"AIZ" (space) message & send to 7575

قدرتی آفات اور ہماری ذمہ داریاں

جب سے انسان اس زمین پر آباد ہے‘ انسانی معاشرے گاہے گاہے قدرتی آفات کی لپیٹ میں آتے رہے ہیں۔ پاکستان کو بھی وقفے وقفے سے قدرتی آفات کا سامنا رہا ہے۔ یہاں کبھی سیلاب اور کبھی زلزلے آتے رہے‘ جنہوں نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا اور ہزاروں لوگ ان قدرتی آفات کی وجہ سے اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ حالیہ ایام میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے ہزاروں لوگ متاثر ہوئے ہیں‘ جن میں بڑی تعداد خیبر پختونخوا کے باسیوں کی ہے۔ خیبر پختونخوا کے علاقے بونیر کے لوگ ان سیلابوں سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ قدرتی آفات کے دوران اپنے بھائیوں کی مدد کرنا نہ صرف ہمارا اخلاقی فریضہ ہے بلکہ یہ شرعی اور دینی ذمہ داری بھی ہے۔ اس حوالے سے ہمیں کتاب وسنت سے حاصل ہونے والی رہنمائی کو اپنے لیے مشعل راہ بنانا چاہیے۔ جب ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو بہت سی باتیں سامنے آتی ہیں‘ جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ نیکی کے کاموں میں معاونت: اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ المائدہ کی آیت: 2 میں ارشاد فرمایا ''نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی معاونت کرتے رہو‘‘۔ یقینا اپنے بے گھر اور مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کرنا اور ان کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنا نیکی کے کام میں معاونت ہے۔ نیکی کے کام میں معاونت کرنے کی وجہ سے خیر کا کام پورے سماج میں پھیلتا ہے اور اس کے اثرات معاشرے کے ہر طبقے پر مرتب ہوتے ہیں۔ نتیجتاً معاشرہ مجموعی طور پر خیر کی طرف پیش قدمی کرتا ہے۔
2۔ اخوت کا تقاضا: اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں مومنوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے۔ چنانچہ سورۃ الحجرات کی آیت: 10 میں ارشاد ہوا ''دراصل مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔ اس بھائی چارے کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کی مدد اور معاونت کریں اور مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں مہاجر اور انصار صحابہ کرامؓ کا ذکر کیا‘ انصار صحابہ مہاجرین کے نہ رشتہ دار تھے‘ نہ ہی ان کا قبیلہ اور علاقہ یکساں تھا لیکن اسلامی رشتۂ اخوت کی وجہ سے انصاریوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کا بھرپور انداز سے ساتھ دیا اور اپنے مال اور وسائل کو ان پر ہر طرح سے خرچ کرنے کو آمادہ وتیار ہو گئے۔ دکھوں اور مصیبتوں کے شکار مہاجرین کو انصار کی میزبانی سے یوں محسوس ہوا گویا وہ اپنے گھروں میں واپس آ چکے ہوں۔ رشتۂ اخوت میں پروئے جانے کے بعد مسلمانوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں وہی رویہ اختیار کریں جو ایک بھائی دوسرے کے ساتھ‘ اور ایک انسان اپنے لیے اختیار کرتا ہے۔
3۔ مسلمان جسدِ واحد کی مانند ہیں: احادیث طیبہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے لیے جسدِ واحد کی مانند ہیں۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت نعمانؓ بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا ''تم مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت ومحبت کا معاملہ کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ لطف ونرم خوئی میں ایک جسم جیسا پائو گے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے‘ ایسے کہ نیند اڑ جاتی ہے اور جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘۔ اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر مسلمانوں کا ایک گروہ تکلیف میں ہو تو تمام مسلمانوں کو اس تکلیف کو محسوس کرنا چاہیے اور اس تکلیف کے ازالے تک اپنی توانائیوں اور وسائل کو بھرپور طریقے سے صرف کرنا چاہیے۔ جس طرح بیمار انسان کا پورا جسم بیماری کی تکلیف کو محسوس کرتا ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی ایک دوسرے کی تکلیف کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کرنا چاہیے۔
