اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر انسان کی فطرت میں ظلم سے نفرت طبعی طور پر ودیعت کی ہے اور کوئی بھی انسان فطری طور پر ظالم شخص کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن اس کے باوجود ہم عام طور پر اس بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ بہت سے لوگ ظالم کے ظلم پر خاموش رہتے ہیں اور ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لیے اُس انداز سے اپنا کردار ادا نہیں کرتے جس انداز سے اُنہیں کردار ادا کرنا چاہیے۔ انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم ظلم سے نہ صرف یہ کہ نفرت کریں بلکہ حتی المقدور ـمظلوم کی مدد کرنے کے لیے بھی اپنی توانائیوں اور وسائل کو صرف کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ایسی بات کو پسند نہیں کرتے جس میں اخلاق سے گری ہوئی بات کہی جائے؛ تاہم اگر کسی مظلوم شخص کے لبوں سے ایسے الفاظ نکلتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر مواخذہ نہیں فرماتے۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر 148 میں ارشاد ہوا: ''اللہ نہیں پسند کرتا علانیہ بُری بات کہنا مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو‘‘۔ مظلوم انسانوں کی پکار پر لبیک کہنا ہر صاحبِ دل شخص کی اخلاقی ذمہ داری ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید اور نصرت ایسے شخص کے ساتھ ہوتی ہے جو مظلوموں کے کام آتا ہے۔
جب نبی کریمﷺ پر پہلی وحی کا نزول ہوا اور آپﷺ اس انہونے واقعے کی وجہ سے بے قراری میں مبتلا ہو گئے، اس موقع پر سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے نبی کریمﷺ کو مخاطب ہو کر فرمایا تھا: ''خدا کی قسم! آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاقِ فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کابوجھ اپنے سروں پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بے مثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امرِ حق کا ساتھ دیتے ہیں‘‘۔
جب ہم قرآنِ مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ظالموں کو ناپسند کرتے ہیں۔ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 57 میں ارشاد ہوا: ''اور اللہ تعالیٰ نہیں پسند کرتا ظالموں کو‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام اللہ میں یہ بات بھی ارشاد فرمائی ہے کہ اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 86میں ارشاد ہوا: ''اور اللہ نہیں راہِ راست پر لاتا ناانصاف قوم کو‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نہ تو ظالموں کو پسند کرتے اور نہ ہی اُنہیں ہدایت دیتے ہیں؛ چنانچہ ظلم کے راستے سے بچنا ہرشخص کے لیے ضروری ہے، اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ظلم کی مخالفت کے ساتھ ساتھ انسانوں کو عدل اور احسان کا بھی حکم دیتے ہیں۔ سورۃ النحل کی آیت نمبر 90میں ارشاد ہوا: ''بے شک اللہ حکم دیتا ہے عدل اور احسان کا‘‘۔ اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتے اور احسان کو پسند کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ احادیثِ طیبہ سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ہمیں مظلوموں کی مکمل تائید اور حمایت کرنی چاہیے اس لیے کہ مظلوم کی تائید کرنا اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔صحیح بخاری میں حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ ہمیں نبی کریمﷺ نے سات کاموں کا حکم دیا اور سات کاموں سے روکا۔ ہمیں آپﷺ نے حکم دیا تھا: جنازہ کے ساتھ چلنے، مریض کی مزاج پرسی کرنے، دعوت قبول کرنے، مظلوم کی مدد کرنے کا، قسم پوری کرنے کا، سلام کا جواب دینے کا، چھینک پر ''یرحمک اللہ‘‘کہنے کا۔ اور آپﷺ نے ہمیں منع کیا تھا: چاندی کے برتن (استعمال میں لانے) سے، سونے کی انگوٹھی پہننے سے، ریشم اور دیباج (کے کپڑوں کے پہننے) سے، ریشمی گدے، قسی (ریشم کی ایک قسم) سے، استبرق (موٹے ریشم) سے۔
2۔ صحیح بخاری میں حضرت عبدا للہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت معاذؓ کو جب یمن بھیجا تو ان سے فرمایا کہ تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہلِ کتاب ہیں، اس لیے جب تم وہاں پہنچو تو پہلے انہیں دعوت دو کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ وہ اس بات میں جب تمہاری بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ دینا ضروری قرار دیا ہے‘ یہ ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں پر خرچ کی جائے گی۔ پھر جب وہ اس میں بھی تمہاری بات مان لیں تو ان کے اچھے مال (ناجائز طور پر) لینے سے بچو اور مظلوم کی آہ سے ڈرو کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔
3۔ صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ! ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو (یہی اس کی مدد ہے)۔
نبی کریمﷺ کی نصیحتوں پر خلفائے راشدین بھی بڑی سختی کے ساتھ کاربند رہے اور اپنے نمائندگان کو ہمیشہ ظلم سے بچنے کی تلقین کرتے رہے۔ حضرت عمرفاروقؓ کے طرزِ عمل کے حوالے سے صحیح بخاری کی ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
حضرت عمر بن خطابؓ نے ہنی نامی اپنے ایک غلام کو (سرکاری) چراگاہ کا حاکم بنایا‘ تو اسے یہ ہدایت کی: اے ہنی! مسلمانوں سے اپنے ہاتھ روکے رکھنا (ان پر ظلم نہ کرنا) اور مظلوم کی بددعا سے ہر وقت بچتے رہنا کیونکہ مظلوم کی دعا قبول ہوتی ہے۔ اور ہاں ابن عوفؓ اور ابن عفانؓ اور ان جیسے (امیر صحابہ) کے مویشیوں کے بارے میں تجھے ڈرتے رہنا چاہئے۔ (یعنی ان کے امیر ہونے کی وجہ سے دوسرے غریبوں کے مویشیوں پر چراگاہ میں انہیں مقدم نہ رکھنا) کیونکہ اگر ان کے مویشی ہلاک بھی ہو جائیں گے تو یہ رؤسا اپنے کھجور کے باغات اور کھیتوں سے اپنا معاش حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن گنے چنے اونٹوں اور گنی چنی بکریوں کا (غریب) مالک کہ اگر اس کے مویشی ہلاک ہو گئے‘ تو وہ اپنے بچوں کو لے کر میرے پاس آئے گا‘ اور فریاد کرے گا: یا امیرالمومنین! یا امیرالمومنین! تو کیا میں انہیں چھوڑ دوں گا (یعنی ان کو پالنا)۔ اس لیے (پہلے ہی سے) ان کے لیے چارے اور پانی کا انتظام کر دینا میرے لیے اس سے زیادہ آسان ہے کہ میں ان کیلئے سونے چاندی کا انتظام کروں اور اللہ کی قسم! وہ (اہلِ مدینہ) یہ سمجھتے ہوں گے کہ میں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے کیونکہ یہ زمینیں انہی کی ہیں۔ انہوں نے جاہلیت کے زمانہ میں اس کے لیے لڑائیاں لڑی ہیں اور اسلام لانے کے بعد بھی ان کی ملکیت کو بحال رکھا گیا ہے۔ اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے اگر وہ اموال (گھوڑے وغیرہ) نہ ہوتے جن پر جہاد میں لوگوں کو سوار کرتا ہوں تو ان کے علاقوں میں ایک بالشت زمین کو بھی میں چراگاہ نہ بناتا۔
اس وقت جب ہم اپنے گردوپیش میں نظر دوڑاتے ہیں تو ہر جگہ ظلم کا دوردورہ نظر آتا ہے۔ لوگ ہمہ وقت دوسروں کا استحصال کرنے پر آمادہ وتیار رہتے ہیں۔ تقسیمِ وراثت کے عمل سے لے کر کاروباری لین دین اور تنازعات تک‘ ظلم ہر جگہ عام نظر آتا ہے۔ اسی طرح معاشرے میں کسی کی زمین اور املاک پر قبضہ کرنے کے واقعات بھی بکثرت سننے کو ملتے ہیں۔ ان تمام معاملات کے حوالے سے اہلِ اسلام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کی نصیحتوں پر عمل کرتے ہوئے مظلوموں کی مدد کریں اور کسی پر بھی ظلم کرنے سے گریز کریں۔ مظلوم کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب کے ساتھ ہو اس کی حمایت کرنا اہلِ اسلام کی ذمہ داری ہے لیکن اگر مظلوم انسان اہلِ ایمان بھی ہوں تو اہلِ اسلام پر ان کی مدد کرنے کی دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
بخاری و مسلم میں حضرت نعمان بن بشیرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''مومنوں کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت و مودت اور باہمی ہمدردی کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے بایں طور کہ نیند اڑ جاتی ہے اور پورا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘۔
چنانچہ ہمیں مظلوم انسانیت کے ساتھ ساتھ خصوصی طور پر اپنے مظلوم مسلم بھائیوں کی اعانت کے لیے ہمہ وقت آمادہ وتیار رہنا چاہیے اور فقط اپنے ہی سماج میں رہنے والے مسلمانوں کے دکھ سکھ کو نہیں بانٹنا چاہیے۔ آج مسلم اُمت کے بہت سے سلگتے ہوئے مسائل کے حل نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اُمت کا درد اُس انداز میں محسوس نہیں کرتے جس انداز میں کرنا چاہیے۔ ہمیں ہمہ وقت یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے جو کانٹا کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے
آج کل خصوصیت سے مسئلہ فلسطین دنیا بھر کی توجہات کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اہلِ فلسطین کئی عشروں سے اسرائیلی ظلم کو سہہ رہے ہیں اُن کی اخلاقی، سفارتی اور مالی مدد کرنا اہلِ اسلام کی ذمہ داری ہے۔ مسلم حکمران اور اُمت مسلمہ کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے اور اپنے مسلمان بھائیوں کی معاونت کے لیے تمام تر وسائل اور توانائیوں کو استعمال کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہم سب کو مظلوموں کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!