''خدا (خالقِ دو جہاں اللہ رب العزت) نے زندگی پر ایک کتاب لکھی ہے اور یہ کتاب DNA میں موجود ہے۔ اس کا انکشاف انسانی تاریخ کا اولین کارنامہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس میں معلومات پر مبنی ایسی زبان ہے جو خدا کی زبان ہے‘‘۔
قارئین کرام! مندرجہ بالا الفاظ ہیں امریکا کے صدر کلنٹن کے‘ اور ان خیالات کا اظہار انہوں نے 2000ء میں وائٹ ہائوس میں سائنسدانوں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا تھا۔ اس کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیئر کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ انہوں نے بھی مختصر گفتگو کی تھی۔ اس کے بعد بیالوجی کے سائنسدانوں کی ٹیم کے سربراہ نے خطاب کیاتھا۔ مذکورہ ریسرچ پر دو ارب ستر کروڑ ڈالر خرچ ہوئے تھے۔برطانوی پائونڈ میں اس کا تخمینہ ایک ارب نوے کروڑ پائونڈ تھا۔ اس ریسرچ پر سینکڑوں سائنسدانوں نے کام کیا۔ ڈی این اے کے تین ارب بنیادی جوڑوں (PAIRS) پر ریسرچ کی گئی۔ انسانی تاریخ میں امریکا نے چاند پر اپنا پہلا اور اب تک آخری خلا نوورد بھیج رکھا ہے۔ ''ڈی این اے‘‘ انکشاف کو چاند کی تسخیر کے برابر کارنامہ قرار دیا گیا۔ یہ توقع کی گئی کہ اگلے 20 سالوں میں انسان کو وراثت میں ملنے والی بیماریوں کا کھوج لگا لیا جائے گا۔ کینسر اور دیگر موذی بیماریوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ صحت کے اعتبار سے انسان انتہائی صحت مند زندگی گزارے گا۔
اکیسویں صدی کے ابتدائی 20 سال اب بیت چکے ہیں۔ ہم اکیسویں سال میں داخل ہو چکے ہیں‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب تک ہم کہاں پہنچے ہیں؟ جی ہاں! جواب آپ کے سامنے ہے۔ امریکا کی یونیورسٹی سے تازہ ترین دو سائنسی تحقیقات ہمارے سامنے ہیں۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ یہ کیا کہتی ہیں۔
تحقیقات کے جائزے سے قبل یہ سادہ سی سائنسی حقیقت ہمارے ذہن میں ہونی چاہیے کہ ماں باپ سے آنے والے دو جرثوموں سے ایک خلیہ بنتا ہے۔ ہر انسان اسی سے وجود میں آتا ہے۔ اس خلیے کے اندر ایک ''ڈی این اے‘‘ ہوتا ہے۔ ڈی این اے میں بہت سارے یعنی ہزاروں لاکھوں جین ہوتے ہیں۔ ''ڈی این اے‘‘ جو خوردبین کے بغیر انسانی آنکھ کو نظر نہیں آتا وہ انتہائی تیزی کے ساتھ اپنے جیسی ہوبہو نقلیں تیار کرنا شروع کر دیتا ہے۔ سائنسی ریسرچ اور سوال یہ ہے کہ یہ خلیہ جو ایک سے دو اور دو سے چار اور چار سے آٹھ بنتا چلا جاتا ہے تو اس کا میٹریل کہاں سے آتا ہے؟ پھر بات اتنی سادہ نہیں ہے کہ ایک جیسے خلیات بڑھتے چلے جاتے ہیں بلکہ پیچیدگی یہ ہے کہ ان میں ماں باپ کی وراثتی خصوصیات شامل ہوتی ہیں۔ شکل و شباہت، رنگ ڈھنگ، وراثتی بیماریاں، خوبیاں، خامیاں وغیرہ سب شامل ہوتی ہیں۔ پیچھے تک آبائو اجداد کے وراثتی عوامل بھی شامل ہوتے ہیں۔ بنیادی طور پر انسان کی اپنی زندگی کی انفرادیت بھی ان میں نمایاں ہوتی ہے۔ اگر بچے نے اپنی ماں کے دودھ کے بعد کسی اور خاتون کا دودھ پی لیا ہے تو اس خاتون اور اس کے خاوند کے وراثتی خصائص بھی اس بچے کے خلیات کا حصہ بن جائیں گے۔ اس تحقیق کو آسٹریلیا کی خاتون کاکولاس کے حوالے سے ہم اپنے ایک کالم میں شائع کر چکے ہیں۔ واپس چلتے ہیں اس ایمبریو کی طرف جو اپنی ماں کے شکم میں نشوونما پا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ڈی این اے کی نقلیں مختلف خصوصیات کی حامل بن رہی ہیں۔ ایک ہی طرح کا میٹر ہے مگر دماغ بن رہا ہے۔ دماغ کے اندر کے حصے بن رہے ہیں کوئی دیکھنے والا ہے‘ کوئی سننے والا ہے‘ کوئی سونگھنے والا ہے‘ کوئی یادداشت کو محفوظ رکھنے والا ہے۔ الغرض! دماغ کے بے شمار حصے ہیں اور ہر حصے کا ہر خلیہ ایک سپر کمپیوٹر ہے۔ دل بن رہا ہے، اس کے خلیات اور خصوصیات الگ ہیں۔ جگر ایک الگ چیز ہے۔ معدہ الگ ہیں۔ جی ہاں! ہڈیاں اور باقی اعضا کھال سمیت ہر ایک کا الگ الگ فنکشن ہے۔ یہ الگ الگ کیسے بن گئے؟ پھر یہ کہ سارے اعضا ایک ہی وقت میں نہیں بنتے۔ کوئی قدرے آہستگی سے بنتا ہے۔ جو زیادہ اہم ہوتا ہے وہ پہلے بنتا ہے۔ اس کے بننے میں تیزی ہوتی ہے؛ چنانچہ ہر ڈی این اے میں جو جینز ہیں ان میں سوئچ ہوتے ہیں۔ یہ سوئچ جینز کو آن (ON) اور آف (OFF) کرتے ہیں یعنی کس نے خاموش رہنا ہے اور کس نے عمل کرنا ہے اور عمل کس رفتار سے کرنا ہے، یعنی بالکل اسی طرح جس طرح الیکٹرک پنکھے کا سوئچ آف، آن کرتے ہیں اور رفتار بھی اپنی مرضی کی رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جینز جو اعضا بناتے ہیں‘ ان کو آف اور آن کون کرتا ہے؟
آن، آف سسٹم کی تازہ ریسرچ ڈاکٹر گلبرٹ اور ان کی ٹیم نے کی ہے، مسلسل 13 سال ریسرچ کے بعد تازہ تحقیق 23 اپریل 2021ء کو ''جرنل سائنس‘‘ میں شائع ہوئی ہے۔ یہ میگزین دنیا کی سب سے بڑی سائنٹیفک آرگنائزیشن (AAAS) کا سب سے بڑا سائنسی میگزین ہے۔ ڈاکٹر گلبرٹ اور ان کی ٹیم کے دو درجن کے قریب سائنسدان کہتے ہیں کہ انسانی سیل میں ہمارا انکشاف تاریخ کا سب سے بڑا انکشاف ہے۔ اس انکشاف کا نام Unique Replication Timing Program ہے۔ یعنی انہوں نے اپنی لیبارٹری کی مشینوں میں خلیے کے اندر مندرجہ بالا پروگرام کا مشاہدہ (Showed) کیا ہے۔ اس کے لیے سائنس کی اصطلاح Epigenome اور Epigenetic استعمال کی گئی ہے۔ یاد رہے! ایپی (EPI) یونانی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی بالا اور ماورا ہے۔ ڈاکٹر گلبرٹ کہتے ہیں کہ جین کو چالو کرنے اورروکنے کے عمل کا جو پروگرام ہے‘ اس میں واضح طور پر ترمیم اور تبدیلی (Distinct Alterations) ہوتی ہے۔ نقل کرنے کے پروگرام میں ٹائمنگ ہوتی ہے۔ ڈی این اے کی پیکنگ میں اس کا اثر ہوتا ہے۔ یہ اپنے فیکٹرز کے ساتھ ایک ریگولیٹری سسٹم ہے جو سب کچھ کنٹرول کرتا ہے اور ہر عضو کے سیل کو ایک شناخت (Identity) دیتا ہے۔ اور پھر ہر سیل اپنا عمل (Function) کرتا ہے۔ ڈاکٹر ڈیوڈ گلبرٹ آخر میں اعتراف کرتے ہیں کہ اصل سچائی ہماری سوچ یعنی epigenome سسٹم سے آگے ہے اور ہم اسے تلاش کرتے رہیں گے۔
قارئین کرام! مذکورہ ریسرچ کے چند دن بعد یعنی 2 مئی 2021ء کو ابرڈین یونیورسٹی کی ایک ریسرچ سامنے آ گئی۔ اس ریسرچ رزلٹ کو ''الاس ڈیئر میکنزی نے مرتب کیا ہے، جو مالیکیولر جینیٹکس میں ادارے کے سربراہ ہیں۔ اور ان کے ساتھ ''اینڈرئیس کولب‘‘ نے ہیں جو سینئر ریسرچر ہیں۔ دونوں نے لکھا ہے کہ وائٹ ہائوس کی پریس کانفرنس کے 20 سال بعد آج تازہ ریسرچ کی صورتحال یہ ہے کہ جینز کے عمل میں بہت سارے خلا ہیں۔ انہیں فعال کرنے اور بند کرنے کے جو سوئچ ہیں وہ براہِ راست (Direct) ہیں۔ ان جینز میں جو موروثی طور پر بیمار جینز ہوتے ہیں ان کے پیچھے انتہائی powerful determinants یعنی طاقتور اور طے شدہ (فیصلے) ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ چیزیں جینز کے خفیہ راز (Genetic secrets) ہیں جنہیں ہم لوگ یعنی جینز کا دکھائی نہ دینے والا مادہ (ڈارک میٹر)کہتے ہیں، لہٰذا یہ جو ڈیزائن شدہ بچوں کی باتیں ہیں یہ نام نہاد (So Called)ہیں۔ کینسر وغیرہ کو بیماریوں کے جینز کی تبدیلی سے ختم کرنے کے نتائج ابھی تک مایوس کن ہیں۔ سائنسدانوں نے جب ایسے جینز تک رسائی حاصل کی جو بیماریوں کا باعث بنتے ہیں تو وہ یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ یقینی یعنی مستقل (Certain) جینز ہی یعنی بیماریوں (Certain illnesses) کو لیڈ کر رہے ہیں۔ سائنسدانوں نے یہ بھی دیکھا کہ جینوم کے غیر متوقع علاقے انسانی بیماریوں کی بڑھوتری میں مبتلا ہیں۔ اسی طرح جینوم کے دو سیکشن ہیں۔ ایک ''کوڈنگ جینوم‘‘ ہیں یعنی جن کے کوڈ کو ڈیکوڈ کر کے تحریر پڑھی جا سکتی ہے۔ ان کی تعداد 1.7 فیصد ہے جبکہ وہ جینوم جو Non-Coding ہیں وہ 98.3 فیصد ہیں۔ سائنسدانوں کا پہلے یہ خیال تھا کہ زندگی کا سامان بنانے میں ان کا کردار انتہائی کم ہے۔ اب یہ معلوم ہوا ہے کہ ان کا کردار دوسرا ہے مگر انتہائی اہم ہے۔ یہی تو جینز کے سوئچوں کو فعال اور غیر فعال کرتے ہیں۔ یاد رہے! جینز کے اندر جو معلومات ہوتی ہیں اور ان سے جو اعضا بنتے ہیں ان کے پیچھے یہی ''نان کوڈنگ جینز‘‘ ہی معلومات کا سر چشمہ ہیں۔
قارئین کرام! سوال پھر اپنی جگہ پر رہ گیا کہ ڈارک میٹر کا 98.3 فیصد معلوم کرتے کرتے صدیاں بیت جائیں گی کچھ معلوم ہو گا مگر بیشتر معلوم نہ ہوگا۔ اور جی ہاں! یہ تو بہر حال! معلوم ہو گیا کہ اس سسٹم اور نظام کے پیچھے طاقتور فیصلوں پر مبنی تقدیر ہے۔ ایپی یعنی ماورائی اور اعلیٰ بات یہ ہے کہ قرآن کی سورۃ الاعلیٰ پڑھ لو‘ سب سمجھ آ جائے گی۔ ختم المرسلین حضرت محمد کریمﷺ سورۃ الاعلیٰ کو ہر جمعہ کی نماز کی پہلی رکعت میں تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ مولا کریم ارشاد فرماتے ہیں ''اپنے رب (نشوونما کرنے اور پالنے والے) کی تسبیح (پاکیزگی) بیان کرو جو سب سے اعلیٰ ہے۔ اسی نے پیدا فرمایا۔ درست ترین صورت سے نوازا۔ اور وہی تو ہے جس نے تقدیر (Powerful determine) کو طے کیا۔ پھر (معلومات پر مبنی) ہدایات جاری فرما دیں۔ (الاعلیٰ:1تا 3)
صحاح ستہ میں شامل حدیث کی کتاب ''سنن ابودائود‘‘ میں حدیث شریف ہے‘ جس کی سند کو حضرت ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے کہ مذکورہ سورت کی پہلی آیت کی جب حضورﷺ تلاوت فرماتے تو ''سبحان ربی الاعلیٰ‘‘ کہتے کہ تمام عیبوں سے پاک ہے میرا رب‘ جو اعلیٰ ہے۔ جی ہاں! ہر شئے کی حقیقت کے آخر پر ملے گا تو اللہ تعالیٰ کا آرڈر ملے گا۔ آج کی سب سے بڑی سائنسی حقیقت اور انکشاف یہی ہے۔ لہٰذا کورونا ہو یا اور کوئی مرض۔ علاج اور پرہیز ضروری ہے مگر یہ ثانوی ہے۔ اعلیٰ ترین حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی شفا دینے والا ہے۔ دعا ہے کہ مولا کریم سب بیماروں کو صحت عطا فرمائے اور ہر وبا سے ارضِ حرمین، پاک سر زمین، عالمِ اسلام اور تمام انسانیت کو محفوظ فرمائے، آمین!