4۔ اپنے بھائی کی مدد کرنے والے کے ساتھ اللہ کی مدد ہے: اللہ تبارک وتعالیٰ کسی کی نیکیوں کو ضائع نہیں فرماتے۔ کوئی بھی شخص جو اپنے بھائی کی معاونت کرتا ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کی معاونت اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس حوالے سے صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی‘ اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جس شخص نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی کی‘ اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی‘ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے‘‘۔ کئی مرتبہ انسان محسوس کرتا ہے کہ شاید خیر کے اس کام کے دوران وہ اپنے وقت اور وسائل کا نقصان کر رہا ہے‘ یہ درحقیقت شیطانی وسوسہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ خیر کے اس کام میں حصہ لینے کی وجہ سے انسانوں کے بہت سے مسائل کو اپنی تائید اور رحمت سے حل کر دیتے ہیں۔
5۔ دن یکساں نہیں رہتے: کتاب وسنت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ انسانوں کے دن یکساں نہیں رہتے۔ کسی بھی انسان کے دنوں کو پھیرنا یہ خالصتاً اللہ تبارک وتعالیٰ کے قبضۂ اختیار میں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ آلِ عمران کی آیت: 140 میں ارشاد فرماتے ہیں ''ہم ان دنوں کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں‘‘۔ چنانچہ جب بھی کسی پہ مصیبت آتی ہے تو انسان کو اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آج اگرکسی دوسرے پر مصیبت آئی ہے تو کل کو مجھ پر بھی آ سکتی ہے۔ یہ فکر جس شخص کو لاحق ہو جاتی ہے وہ کبھی بھی کسی کو مصیبت زدہ دیکھ کر خاموش نہیں رہتا بلکہ آفات کے دوران مشکل اور مصیبت میں مبتلا افراد کی بھرپور انداز سے معاونت پر آمادہ وتیار ہو جاتا ہے۔
6۔ بھوکے کو کھانا کھلانا: قرآن مجید کے متعدد مقامات پر بھوکے افراد کو کھانا کھلانے کی رغبت دلائی گئی ہے۔ اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک سورۃ کا نزول بھی فرمایا جس میں لوگوں کی معاونت کی رغبت دلائی گئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الماعون میں ارشاد فرماتے ہیں ''کیا تُو نے (اسے بھی) دیکھا جو (روزِ) جزا کو جھٹلاتا ہے؟ یہی وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ اور مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ ان نمازیوں کے لیے افسوس (اور ویل نامی جہنم کی جگہ) ہے۔ جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔ جو ریاکاری کرتے ہیں۔ اور (معمولی) برتنے کی چیز (دینے سے) روکتے ہیں‘‘۔
7۔ دعا کرنا: اپنے مجبور اور آفت زدہ بھائیوں کیلئے دعا کرنا بھی یقینا ان کے لیے خیر کا سبب ہے۔ دعا کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ بہت سے وسائل اور اسباب کو پیدا فرما کر انسان کو تکالیف سے نجات دے دیتے ہیں جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں مذکور ہے کہ تین افراد طوفانی بارش میں ایک غار میں پناہ لینے کے لیے گھسے تو اس غار کے دھانے کو ایک بہت بڑے پتھر نے بند کر دیا‘ جس کو ہٹانے کی کوئی مادی صورت نہ تھی لیکن یہ پتھر ان تین مسافروں کی مخلصانہ دعائوں کی وجہ سے ہٹ گیا؛ چنانچہ ہمیں بھی اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے دعا کرتے رہنا چاہیے۔
مذکورہ بالا نکات اور ان میں بیان کردہ آیات واحادیث سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ہمیں اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی بحالی کیلئے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے اور اس حوالے سے اس بات کو بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ بہت سے لوگ مصیبت کے آغاز میں تو اپنے بھائیوں کی بھرپور انداز سے مدد کرتے ہیں مگر وقت گزر جانے کے ساتھ ساتھ لاپروائی برتنے لگتے ہیں۔ حالانکہ مصیبت زدہ افراد کی معاونت کا عمل تسلسل کے ساتھ لمبی مدت تک جاری رکھنا چاہیے۔ اسی صورت میں انسان اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے احسن طریقے سے کام آ سکتا اور ان کی تکالیف کو دور کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اپنے بھائیوں کی معاونت کی توفیق دے اور مصیبت زدہ افراد کے غم‘ تکالیف اور مشکلات کو جلد دور فرمائے‘ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں