دنیا میں کامیابی کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں مختلف قسم کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ بعض لوگ سرمائے کے حصول کو کامیابی سمجھتے ہیں‘ جبکہ اس کے برعکس بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے نزدیک اقتدار کا حصول کامیابی کی علامت ہے۔ بہت سے لوگ اولاد‘ کنبے اور خاندان کی وسعت کو کامیابی سے تعبیر کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے اس حوالے سے انسانوں کی سوچ وفکر کے زاویے کو درست کیا اور بہت سے ایسے لوگوں کو ناکام قرار دیا جو دنیاوی اعتبار سے تو نمایاں حیثیت کے حامل تھے لیکن وہ دینی اعتبار سے پسماندگی اور کمزوری کا شکار تھے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے نمرود کی ناکامی کو واضح کیا جو ربوبیت کا جھوٹا دعویدار تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی کمزوری اور بے وقعتی کو واضح فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعے کو سورۃ البقرہ کی آیت: 258 میں یوں بیان فرماتے ہیں: ''کیا تُو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے اس کے رب کی بابت جھگڑا کیا اس لیے کہ اللہ نے اسے سلطنت دی تھی‘ جب ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے‘ (تو) اس نے کہا: میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں‘ کہا ابراہیم نے: بیشک اللہ سورج مشرق سے لاتا ہے تُو اسے مغرب سے لے آ‘ تب وہ کافر حیران رہ گیا‘ اور اللہ بے انصافوں کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرعون کی ناکامی اور نامرادی کا بھی ذکر کیا جو اپنے آپ کو رب کہتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو غرقِ آب کرکے لوگوں کو یہ بات سمجھا دی کہ رب فقط اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور زمین پر اقتدار کے حصول کے بعد اپنی منزل کو کھو دینے والے لوگ کبھی بھی کامیاب اور کامران نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں قارون کی ناکامی اور نامرادی کا بھی ذکر کیا جس کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے سرمایہ اور مال و دولت نوازا تھا لیکن وہ سرمائے کی بہتات کی وجہ سے صراطِ مستقیم سے منحرف ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بن گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعے کو سورۃ القصص کی آیات: 76 تا 82 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''بیشک قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا‘ پھر ان پر اکڑنے لگا‘ اور ہم نے اسے اتنے خزانے دیے تھے کہ اس کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو اٹھانا مشکل ہوتیں‘ جب اس سے اس کی قوم نے کہا: اِترا مت‘ بیشک اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر‘ اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول‘ اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے‘ اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو‘ بیشک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (قارون نے) کہا: یہ تو مجھے ایک ہنر سے ملا ہے جو میرے پاس ہے‘ کیا اسے معلوم نہیں کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی امتیں جو اس سے قوت میں بڑھ کر اور جمعیت میں زیادہ تھیں‘ ہلاک کر ڈالی ہیں‘ اور (کیا) گناہگاروں سے ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھا نہیں جائے گا۔ پس اپنی قوم کے سامنے اپنے ٹھاٹ سے نکلا‘ جو لوگ دنیا کی زندگی کے طالب تھے‘ کہنے لگے: اے کاش ہمارے لیے بھی ویسا ہوتا جیسا کہ قارون کو دیا گیا ہے‘ بیشک وہ بڑے نصیب والا ہے۔ اور کہنے لگے وہ لوگ جنہیں دیا گیا ہے علم‘ افسوس ہے تم پر! اللہ کا ثواب کہیں بہتر ہے اس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور نہیں ملتی یہ نعمت مگر صبر کرنے والوں کو۔ پھر ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا‘ پھر اس کی ایسی کوئی جماعت نہ تھی جو اسے اللہ (کے عذاب) سے بچا لیتی اور نہ وہ خود (ہی) بچ سکا۔ اور وہ لوگ جو کل اس کے مرتبے کی تمنا کرتے تھے‘ صبح کو کہنے لگے کہ ہائے شامت! اللہ اپنے بندوں میں سے جس کیلئے چاہتا ہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور (جس کیلئے چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے‘ اگر ہم پر اللہ کا احسان نہ ہوتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا‘ ہائے (افسوس)! کافر نجات نہیں پا سکتے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الکہف میں دو باغبانوں کا ذکر کیا ہے‘ جن میں سے ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے بڑے باغ سے نوازا جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور یومِ حساب کا منکر تھا اس کے مقابل اس کا ہمسایہ باغبان نسبتاً چھوٹے باغ کا مالک ہونے کے باوجود صراطِ مستقیم پر گامزن تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بڑے باغبان کو نشانِ عبرت بناکر اس بات کو ثابت کر دیا کہ زمین اور باغ کی وسعت کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الکہف کی آیات 32 تا 42 میں اس واقعے کو یوں بیان فرماتے ہیں: ''اور انہیں دو شخصوں کی مثال سنا دو‘ ان میں سے ایک کیلئے ہم نے انگور کے دو باغ تیار کیے اور ان کے گرد کھجوروں کے درخت لگائے اور ان دونوں کے درمیان کھیتی (فصل) بھی لگا رکھی تھی۔ دونوں باغ (کثرت سے) پھل لاتے ہیں اور پیداوار میں کچھ کمی نہیں کرتے‘ اور ان دونوں کے درمیان ہم نے ایک نہر بھی جاری کر دی تھی۔ اور اسے پھل مل گیا‘ پھر اس نے اپنے ساتھی سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ میں تجھ سے مال میں بھی زیادہ ہوں اور جماعت کے لحاظ سے بھی زیادہ معزز ہوں۔ اور اپنے باغ میں داخل ہوا ایسے حال میں کہ وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والا تھا‘ کہا: میں نہیں خیال کرتا کہ یہ باغ کبھی برباد ہو گا۔ اور میں قیامت کو (واقع) ہونے والی خیال نہیں کرتا‘ اور البتہ اگر میں اپنے رب کے ہاں لوٹایا بھی گیا تو اس سے بھی بہتر جگہ پائوں گا۔ اسے اس کے ساتھی نے گفتگو کے دوران میں کہا: کیا تُو اس کا منکر ہو گیا ہے جس نے تجھے مٹی سے پھر نطفہ سے بنایا‘ پھر تجھے پورا آدمی بنا دیا۔ لیکن میرا تو اللہ ہی رب ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کروں گا۔ اور جب تُو اپنے باغ میں آیا تھا تو نے کیوں نہ کہا ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ (جو اللہ چاہے وہی ہوتا ہے اور اللہ کی مدد کے سوا کوئی طاقت نہیں) اگر تُو مجھے دیکھتا ہے کہ میں تجھ سے مال اور اولاد میں کم ہوں‘ (تو) پھر امید ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر دے اور اس پر لُو کا ایک جھونکا آسمان سے بھیج دے پھر وہ چٹیل میدان ہو جائے۔ یا اس (نہر) کا پانی خشک ہو جائے پھر تو اسے ہرگز تلاش کر کے نہ لا سکے گا۔ اور اس کا پھل سمیٹ لیا گیا پھر وہ اپنے ہاتھ ہی ملتا رہ گیا اس پر جو اس نے اس باغ میں خرچ کیا تھا اور وہ اپنی چھتریوں پر گرا پڑا تھا اور کہنے لگا: کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا‘‘۔
یہ تمام واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ دنیا کا اثر ورسوخ‘ اقتدار اور مال کی فراوانی کامیابی کی علامت نہیں ہے بلکہ کامیاب وہ شخص ہوگا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری نبی حضرت محمدﷺ کی اطاعت کرنے والا ہوگا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ العصر میں کامیاب لوگوں کے اوصاف بیان کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ''زمانہ کی قسم ہے۔ بے شک انسان گھاٹے میں ہے۔ مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور حق پر قائم رہنے کی اور صبر کرنے کی آپس میں وصیت کرتے رہے‘‘۔
جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے صاحبِ حیثیت اہلِ ایمان کو بھی کامیابی سے ہمکنار کردیا اور ان کے مقابل بہت سے مفلوک الحال لوگ بھی کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کے چہروں اور ان کے اموال کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ انسانوں کے دلوں اور ان کے اعمال کو دیکھتا ہے۔ چنانچہ ہمیں دنیا وآخرت کی سربلندی سے ہمکنار ہونے کیلئے دین اور دنیا میں توازن رکھنا چاہیے۔ دنیا کیلئے کوشش کرنا اس وقت تک کوئی عیب نہیں جب تک انسان اللہ اور یوم حساب کو فراموش نہیں کرتا لیکن جب انسان اللہ اور یوم حساب کو فراموش کرکے اپنی کُل توانائیاں دنیا کے حصول کیلئے صرف کر دیتا ہے تو وہ ناکام ونامراد ہو جاتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین ودنیا میں توازن رکھنے کی توفیق دے‘ آمین!