دیگ میں چاول پک گئے ہیں یا کچے ہیں چیک کرنے کے لئے آدھ کلو چاول دیگ سے نکال کر نہیں کھائے جاتے۔ بس ایک چاول انگوٹھے اور انگشتِ شہادت کے درمیان رکھ کر چیک کر لیا جاتا ہے کہ کچا ہے یا پک گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں سنگدلی‘ درندگی اور شقاوت کے واقعات تو روزانہ کا معمول ہیں مگر حیدرآباد گرلز کالج کے ایک واقعہ نے ہمارے معاشرتی سسٹم اور نظام کی شقاوت کو طشت ازبام کر دیا ہے کہ ایک طالبہ بچی کا باپ کلرک کے پائوں میں سجدے کی حالت میںپڑا ہے۔ مجبور باپ کی مجبوری کلرک سے داخلہ فارم کا حصول ہے۔ یہ نہیں ملتا تو بچی کے حاصل کردہ نمبروں کے کارڈ کا حصول ہے۔ اتنی سی بات پر سینئر کلرک نہ جانے کس بات پر ناراض ہوئے کہ بچی کے باپ کو پائوں پکڑنا پڑ گئے۔ جی ہاں! جہاں تعلیمی ادارے کے ایڈمن کلرک کی فرعونیت کا یہ حال‘ وہاں اقتدار کے ایوانوں میں کیا ہوتا ہو گا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنی مسند میں ایک حدیث لائے ہیں۔ حدیث کی سند کو امام شعیب نے درست قرار دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص اللہ کے رسولؐ سے پوچھنے لگا ''اَیُّ الْاَدْیَانِ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ‘‘ زندگی گزارنے کے نظاموں میں سے کون سا طرزِ زندگی ہے ‘جو اللہ تعالیٰ کو سب سے بڑھ کر محبوب ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا ''اَلْحَنِیْفِیَّۃُ السَّمْحَۃُ‘‘ جو یکسوئی اور سادگی والا ہو‘ وسعت والا‘ درگزر کا حامل نظام ہو۔
ہمارے حضورؐ سراپا اور مجسم رحمت نے واضح فرما دیا کہ ریاست کا نظام ایسا ہونا چاہئے جس میں سادگی کے ساتھ ساتھ درگزر اور نرمی ہو۔ دین کا عالم حضرت محمد کریمؐ کا علمی وارث ہوتا ہے۔ عرب دنیا میں بڑے عالم کو ''سماحۃ الشیخ‘‘ کہا جاتا ہے‘ یعنی مذکورہ عالم پر اللہ کا فضل یہ ہے کہ اس میں تنگی‘ ترشی اور تشدد نہیں ہے‘ بلکہ وسعت اور نرمی ہے۔ حضورؐ نے اس حاکم یا افسر کے لئے اللہ کے ہاں نرم رویّے کی درخواست کی ہے‘ جو اپنے ماتحتوں کے ساتھ نرم رویہ رکھتا ہے اور اس افسر کے لئے سخت رویے کی بددعا کی ہے‘ جو اپنے ماتحتوں کے ساتھ سخت اور درشت رویہ رکھتا ہے۔ (بخاری: 1828) محترم پرویز الٰہی صاحب جو پنجاب اسمبلی کے سپیکر ہیں جب یہ وزیراعلیٰ ہوا کرتے تھے ‘تو انہوں نے لاہور کی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لئے وارڈنز کا سلسلہ اور ایک نظام بنایا تھا۔ یہ وارڈنز صاف ستھری وردیاں پہنتے تھے۔
رشوت کے قریب نہیں جاتے تھے۔ خوش اخلاق تھے۔ ان کے ہاتھوں میں لائوڈ سپیکر ہوا کرتا تھا۔ یہ ہدایات دیتے تھے ‘ یعنی دعوت دیتے تھے‘ تبلیغ کرتے تھے‘ گاڑیاں زیبرا کراسنگ سے پیچھے کھڑی کرو‘ لائن میں رہو‘ پھر لائنیں سیدھی کراتے تھے۔ الغرض! انہوں نے ایک ڈیڑھ ماہ تک تبلیغ کا کام کیا اور پھر تبلیغ کے ساتھ ساتھ چالان کرنے کا کام بھی شروع کیا۔ پرویز الٰہی کی وزارت ختم ہونے کے بعد یہ مبارک کام بھی ختم ہو گیا‘ یعنی حکمرانی کا انداز ماں جیسا ہونا چاہئے کہ غلطیوں پر جھڑکے بھی اور تربیت بھی کرے۔ ہاں! جب جرم ایسا ہو کہ دوسرے کا نقصان ہو جائے‘ تو سزا ایسی ہو کہ سرعام ہو‘ جرم کے مطابق ہو۔ اس سے امن کی نعمت اور معاشرے کو سکون ملتا ہے۔ جب حکومتی سطح پر ایسا رویہ ہو گا تو ہمارے معاشرے کی دیگ کے سارے چاول لذیذ اور تربیتی انداز سے پکے ہوئے ہو جائیں گے۔ تجاوزات کا خاتمہ بھی انتہائی ضروری۔ موٹرسائیکل سوار کے لئے ہیلمٹ بھی لازمی۔ دائیں سمت کا شیشہ ضروری ہے‘ مگر غریب ٹھیلے والوں کو متبادل دینا بھی ریاست ماں کی ذمہ داری ہے۔ موٹرسائیکل سوار غریب ہوتا ہے۔ پہلے دعوت و تربیت ہو‘ پھر جرمانے کا آغاز ہو۔ میرا ایک مشورہ ہے کہ ہمیں اپنے تمام سرکاری محکموں میں اپنے حضور گرامیﷺ کے فرمان کو ماٹو بنانا چاہئے۔ وزارا‘ سیکرٹری صاحبان اور تمام آفیسرز کو ہدایات ہونی چاہئیں کہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے سادگی‘ نرمی اور درگزر کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔ مشکلات سے انہیں نکالیں۔ معاشرہ تشدد سے پاک اور پرسکون ہونا شروع ہو جائے گا۔ (انشاء اللہ)
اللہ کے رسول کس قدر نرم اور مہربان ہوتے ہیں‘ ہمارے آخری رسول حضرت محمد کریمؐ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک شخص نے کوئی شے چرا لی ہے۔ آپؑ نے اسے کہا کہ تو نے فلاں شے چوری کرلی ہے۔ اس نے اللہ کی قسم اٹھائی اور کہنے لگا: میں نے چوری نہیں کی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے نام کی تعظیم کرتے ہوئے اسے کہا: میں تجھے سچا جانتا ہوں اور اپنی آنکھوں کو جھٹلاتا ہوں۔ (بخاری: 3444) قارئین کرام! معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شے حجم میں چھوٹی تھی ‘مگر قیمتی تھی۔ اس نے اٹھائی اور فوراً چھپا لی۔ حضرت عیسیٰؑ نے اپنی اس شے کی کوئی پروا نہیں کی‘ بلکہ اس شخص کو سچا قرار دے دیا۔ ہم جیسا کوئی ہوتا تو شور ڈال دیتا‘ اس سے لڑتا‘ لوگوں کو اکٹھا کرتا‘ مگر پیغمبر کا حوصلہ بڑا عظیم ہوتا ہے اور وہ اللہ کے نام کی عظمت اور اس کی لاج رکھنے والا ہوتا ہے‘ اسی طرح بخاری کی حدیث کا مفہوم ہے کہ حضور سرکار مدینہؐ کی خدمت میں ایک ایسے شخص کو لایا گیا‘ جس نے شراب پی ہوئی تھی‘ اسے صحابہ کرامؓ کی موجودگی میں معمولی ندامت دلائی گئی ‘مگر بعض لوگ اسے سخت برا بھلا کہنے لگ گئے کہ اسے شرم ہی نہیں آتی۔ یہ کتنی بار یہاں اسی جرم میں آ چکا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ حضورؐ نے یہ انداز دیکھا تو غصے میں آ گئے‘ فرمایا ''اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو۔‘‘(بخاری: 6777) مطلب یہ ہے کہ شراب پینے کے جرم پر اسے ندامت ضرور دلائو‘ مگر ایک حد تک‘ اس حد تک نہ پہنچ جائو کہ وہ تم سے بیگانہ ہو جائے۔ دشمن سمجھنا شروع کر دے اور پھر شیطان کی مدد اس طرح ہو جائے کہ شیطان اسے بہکا کر لے جائے اور اسے اپنے شیطانی ہتھکنڈوں میں لے کر اس کو برباد کر دے‘ لہٰذا یہ جرم دار ضرور ہے‘ مگر تمہارا بھائی ہے۔ اسے اپنے سے چمٹا کر بھی رکھنا ہے۔ اپنے ساتھ لگا کر بھی رکھنا ہے‘ ہمارے حضورؐ نے مدینہ کے حکمران ہونے کی حیثیت سے ایک مجرم کے بارے میں اپنا ایسا رویہ ظاہر فرمایا ہے‘ جو واضح کرتا ہے کہ ایک ریاست کو کس طرح ماں جیسا ہونا چاہئے۔ ''ریاست ماں جیسی‘‘ کا جملہ تو ساری دنیا میں ضرب المثل ہے مگر میں کہتا ہوں کہ قول زریں اور ضرب المثل بنی ہے تو سرکار مدینہؐ کی مبارک اور پررحمت حکمرانی سے کشید ہو کر بنی ہے۔ ہماری پاک فوج نے بلوچستان میں اس پر یوں عمل کیا کہ ہتھیار رکھنے والے فراریوں کو سینے سے لگا لیا۔ نارمل زندگی کا محبت بھرا پیکج دیا۔ ایسے ہی کردار سے پاکستان مضبوط اور پرامن ہو گا۔
