"AIZ" (space) message & send to 7575

عورت مارچ اور خواتین کے حقوق

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کو دو صنفوں میں تقسیم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کی صلاحیتوں اور دلچسپیوں میں فرق رکھا ہے۔ مرد جسمانی اور اعصابی اعتبار سے مضبوط ہوتے ہیں چنانچہ محنت مزدوری کرنے‘ زمانے کے سرد و گرم کو برداشت کرنے اور معیشت کے معاملات کو چلانے کی صلاحیتیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے بحیثیت مجموعی مردوں میں زیادہ رکھی ہوتی ہیں۔ اس کے مد مقابل اللہ تعالی نے عورت میں شفقت‘ دل جوئی اور ہمدردی جیسی صلاحیتوں کو مردوں کے مقابلے زیادہ رکھا ہے۔ ان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عورت گھریلو سطح پر جہاں پر اپنی ذمہ داریوں کو بہترین طریقے سے ادا کرتی ہے‘ وہیں پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس میں نسلِ نو کی تربیت کرنے کی غیرمعمولی صلاحیتوں کو بھی ودیعت کیا ہوتا ہے۔ تاریخِ انسانیت اس بات پر شاہد ہے کہ مرد جہاں پر سماجی‘ معاشی اور سیاسی اعتبار سے اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں‘ وہیں پر عورتوں نے بھی مختلف محاذوں پر نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں جہاں پر انبیاء علیہم السلام کی شخصیات کا ذکر کیا کہ جنہوں نے مثالی انداز میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے دین کی دعوت کو آگے بڑھایا وہیں پر کئی ایسی خواتین کا بھی ذکر کیا جنہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے دین کی خدمت کیلئے نمایاں کردار ادا کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں موسیٰ ؑ کی والدہ کا ذکر کیا جن کے طرف خود اللہ تبارک و تعالیٰ کا پیغام آیا۔ اللہ تبارک و تعالی نے ان سے موسیٰ ؑ اور ہارونؑ جیسی جلیل القدر شخصیات کی کفالت کا کام لیا۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرعون کی اہلیہ کا بھی ذکر کیا جنہوں نے پوری خندہ پیشانی سے دین پر استقامت کے راستے کو اختیار کیا اور فرعون کی ابتلاؤں کی پروا نہ کرتے ہوئے صراطِ مستقیم پر ڈٹی رہیں۔ حضرت آسیہ کا مثالی کردار استقامت کے حوالے سے ایک روشن باب ہے کہ آپ نے ہر طرح کی مادی نعمتوں کو ٹھکرا کر اللہ تبارک و تعالیٰ کی قربت کا راستہ اختیار کیا اور رب تعالیٰ کے راستے میں اذیتوں کو جھیلتے جھیلتے منصبِ شہادت پر فائز ہو گئیں۔ حضرت آسیہ کا لازوال کردار اس اعتبار سے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے کہ انہوں نے آخری وقت بھی جو دعا مانگی وہ بڑی ہی باکمال دعا تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ تحریم کی آیت نمبر 11میں حضرت آسیہ کی دعا کا ذکر کیا کہ ''جب اس نے کہا تھا کہ اے میرے رب! بنا دے تو میرے لیے اپنے پاس گھر جنت میں اور نجات دے تو مجھے فرعون سے اور اس کے (برے) عملوں سے اور نجات دے تو مجھے اس ظالم قوم سے‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں سیدہ مریم کا ذکر کیا جو اپنی نیکی‘ تقویٰ اور للہیت کی وجہ سے اس بلند مقام پہ فائز ہوئیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے پاس بے موسم کے پھل بھیجنے لگے اور پھر ان پر وہ وقت بھی آیا جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کے بطن سے روح اللہ حضرت عیسیٰ ؑ کو پیدا فرمایا۔ سیدہ مریم کی پاک دامنی‘ طہارت‘ للہیت اور تزکیہ رہتی دنیا تک کے لوگوں کیلئے ایک مثال کی حیثیت اختیار کر گئی کہ کمالات کو حاصل کرنے کیلئے مرد ہونا ضروری نہیں بلکہ کوئی عورت بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات سے وابستگی کو اختیار کر کے روحانی عروج کے بہت سے مدارج کو طے کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ احزاب کی آیت نمبر35میں جہاں پر اعلیٰ صفات والے مردوں کا ذکر کیا وہیں پر اعلیٰ صفات والی عورتوں کا بھی کچھ یوں ذکر کیا۔ ''بالیقین مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں‘ مومن مرد اور مومن عورتیں‘ فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور اللہ کے آگے جھکنے والے مرد اور اللہ کے آگے جھکنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور یاد کرنے والے مرد اللہ کو بہت زیادہ اور یاد کرنے والی عورتیں‘ مہیا کر رکھی ہے اللہ نے ان سب کے لیے مغفرت اور اجر عظیم‘‘۔
