"AHC" (space) message & send to 7575

قرآن پاک، معراج النبیﷺ اور سائنس

اللہ کے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ جمعۃ المبارک کے دن فجر کی نماز پڑھاتے تو دوسری رکعت میں معمول تھا کہ ''سورۃ الدھر‘‘ کی تلاوت فرماتے۔ اس سورت کا دوسرا نام ''الانسان‘‘ ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں سب سے پہلے ''الانسان‘‘ کا لفظ ہے اور پھر ''الدھر‘‘ کا لفظ ہے۔ مولا کریم فرماتے ہیں ''کیا زمانے میں سے انسان پر کوئی ایسا بھی لمحہ ہو گزرا ہے کہ وہ کوئی ایسی شے تک نہ تھا کہ جس کا ذکر کیا جائے‘‘۔ ( الدھر :1) قارئین کرام! 9 مارچ 2021 کو Nippon.com نے جاپانی صحافی تاکیزا وامیناکو کا ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں پروفیسر ''ناکاہاتا‘‘ کی ریسرچ پیش کی گئی ہے۔ پروفیسر صاحب ٹوکیو یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ''سپرکامیوکا‘‘ کی تجربہ گاہ کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ یہاں کائناتی شعائوں اور ان کے ذرات پر ریسرچ کی جاتی ہے۔ پہاڑوں کے نیچے اس تجربہ گاہ کی سرنگ کا قطر 39.3 میٹر ہے۔ اس کی گہرائی 41.4 میٹر ہے یعنی 125 فٹ کے قریب گہرائی ہے۔ یہاں خاص طور پر تیار کیے گئے شیشے کی دیواریں ہیں جن پر سونے کا پانی چڑھایا گیا ہے۔ یہاں 50 ہزار ٹن پانی کا تالاب بنایا گیا۔ یہ پانی انتہائی صاف ستھرا پانی تھا۔ یہاں ایک ذرے کا تجربہ مقصود تھا۔ ذرے کے تعارف کے لیے یوں سمجھئے کہ ایٹم کے جو ذرات ہیں‘ ان ذرات کے آگے مزید ذرات ہیں۔ کوارکس بھی انہیں کہا جاتا ہے۔ مزید آگے بڑھیں تو ''ہگزبوزون‘‘ (Higgs boson) جسے God particle یعنی خدائی ذرہ بھی کہا جاتا ہے‘ وہ دریافت ہوتا ہے۔ اسی طرح ہی کا ایک ذرہ ''نیوٹرینو‘‘ ہے۔ یاد رہے! نیوٹران کا تعلق ایٹم کے ذرے سے ہے۔ ''نیوٹرینو‘‘ (neutrino) اور چیز ہے۔ جاپانی تجربہ گاہ میں اسی کا ایک تجربہ مقصود تھا۔ ویسے تو اس پر Cern کی یورپین لیبارٹری (سوئٹزر لینڈ)اور امریکا میں تجربات ہو چکے ہیں مگر جاپان میں جدید ترین تجربے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔ جی ہاں! شیشے کی گولڈن دیواروں کے اندر پانی میں جب تجربہ کیا گیا تو گھپ اندھیرے میں نور کے رنگوں کا ایک انتہائی خوبصورت منظر بن گیا۔ یہ ''نیوٹرینو‘‘ کا منظر تھا۔ پانی میں اس کے خوبصورت رنگ تھے تو دیواروں پر ہلالی اور کمان دار نورانی جھلمل تھی۔ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ جاپانی سائنسدان ناکاہاتا کو اس پر نوبیل انعام مل سکتا ہے۔ یہ ذرہ سورج میں ہوتا ہے وہاں سے جب یہ زمین پر آتا ہے تو یہ ہمارے جسم اور دیگر مادی چیزوں سے یہ مادی ذرہ چھوئے بغیر گزر جاتا ہے۔ اس کے گزرنے کی رفتار کچھ اس طرح ہے کہ ایک سیکنڈ کا 100 واں حصہ‘ اس کے بعد اس سوویں حصے کے مزید 21 عدد 9 لگا کر حصے کیے جائیں تو یہ ہے اس کی رفتار۔
اللہ اللہ! ساری کائنات اور اس کا مادہ اسی نیوٹرینو ذرے سے بنا ہے یعنی جونہی BIG BANG ہوا تو یہ مادی ذرہ وجود میں آ گیا۔ جاپانی سائنسدان کہتے ہیں کہ وجود میں آئی ہوئی کائنات کے وسط میں بھاری اور ہلکے عناصر کی مثال یوں تھی کہ سورج جو بے شمار تھے اور ابتدائی شکل میں تھے وہ یہاں ہر آن مرتے تھے اور نئے سرے سے زندگی پاتے تھے۔ اسی کے اندر ہمارا نظامِ شمسی اور زمین بھی تھی کہ جس پر ہم آباد ہیں۔ ہم انسانوں کے اجسام بھی یہیں بن رہے تھے۔ حیرت انگیز انداز سے تخلیق و تدبیر کا یہ عمل ہو رہا تھا۔ نیوٹرینو کا ذرہ ایسی چیز ہے کہ جو ستاروں سے قبل وجود میں آ چکا تھا۔ اور اس کے وجود میں آتے ہی ستاروں کے بننے وغیرہ کا عمل شروع ہوگیا۔ یہیں سے ہمارے جسموں کے بننے کا عمل بھی شروع ہوا مگر کیسے؟ اس کا جواب ابھی اوجھل ہے۔ اللہ اللہ! خالقِ کائنات کے حبیب حضرت محمد کریمﷺ فجر کی نماز میں تلاوت کا آغاز فرما کر اہل علم کو بتا گئے کہ وقت یا ٹائم کا جب آغاز ہوا تو انسان تو اسی وقت اپنے وجود کی ابتدائی صورت اختیار کر چکا تھا مگر وہ صورت ایسی نہ تھی کہ جو قابلِ تذکرہ ہو... اگلی ہی آیت میں دوسرے مرحلے کا ذکر کیا گیا۔ مولا کریمﷺ فرماتے ہیں: ''ہم نے انسان کو پانی کے ایک قطرے سے پیدا کیا جو دو پانیوں سے بنا تھا۔ ایسا ہم نے (ایسا) اس لیے کیا تا کہ اس کی آزمائش کریں چنانچہ اسے سماعت و بصارت (کی دانشمندانہ صلاحیت) سے نواز دیا۔ (الدھر:2)
قرآن کی ایک اور سورت ہے اس کا نام ''النجم‘‘ ہے۔ اس کا معنی ستارہ اور سورج ہے۔ مفسرین اور عربی ڈکشنری کے مطابق یہاں واحد بول کر جمع مراد ہے۔ یعنی لاتعداد سورج اور ستارے۔ اللہ تعالیٰ اس سورت کا آغاز فرماتے ہی سورجوں کی قسم کھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کسی کی قسم کھانے کا مطلب مذکورہ مخلوق کی حقیقت کو بیان کرنا ہوتا ہے۔ سورجوں کی حقیقت یہ بیان فرمائی کہ ''اِذَا ھَوٰی‘‘ جب یہ گرتے ہیں۔ ناسا جو امریکی خلائی ادارہ ہے‘ نے حال ہی میں ایک تصویر نشر کی۔ اس تصویر کو تمام چینلز وغیرہ نے بھی نشر کیا ہے کہ ہمارے سورج سے ہزاروں گنا بڑا سورج اپنی فیملی سے الگ ہو کر راستہ بھولتا ہے‘ جب وہ بلیک ہول کے قریب ہوتا ہے تو بلیک ہول اسے اپنے اندر نگل لیتا ہے۔
قارئین کرام! مکہ کے مشرک جو اللہ تعالیٰ کے پیارے رسولﷺ اور قرآن کو جھٹلا رہے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں مخاطب کر کے آگاہ کیا کہ میرے حبیبﷺ اسی مکہ میں تمہارے اندر سے نشوونما پا کر رسول بنے ہیں، ان کی مبارک، سچی اور دیانتدار زندگی تمہارے سامنے ہے۔ یاد رکھو! ستارہ یعنی سورج اپنا راستہ بھول سکتا ہے۔ میرے رسولﷺ کے لیے یہ نا ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ''ضَلَّ‘‘ اور ''طغیٰ‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ''طَغیٰ‘‘ کا مطلب ہے کہ کسی مفاد کی خاطر جان بوجھ کر کوئی کام کیا جائے‘ جس کا میرے رسولﷺ کے بارے سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مذکورہ سورت کی ابتدائی 12 آیات میں واضح کیا کہ میرے حبیبﷺ کے ساتھ زمین پر جبریل علیہ السلام نے کیسے ملاقات کی اور قرآن کا الہام پہنچایا۔ 13 ویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر اپنے عظیم رسولﷺ کی ملاقات کا ذکر فرمایا کہ وہاں بھی جبریل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ فرمایا: ''آپ (حضرت محمد کریمﷺ) نے اسے (جبریل) کو ایک اور مرتبہ دیکھا ہے۔ سدرۃ المنتھیٰ کے پاس دیکھا۔ وہیں ''جنۃ الماوٰی‘‘ ہے۔ اس وقت سدرہ (کے درخت کو جن انوار و تجلیات) نے ڈھانپ رکھا تھا۔ بس ڈھانپ رکھا تھا۔ (میرے حبیب) کی آنکھ نہ اِدھر اُدھر ہو نہ آگے بڑھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے وہاں اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے کافی کچھ کا نظارہ کیا۔ (النجم: 13 تا 18)
سورہ بنی اسرائیل کا دوسرا نام ''اسراء‘‘ ہے۔ اس کا مطلب رات کا سفر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کا آغاز اپنی صفت ''سبحان‘‘ سے کیا کہ مخلوقات میں تمام مخلوق کسی عیب، نقص اور کمزوری کا شکار ہے۔ اللہ ایسے عیوب سے پاک اور انتہائی بلند ہے لہٰذا وہ اپنے پیارے اور آخری رسولﷺ کو ان کے مبارک وجود کے ساتھ راتوں رات مسجد حرام (کعبہ شریف) سے مسجد اقصیٰ (یروشلم) تک لے گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ''سبحان‘‘ کے ساتھ ''بِعَبدہ‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا۔ سمجھانا مقصود یہ تھا کہ ایک انسان اور بندے کا اپنے وجود کے ساتھ۔ لمحہ بھر میں مکہ سے یروشلم جانا ۔۔۔۔۔ اور پھر وہاں سے ساتویں آسمان پر جانا تمہیں محال اور نا ممکن نظر آتا ہے مگر جو لے کر گیا وہ سبحان ہے اور جس کو لے کر گیا وہ اللہ کے خاص الخاص ایسے بندے ہیں جو اس کے آخری رسول اور حبیب ہی نہیں خلیل بھی ہیں۔ قارئین کرام! اس عظیم سفر پر تشریف لے جانے کے لیے تیاری بھی خوب کی گئی۔ صحیح بخاری میں معراج کے باب میں حدیث: 3887 میں ہے۔ حضورﷺ فرماتے ہیں! ''بیت اللہ کی وہ جگہ جسے حطیم کہا جاتا ہے‘ میں وہاں لیٹا ہوا تھا کہ ایک آنے والا (جبریل) میرے پاس آیا، اس نے میرے سینے کو چیر دیا۔ پھر جبریل علیہ السلام نے میرے دل کو نکال لیا۔ پھر سونے کی ایک رکابی لائی گئی۔ وہ ایمان سے بھری ہوئی تھی۔ جبریل نے میرے دل کو (اس ایمان سے) دھویا۔ پھر دل کو اس کی جگہ واپس رکھ دیا اور سینے کو اسی طرح کر دیا جس طرح پہلے تھا‘‘۔ قارئین کرم! سونے کی رکابی یا برتن کس قسم کے سونے (GOLD) کا تھا‘ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ اس میں ایمان کس صورت میں تھا‘ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ البتہ یہ ایسی تیاری تھی کہ اب ہمارے حضورﷺ جسمانی طور پر اپنے رب کے پاس جانے کے لیے تیار تھے۔ ''براق‘‘ کا لفظ برق سے نکلا ہے جس کا معنی بجلی ہے۔ بجلی کی رفتار تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ ہے۔ براق کے لفظ میں برق کا مبالغہ پایا جاتا ہے، یعنی بجلی کی اربوں، کھربوں رفتاریں مل جائیں تو اس سے کہیں بڑھ کر اس براق کی رفتار تھی جس پر ہمارے حضورﷺ تشریف لے گئے۔ تمام فرشتوں کے سردار حضرت جبریل علیہ السلام اس براق کے لگام بردار ہوں تو پھر رفتاروں کے کیا کہنے اور حضورﷺ کی شان کے کیا ہی کہنے... بس میں اتنا کہوں گا اور عرض کروں گا کہ سورۃ ''الاسرا‘‘ یعنی حضورﷺ کی سیر کا آغاز اللہ تعالیٰ کی صفت ''سبحان‘‘ سے ہوا اور درمیان میں اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا وہ ذرا بعد میں‘ پہلے تھوڑا سا یہ منظر کہ حضورﷺ کی سواری محوِ پرواز ہے‘ سورج بلیک ہول میں گر رہے ہیں اور حضورﷺ نظارہ فرما رہے ہیں۔ کائنات جب مادے میں ڈھلی تو نیوٹرینو ذرات کے جھلمل کرتے نظارے اس ہستی کو یقینا سلام کر رہے تھے، جس ہستی نے ہر جمعہ میں فجر کی نماز کی دوسری رکعت میں سورۃ الدھر تلاوت فرمائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کی قسم کھائی کہ وہ ‘‘ذات الحبک‘‘ یعنی کپڑے کی طرح بُنا ہوا ہے۔ حضورﷺ کی سواری اس بُنت کو چیرتی چلی جا رہی تھی اور میرے حضورﷺ نظارہ فرما رہے تھے۔ اس آسمانی بُنت کا آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ وغیرہ کو چودہ سو سال بعد پتا چلا ہے۔ میرے حضورﷺ مبارک آنکھوں سے یہ سب دیکھ چکے ہیں۔ حضورﷺ واپس تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ نے ''الاسراء‘‘ کے وسط میں فرمایا: ''میرے رسول کہہ دو کہ اگر اُس اللہ کے ساتھ اور بھی معبود ہوتے جیسا کہ تم کہتے ہو تو تب وہ اس ذات جو عرش کی مالک ہے‘ کی جانب چڑھائی کا کوئی راستہ بناتے۔ وہ ایسی باتوں سے سبحان اور اعلیٰ ہے اور انتہائی بالا و بڑا ہے‘‘۔ (الاسراء:43) یعنی صادق و امین حضرت محمد کریمﷺ کائنات کا نظارہ کر چکے ہیں۔ ہر جگہ ایک اللہ ہی حکمران ہے۔ جی ہاں! اب مذکورہ سورت کا اختتام ہوتا ہے۔ فرمایا: میرے نبی کہہ دو کہ سب حمد اللہ کے لیے ہے جس کی کوئی اولاد نہیں۔ نہ ہی بادشاہت میں اس کا کوئی شریک ہے اور نہ ہی عاجزی کی وجہ سے اس کا کوئی دوست ہے۔ لہٰذا اس اللہ کی بڑائی بیان کرو جس طرح اس کی تکبیر بلند کرنے کا حق ہے‘‘۔ میرے حضورﷺ کی سیر کا آغاز سبحان اللہ سے اور اختتام الحمد للہ پہ ہوا۔ یہ پیغام ہے سورۃ الاسراء کا اور ہمارے حضورﷺ کی اونچی شان کا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں