اگرچہ ہمارے معاشرے میں بہت سے افراد دینی ذوق رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر بہت کم ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے واقعتاً اپنی زندگیوں کو اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے وقف کیا ہوا ہے۔ انہی خوش قسمت لوگوں میں حافظ عبدالرحمن مدنی کا گھرانہ بھی شامل ہے۔ حافظ عبدالرحمن مدنی اور ان کی اہلیہ نے اپنی زندگی اللہ کے دین کی سربلندی کیلئے گزاری اور ماڈل ٹائون میں جامعہ رحمانیہ کے نام سے ایک مستند اور منظم ادارے کو قائم کیا‘ جہاں سے سینکڑوں طلبہ دین کی تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ حافظ عبدالرحمن مدنی نے جہاں تدریسی اعتبار سے ایک دینی ادارے کو قائم کیا‘ وہیں 'محدث‘ جیسے تحقیقی رسالے کا بھی اجرا کیا جس میں تسلسل کے ساتھ مفید علمی اور تحقیقی مضامین اور مقالہ جات برسہا برس سے شائع ہو رہے ہیں۔ حافظ عبدالرحمن مدنی نے اپنے اہلِ خانہ پر بھی خصوصی توجہ دی‘ چنانچہ ان کے چاروں فرزند حسین ازہر‘ ڈاکٹر حافظ حسن مدنی‘ ڈاکٹر انس مدنی اور ڈاکٹر حمزہ مدنی دین سے غیر معمولی شغف رکھتے ہیں اور اپنی اپنی صلاحیتوں اور استعداد کے مطابق مختلف دینی اداروں کو چلانے میں مصروف و مشغول ہیں۔
ڈاکٹر حسن مدنی اپنے ادارے کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں بھی تدریسی ذمہ داریاں سرانجام دیتے ہیں۔ آپ گریجوایشن سے پی ایچ ڈی تک کے طالبعلموں کی رہنمائی کے فرائض کو بطریق احسن نبھا رہے ہیں۔ پی ایچ ڈی کے کورس ورک میں مجھے بھی مغربی افکار اور بین الاقوانی قوانین کے حوالے سے انہوں نے نہایت مفید معلومات فراہم کیں۔ ان کا لیکچر پُرمغز اور مفید علمی نکات پر مشتمل ہوتا ہے۔ان سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف مسائل پر تبادلہ خیا ل کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہتا تھا۔ مجھے 2016ء میں ڈاکٹر حسن مدنی کے ساتھ سعودی عرب کا اکٹھے سفر کرنے کا موقع بھی ملا۔ میں نے اس دوران قرآن مجید کے ساتھ ان کی گہری وابستگی کا مشاہدہ کیا۔ فارغ اوقات میں اکثر وبیشتر وہ قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول نظر آتے۔
حسین ازہر بھی انتظامی صلاحیتیوں کے لحاظ سے بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں اور گجومتہ کے قریب‘ مبارک ٹائون میں واقع مرکز شمیم محبوب نامی ادارے کے منتظم ہیں۔ ڈاکٹر انس مدنی میں تقویٰ‘ للہیت اور خوش اخلاقی کی بہت سی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ آپ لاہور کی ایک ممتاز یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اکبر چوک کے قریب ایک دینی ادارے کو بھی بطریق احسن چلا رہے ہیں۔ ڈاکٹر حمزہ مدنی کو اللہ تعالیٰ نے تجوید اور قرأت کی خوبیوں سے نوازا ہے اور بیت العتیق جیسے معیاری تعلیمی ادارے کے منتظم کی حیثیت سے وہ اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ ان بھائیوں سے جب کبھی ملنے کا موقع میسر آتا ہے تو ان کی دینی سرگرمیوں کو دیکھ کر روحانی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ یہ جب بھی کسی علمی اور دینی تقریب کا اہتمام کرتے ہیں تو مجھے بھی اس مجلس میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔ یکم جون کو مرکز شمیم محبوب میں تقریب تقسیم اسناد کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب میں بہت سے باوقار لوگ موجود تھے۔ حاجی اسلام اور حاجی اکرام‘ جو خیر کے کاموں کی بھرپور سرپرستی کرتے ہیں‘ سٹیج پر جلوہ افروز تھے۔ محمد عرفان بھائی‘ جو عرصہ دراز سے دینی سرگرمیوں میں نمایاں نظر آتے ہیں‘ وہ بھی سٹیج پر براجمان تھے۔ اس موقع پر بہت سے قراء نے خوبصورت انداز میں تلاوتِ قرآن مجید کی۔ نمایاں کارگردگی کا مظاہرہ کرنے والے اساتذہ اور طالبعلموں میں اسناد‘ شیلڈز اور تحائف تقسیم کیے گئے۔ اس تقریب کے آخری مقرر کے طور پر مجھے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی دعوت دی گئی۔ اپنے خطاب کو کچھ اضافے اور ترامیم کے ساتھ اپنے قارئین کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔
اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو بہت سے اعجازات سے نوازا لیکن انبیاء کرام کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد ان کے معجزات بھی دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن قرآن مجید ایک ایسا زندہ معجزہ ہے جو چودہ سو برس گزر جانے کے بعد بھی بالکل ترو تازہ نظر آتا ہے۔ اچھی زبان بولنے اور لکھنے والے ادیبوں اور نثرنگاروں کے اسلوب کو ایک معیار کی حیثیت دی جاتی ہے لیکن عربی زبان میں آج بھی قرآن مجید کی لغت ایک معیار کی حیثیت رکھتی ہے۔ کوئی ادیب‘ شاعر یا خطیب چودہ سو برس کے دوران اس کے الفاظ کی مثل پیش نہیں کر سکا۔ اللہ تعالیٰ نے اس چیلنج کو سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 88 میں یوں بیان فرمایا ہے: ''کہ دیجئے اگر کہیں مل کر کوشش کریں تما م جن و انس اس بات کی کہ لے آئیں کوئی چیز مانند اس قرآن کے‘ تو نہ لا سکیں گے وہ اس کی مثل‘ اگرچہ ہو جائیں وہ سب ایک دوسرے کے مددگار‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ پر جب اس کلام کا نزول فرمایا تو اس سے قبل آپﷺ نے کسی استاد یا درسگاہ سے علم حاصل نہیں کیا تھا لیکن زبانِ رسالت مآب پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے کلام کو جاری فرما کر لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو سورۃ العنکبوت کی آیت نمبر 48 میں یوں بیان فرماتے ہیں: ''اور نہیں پڑھتے تھے تم اس سے پہلے کوئی کتاب اور نہ لکھتے تھے تم اسے اپنے ہاتھ سے‘ اگر ایسا ہوتا تو ضرور شک میں پڑ سکتے تھے یہ باطل پرست لوگ‘‘۔
قرآن مجید کی تلاوت سے انسان کی روح کو آسودگی حاصل ہوتی ہے اور اس کے دل پر سکینت اور اطمینان کی ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الرعد کی آیت نمبر 28 میں اس کیفیت کو یوں بیان فرماتے ہیں: ''وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اور اطمینان پاتے ہیں ان کے دل اللہ کے ذکر سے‘ یاد رکھو اللہ ہی کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے دلوں کو‘‘۔ قرآن مجید کی تلاوت باعث اجر وثواب ہے اور اس کے ہر ہر حرف کی تلاوت پر انسان کو دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔ قرآن مجید کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کلام اللہ میں انسانوں کی بیماریوں کے لیے شفا رکھ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس حوالے سے سورہ یونس کی آیت نمبر 57 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے انسانو! بے شک آ گئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے‘ اور وہ شفا ہے ان (بیماریوں) کی جو دلوں میں ہیں۔ اور ہدایت اور رحمت ہے مومنوں کے لیے‘‘۔ اسی طرح سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 82 میں ارشاد ہوا: ''اور نازل کر رہے ہیں ہم قرآن میں وہ کچھ جو شفا ہے اور رحمت ہے مومنوں کے لیے‘ اور نہیں اضافہ کرتا یہ ظالموں کے لیے سوائے خسارے کے‘‘۔
تلاوتِ قرآن مجید سے جہاں شفا ملتی ہے وہیں سماجی‘ معاشی اور سیاسی معاملات کی اصلاح کے لیے بھی قرآن مجید میں بیان کردہ اصول وقوانین کے نفاظ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے معاشی معاملات کی اصلاح کے حوالے سے احکاماتِ الٰہی کے نفاذ کی اہمیت کو سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 66 میں یوں بیان فرمایا ہے: ''اور اگر انہوں نے قائم کیا ہوتا تورات اور انجیل کو اور ان تعلیمات کو‘ جو نازل کی گئی ہیں ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے‘ تو رزق ملتا ہے ان کو ان کے اوپر سے بھی اور ان کے پائوں کے نیچے سے بھی‘ ان میں ایک گروہ راست رو ہے۔ اور بہت سے ان میں ایسے ہیں کہ بہت برا ہے وہ عمل جو وہ کرتے ہیں‘‘۔ قرآن مجید کی تنفیذ نہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے فاسق اور ظالم قرار دیا ہے؛ چنانچہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی بساط کے مطابق قرآن مجید سے محبت کرنے‘ اس کی تلاوت کرنے‘ اس پہ تدبر کرنے اور اس کا ابلاغ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے نفاذ و قیام کی کوشش کرنے کی بھی توفیق دے‘ آمین۔
تقریب کے شرکا بڑے انہماک سے تمام مقررین کی گفتگو کو سنتے رہے اور یہ تقریب اپنے جلو میں بہت سی خوشگوار یادوں کو لیے اختتام پذیر ہوئی۔