نبی کریمﷺ جب مبعوث ہوئے تو اس وقت عورت کی ناقدری اپنے عروج پر تھی۔ عورت کو زمین میں زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ بیوی کو لونڈی سمجھا جاتا تھا اور عورت کے حقوق کو غصب کیا جاتا تھا۔ نبی مہرباں حضرت محمد کریمﷺ نے عورت کے مقام کا اس انداز میں تعین فرمایا کہ ماضی میں کسی بھی مذہب اور تہذیب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپؐ نے ماں کی حیثیت سے عورت کے حقوق کا تکرار سے ذکر کیا۔ اسی طرح آپؐ نے بیوی‘ بیٹی‘ ماں کا حق وراثت میں بھی مقرر کیا اور معاشی اعتبار سے اس کی تقویت کے راستوں کو ہموار کیا۔ نبی کریمﷺ نے نکاح کے موقع پر بھی عورت کی رائے کو غیرمعمولی اہمیت دی اور کسی بھی صورت میں عورت کی مرضی کے بغیر اس کی شادی کرنے کو درست قرار نہیں دیا۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درجہ ذیل ہے: صحیح بخاری میں روایت ہے کہ خنساء بنت خذام رضی اللہ عنہا کا نکاح ان کے والد نے ان کی ناپسندیدگی کے باوجود کر دیا تھا تو رسول اللہﷺ نے اس نکاح کو رَد کر دیا تھا۔
نبی کریم ﷺ نے عورت کیلئے تعلیم کے دروازوں کو کھول دیا اور اس انداز میں عورتوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا کہ اس امت میں حضرت عائشہؓ علمی اعتبار سے مضبوط ترین ہستی کے طور پہ منظرعام پہ آئیں۔ آپؓ نے نبی کریمﷺ کی احادیثِ مبارکہ کو جس انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کیا وہ رہتی دنیا تک کیلئے ایک مثال ہے۔ نبی کریمﷺ نے عورت کیلئے زندگی کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لینے کی گنجائش پیدا کی تاہم عورت کو اختلاط اور بے پردگی سے بچنے کی تلقین کی گئی اور اس کا مقصد بھی درحقیقت عورت کی آزادی کو سلب کرنا نہیں تھا بلکہ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ عورت کو بے راہ روی اور غلط قسم کی نگاہوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ کے ساتھ نبی کریمﷺ کی محبت تاریخ کا ایک لافانی باب ہے۔ نبی کریمﷺ نے عورت کو جو حقوق عطا کیے یقینا وہ رہتی دنیا تک کیلئے ایک مثال ہیں۔ عصرِ حاضر میں عورت کے جن حقوق کو اجاگر کرنے کی بات کی جاتی ہے ان میں صنفی آزادی سرفہرست ہے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ مرد و زن کی برابری کے نعرے کی آڑ میں نکاح کے مقدس ادارے کو کچلنے اور خاندانی نظام کو گرانے کی بات کی جاتی ہیں۔ اگر عورت ان نعروں کے اثراتِ بد سے صحیح معنوں میں آشنا ہو جائے تو وہ کبھی بھی ان کی طرف متوجہ نہ ہو۔
ہر سال دنیا کے مختلف ممالک کی طرح پاکستان میں بھی عورت مارچ کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس موقع پر جن حقوق کیلئے آواز کو اٹھایا جاتا ہے وہ کسی بھی طور پر قابلِ ذکر نہیں ہیں۔ اس موقع پر بے پردگی‘ اختلاط اور ٹرانس جینڈر ازم کے نعرے لگا کر درحقیقت عورت کی توہین کی جاتی ہے۔ عورت اگر اپنے حقوق کو حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کیلئے بہترین ذریعہ کتاب و سنت سے وابستگی کو اختیار کرنا ہے۔ اگر مسلمان عورت حقیقت میں کتاب و سنت سے وابستگی کو اختیار کر لے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کو تمام جائز حقوق حاصل ہو سکتے ہیں اور وہ نہایت باوقار طریقے سے اپنی زندگی گزار سکتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو ان حقوق پر اکتفا کرنے کی توفیق دے جو کتاب و سنت نے عطا کیے ہیں اور ان تمام غلط‘ مذموم اور مسموم نعروں سے محفوظ رکھے جو عورت کی بے مہابہ آزادی کی آڑ میں اس کو درندوں کیلئے ایک شکار کی حیثیت دینا چاہتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو شرم و حیا‘ عفت و عصمت اور عورت کی عزت اور آبرو والے راستے کیلئے کام کرنے کی توفیق دے۔ آمین

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں