوں کے درمیان (تھا) تو اس نے کہا: پھونکو (دھونکو) یہاں تک کہ جب اس نے بنا دیا اسے آگ (تو) کہا: لاؤ میرے پاس میں ڈال دوں اس پر پگھلا ہوا تانبا۔ پھر نہ (تو) انہوں نے استطاعت رکھی کہ وہ چڑھ سکیں اس پر اور نہ انہوں نے استطاعت رکھی اس کو نقب لگانے کی ‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں مختلف حدود کے قیام کا ذکر کیا جن کا مقصد زمین سے جرائم کا خاتمہ کرنا ہے۔ ڈکیتی، چوری، زنا، قذف اور شراب کی حد کے ساتھ ساتھ قانونِ قصاص کے قیام سے یقینا جرائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ یہ تمام کے تمام کام حضرت رسول اللہﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں انجام دیے اور اس کے بعد خلفائے راشدینؓ بھی یہ کام سر انجام دیتے رہے۔ ان کاموں کے کرنے کے نتیجے میں معاشرہ امن وسکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
قرآنِ کریم کا مطالعہ یہ بات بھی سمجھاتا ہے کہ حکمرانوں کو اپنی افواج کو اچھے طریقے سے منظم کرنا چاہیے اور اعدائے دین کی بیخ کنی کے لیے ان کو استعمال کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت طالوت علیہ السلام کے واقعہ کا ذکر کیا کہ کس طر ح آپ نے جالوت کے لشکر کے خلاف اقدام کیا اور اس کے فتنے کا قلع قمع کرکے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے اس کوشکست دے دی۔ حکمرانانِ وقت پر ان تمام کی تمام ذمہ داریوں کا ادا کرنا لازم ہے۔ اگر حکمران اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی نشرواشاعت، نماز کے قیام، زکوٰۃ کی تنظیم سازی اور منظم بیت المال کے قیام کے ساتھ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیںاور قومی خزانے کی بھرپور طریقے سے حفاظت کریں‘ فتنے کا قلع قمع کے ساتھ ساتھ اعدائے دین کی مخالفت کیلئے ہمہ وقت کمر بستہ رہیں تو ریاست ایک مثالی ریاست کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اس ریاست کی تعمیر وترقی کے راستے میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے عوام کو اس بات کا شعور دے کہ وہ درست حکمرانوں کا چناؤ کریں اور حکمرانوں کو اس بات کی توفیق دے کہ وہ حکمرانی کے اہداف اور مقاصد کو صحیح طریقے سے پورا کرنے کیلئے کمر بستہ رہیں، آمین!