قارئین کرام! میں ایک ایسے نیک عالم‘ حافظ اور زاہد کو جانتا ہوں جو تہجد گزار اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے تھے۔ ان کا بڑا بیٹا نماز نہیں پڑھتا تھا۔ انہوں نے سختی کی‘ تشدد کیا‘ وہ سکول بھی چھوڑ گیا‘ مزید تشدد اور پٹائی کی تو گھر سے بھاگ گیا۔ دو تین بار پکڑ کر گھر لائے‘ رسی سے باندھا‘ مارا پیٹا‘ اب ایسا بھاگا کہ پکا پکا شیطان کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس بات کو کوئی 15سال ہو چکے‘ اب اس کا معاملہ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں‘ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ماں باپ کو بھی تشدد نہیں کرنا چاہئے وگرنہ نتیجہ وہی کہ بندہ شیطان کے حوالے ہو جائے گا۔ قابل برداشت حد تک سختی رکھیں‘ ساتھ نرمی اس سے تین گنا زیادہ کریں کیونکہ مقصود تو اصلاح ہے اور اصلاح دعوت کی نرمی سے ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص ایک عورت سے بوس و کنار کر بیٹھا (غلطی کا احساس ہوا اور نادم ہو کر) اللہ کے رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہو گیا‘ اپنی غلطی کا تذکرہ کیا‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل فرما دیا ''دن کے دونوں کناروں پر (فجر‘ ظہر اور عصر) کی نماز ادا کرو اور رات کے کچھ اوقات (مغرب و عشائ) کی نماز ادا کرو‘ یاد رکھو! نیکیاں برائیوں کو مٹا ڈالتی ہیں‘ نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے نماز ایک نصیحت ہے‘‘ (ہود:114)
بوس و کنار کرنے والے جوان نے یہ آیت سنی تو حضورؐ سے پوچھنے لگا کیا یہ رعایت میرے لئے خاص ہے؟آپؐ نے فرمایا! میری امت کے ہر اس شخص کے لئے یہ رعایت ہے ‘جو اس پر عمل کرے۔‘‘ (بخاری: 4687)
جی ہاں! مدنی ریاست کا معاشرہ ایسا تھا کہ اس میں اللہ کا ڈر‘ جنت کا حصول اور غلطی پر ندامت کا اظہار ہوتا تھا۔ ہمیں اپنے معاشرے کی اصلاح کرنی ہے تو پاکستان کے معاشروں کا ماحول اسی طرح کا بنانا ہو گا جو مدینہ منورہ کا ماحول تھا۔ منورہ کا معنی روشن ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ مدینہ کی گلیوں میں لائٹوں کا نظام تھا۔ جناب والا! ہمارے شہروں میں بجلی کی لائٹنگ بہت ہے‘ مگر دلوں میں اندھیرے ہیں۔ مدینہ کے باسیوں کے دلوں میں اجالے تھے۔ یہ اجالے رحمدلی سے پیدا ہوتے ہیں۔ درگزر سے جنم لیتے ہیں۔ شقاوت اور ظلم سے نہیں‘ لہٰذا اے حکمرانو! رسولوں کا راستہ اختیار کرو۔ حضرت محمد کریمﷺ جو ہمارے آخری رسولﷺ اور تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اس رحمت کو اپنے اندر بھی پیدا کرو اور معاشرے میں بھی عام کرو‘ رحمت و درگزر اور ترقی و خوشحالی آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