وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ وقت کو درست طریقے سے استعمال کرنے والے لوگ دنیا و آخرت کی بھلائیوں کو سمیٹ لیتے ہیں جبکہ وقت کو ضائع کرنے والے لوگ دنیا و آخرت میں ناکام و نامراد ہو جاتے ہیں۔ جن لوگوں نے اپنے وقت کو درست طریقے سے استعمال کیا‘ وہ تاریخ کا حصہ بن گئے اور جن لوگوں نے اپنے وقت کو برباد کر دیا‘ ان کا نام و نشان ہمیشہ کے لیے تاریخ کی دبیز تہوں میں دب کر رہ گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ہر انسان کے لیے وقت کی ایک مخصوص مقدار مقرر کی گئی ہے جس کے بعد انسان کو پلٹ کر اپنے پروردگار کی طرف جانا ہے۔ جو لوگ وقت کی اہمیت کو سمجھ جاتے ہیں‘ وہ اس کا درست استعمال کرکے دنیا میں اپنے معاملات کو سلجھانے کے ساتھ ساتھ پروردگارِ عالم کی قربت کو حاصل کرنے کے لیے بھی تیاری کرتے رہتے ہیں۔ اس کے مدمقابل بہت سے لوگ وقت کو فقط اپنے مفادات اور اپنی ذات کی سربلندی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ نہ تو انسانوں کے حقوق کے بارے میں فکرمند ہوتے ہیں اور نہ ہی اللہ تبارک وتعالیٰ کے حقوق کو ادا کرتے ہیں۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ایسی بہت سی عظیم ہستیاں ملتی ہیں جنہوں نے تقویٰ، للہیت، دعوت و تبلیغ اور اصلاح کے فریضے کو انجام دے کر اپنے آپ کو سربلند کیا اور لوگ ہمیشہ ادب و احترام سے ان کا نام لیتے رہے۔ اس کے مدمقابل ایسے لوگ بھی دنیا میں گزرے جنہوں نے ظلم، بربریت، استحصال اور استیصال کے راستے کو اختیار کیا اور تاریخ کے اوراق میں نشانِ عبرت بن گئے۔ انبیاء کرام علیہم السلام اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے سب سے منتخب، برگزیدہ اور چنیدہ ہستیاں تھیں جنہوں نے وقت کے ہر ہر لمحے کو درست طریقے سے استعمال کیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی جدوجہد کو اس انداز سے قبول کیا کہ آنے والی نسلیں بھی ان کی تعظیم اور ادب کی پابند ہو گئیں۔ انبیاء کرام علیہم السلا م کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اپنے وقت کا درست استعمال کیا اور زمین پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے پرچم کو سربلند کرنے کے لیے اپنی جان، مال اور اسباب کی قربانیاں دیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد بھی بہت سے ایسے لوگ گزرے جنہوں نے وقت کی قدر کو پہچانا اور علم و عمل کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا۔ تاریخ میں بہت سے ایسے ائمہ گزر ے جنہوں نے سینکڑوں کتابیں تحریر کرکے علمِ دین کی خدمت کو انجام دیا اور آنے والی نسلوں کو یہ بات سمجھائی کہ وقت کو کس انداز سے استعمال کرنا چاہیے۔
آج کا نوجوان وقت کو ضائع کرتا نظر آتا ہے اور اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کو غلط طور استعمال کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر معاشرہ اخلاقی اعتبار سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ وقت کی قدر و قیمت کو سمجھنا اور اس کے درست استعمال کے لیے خد و خال مرتب کرنا فی زمانہ انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔ ہمیں اپنے وقت کو درست انداز میں کس طرح استعمال کرنا چاہیے‘ اس حوالے سے چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
(1) اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت: انسان کو درحقیقت اس دنیا میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت اور اس کی معرفت کے حصول کے لیے بھیجا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الذاریات کی آیت نمبر 56 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور میں نے نہیں بنایا انسانوں اور جنات کو مگر اپنی عبادت کے لیے‘‘۔ انسان کی توجہات اورصلاحیتوں کا اصل ہدف اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی ہونا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کو بجا لانے کے لیے نبی کریمﷺ نے بہترین انداز میں انسانوں کی راہ نمائی فرمائی اور عبادات کے اُن طریقوں سے آگاہ کیا جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ ''نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ‘‘ یہ تمام کے تمام فرائض انسانوں پر وقت کی مقدار کے اعتبار سے عائد کیے گئے۔ انسان کو ہر روز نمازِ پنجگانہ ادا کرنا چاہئیں، سال میں ایک ماہ کے روزے رکھنے چاہئیں اور سال میں ایک مرتبہ اپنے مال کے حساب سے زکوٰۃ کو ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ کی توفیق سے زندگی میں ایک مرتبہ حج بھی ادا کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سی نفلی عبادات کی طرف بھی انسانوں کی راہ نمائی کی گئی۔ تلاوتِ قرآن مجید، ذِکر الٰہی، دعا، مناجات، توبہ و استغفار اور صدقہ و خیرات کے ذریعے انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی قربت کے مدارج کو طے کر سکتا ہے۔
(2) اتباعِ رسولﷺ: انسان کو جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور عبادات کو احسن طریقے سے بجا لانا چاہیے وہیںنبی کریمﷺ کی اتباع سے اپنے معاملات اور اخلاقیات کو سنوارنا چاہیے۔ نبی کریمﷺ نے انسانوں کو زندگی گزارنے کے خوبصورت طریقے بتلائے۔ اگر انسان اُن طریقوں پر عمل کرے تو وہ ایک اعلیٰ اور معیاری زندگی گزارنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو احسن طریقے سے ادا کرنا ہر انسان کی ذمہ داری ہے۔ جو لوگ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں توازن کو برقرار رکھتے اور دین و دنیا کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ یقینا وہ خوش نصیب لوگ ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیب علیہ الصلوٰۃ و السلام نے انسانوں کوسچائی، امانت، دیانت، حیاداری اور وعدوں کو نبھانے کی تلقین کی اور اُن کو اعلیٰ اخلاقی اقدار سے روشناس کرایا۔ آپﷺ کی آمد سے قبل لوگ انانیت، خودپسندی، گھمنڈ، حسد اور دیگر اخلاقی برائیوں کا شکار تھے۔ نبی کریمﷺ نے اُن کو ایثار، قربانی اور خیر خواہی کا درس دے کر بنی نوع انسان کے لیے مفید بنانے کے تمام راستے واضح فرما دیے۔ اتباع رسولﷺ کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کے گناہوں کو معاف کرتے اور اُن کو اپنا محبوب بنا لیتے ہیں۔ چنانچہ سورۂ آلِ عمران کی آیت 31 میںارشاد ہوا ''کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بے حد بخشنے والا‘ نہایت مہربان ہے‘‘۔
(3) حصولِ علم پر توجہ: اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر اس بات کو واضح کیا کہ علم اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی عطا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں سیدنا داؤد علیہ السلام اور سیدنا سلیمان علیہ السلام کو حکومت بخشنے کا ذکر کیا وہیں خصوصیت سے سورۃ النمل کی آیت 15 میں اس بات کا علیحدہ سے ذکر کیا کہ ''اور بلاشبہ ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا فرما یا تھا‘‘۔ اسی طر ح اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الزمر کی آیت 9 میں ارشاد فرماتے ہیں ''کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے؟‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ صاحبِ علم لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بے علم لوگوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ فاطر کی آیت 28 میں ارشاد فرمایا ''بیشک اللہ سے ڈرنے والے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے عالم بندے ہیں‘‘۔ علم کی وجہ سے انسان اندھیرے اور اجالے، ہدایت اور گمراہی، شرک اور توحید، صحیح اور غلط کے مابین تفریق کرنے کے قابل ہو جاتا ہے؛ چنانچہ انسان کو اپنے وقت میں سے ایک بڑا حصہ نفع بخش علم کے حصول کے لیے صرف کرنا چاہیے تاکہ صحیح طور پر اپنے مقصدِ حیات کو پہچان سکے اور تزکیۂ نفس اور قربتِ الٰہی کے مدارج کو طے کر سکے۔
(4) مفید معاشی سرگرمیاں: انسانوں کو اپنی معیشت بہتر بنانے اور حلال رزق کمانے کے لیے اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کو بھرپور انداز سے صرف کرنا چاہیے۔ کسبِ حلال کے لیے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے انسان بیچارگی، بے کسی اور مفلسی سے محفوظ ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں اپنی ذاتی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اہلِ خانہ کی ضروریات پوری کرنے کے بھی قابل ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مال کی فراوانی اور وسعت کی وجہ سے انسان غریب اور مفلوک الحال طبقے کے کام آنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ انسان کو اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے استعمال میں لانا چاہیے۔
(5) انسانیت کی خدمت: انسان کو اپنے اوقات میں سے ایک حصہ انسانیت کی خدمت کے لیے بھی وقف کرنا چاہیے۔ قرآنِ مجید میں جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی عبادت اور اعزہ و اقارب کے حقوق کا ذکر کیا وہیں مختلف مقامات پر مساکین، غربا، مفلوک الحال طبقات اور یتیموں کی مدد کا بھی ذکر کیا۔ ہمیں اس بات پر نہایت توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ معاشرے میں جتنے بھی مفلوک الحال لوگ موجود ہیں‘ ان کی بحالی کے لیے فقط حکومتی وسائل اور حکمت عملی کافی نہیں ہے‘ اس لیے کہ ہمارے ملک میں سوشل ویلفیئر کا کوئی نظام موجود نہیں؛ چنانچہ صاحبِ حیثیت، بااثر طبقات اور معاشرے میں متوسط زندگی گزارنے والے طبقات پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے گرد و نواح پہ نظر ڈالیں اورجو لوگ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں‘ ان کی بھرپور معاونت کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یتامیٰ، مساکین اور غربا کا جگہ جگہ ذکر فرمایا۔ سورۃ المعارج کی آیات 24 تا 25 میں ارشاد ہوا ''اور وہ جن کے مالوں میں ایک مقرر حصہ ہے۔ سوال کرنے والے کے لیے اور (اس کے لیے) جسے نہیں دیا جاتا‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت 276 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتاہے اور اللہ کسی ایسے شخص سے محبت نہیں رکھتا جو سخت ناشکرا‘ سخت گناہگار ہو‘‘۔ سورۂ بنی اسرائیل کی آیات 26 تا 27 میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ رشتہ داروں، مساکین اور مسافروں کے حقوق کا ذکرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ''اور رشتے داروں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو اور اسراف اور بے جا خرچ سے بچو۔ بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے‘‘۔ چنانچہ اگر ہم اپنے صدقات کو غربا، یتامیٰ اور مساکین کی بحالی کے لیے استعمال کریں گے تو اس سے جہاں مخلوق کی خدمت ہو گی وہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی رِضا بھی حاصل ہو گی۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اپنے اوقات کو درست طریقے سے استعمال کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم دنیا و آخرت کی بھلائیوں کو سمیٹ سکیں، آمین!