اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ہم سب نے جانوروں کی قربانی کر لی۔ یہ قربانی تو سال میں صرف ایک دن ہوتی ہے۔ یہ حج کے مہینے کا دسواں دن ہے۔ حضور کریمﷺ کے فرمان کے مطابق: اس روز اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ اور محبوب ترین عمل قربانی کا خون بہانا ہے۔ سہولت کے لیے قربانی کے دنوں کا اضافہ کر دیا گیا۔ ان دنوں کو ''ایّام تشریق‘‘ کہا جاتا ہے۔ قربانی کے ان چند دنوں کے علاوہ جو سارا سال پڑا ہے‘ وہ بھی قربانی کا سال ہے۔ اس پورے سال میں ہم سب کو اپنے اندر کے جانور کی قربانی کرنا ہے۔ اگر ہم نے وقت آنے پر اپنے اندر کے جانور کی قربانی نہ کی تو ہم نے ماہِ حج کے دسویں دن کو جو قربانی کی‘ اس کا مقصد سمجھے بغیر ہم نے بیرونی جانور کے گلے پر چھری پھیر دی۔ ہمارے اندر جو جانور تھا اس پر تو ہم نے چھری نہیں چلائی۔
چودھری شجاعت حسین صاحب ہمارے وطن عزیز پاکستان کے معروف اور ٹھنڈے مزاج سیاست دان ہیں۔ انہوں نے اہل پاکستان کے سیاسی رویوں میں عدم برداشت کو دیکھتے ہوئے خوب بات کی۔ کہا: عیدِ قربان کے بعد اب ہم لوگوں کو اپنی ''انا‘‘ کی قربانی کرنی چاہیے۔ ویسے وفاقی وزیر احسن اقبال صاحب نے اپنی ''اَنا‘‘ کو سرعام قربان کیا ہے۔ ان کی والدہ محترمہ آپا نثار فاطمہ اور والد اقبال احمد چودھری تھے۔ ان کے نانا چودھری عبدالرحمن قیامِ پاکستان سے قبل بھی سیاست میں حصہ لیا کرتے تھے۔ احسن اقبال صاحب کا نام ''اَحسن‘‘ ہے۔ یاد رہے! ہم سب مسلمان ہیں۔ قرآن شریف کو ماننے والے ہیں۔ ہمارے ناموں کا تعلق قرآن مجید میں آئے ہوئے الفاظ سے ہے۔ حضور کریمﷺ کے صحابہ اور صحابیات کے ناموں سے ہے۔ نام اسی لیے قرآن و حدیث سے لیا جاتا ہے تاکہ اچھے نام کا اثر شخصیت پر اس انداز سے پڑے کہ شخصیت باوقار بن جائے۔ آپا نثار فاطمہ کے بیٹے نے اپنے نام کی لاج کس طرح رکھی اس کا تذکرہ بعد میں‘ پہلے ہم قرآن شریف کے اس مقام کا ترجمہ کرتے ہیں جہاں احسن کا لفظ آیا ہے۔ ملاحظہ ہو!
''گفتگو کے اعتبار سے اس شخص سے بڑھ کر احسن (سب سے اچھا) کون ہو سکتا ہے جس نے اللہ کی طرف دعوت دی۔ (بیمار معاشرے کو) تندرستی دینے والا کردار ادا کیا اور کہنے لگا میں تو (اللہ اور اس کے رسولﷺ) کے فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ اچھائی (والا کردار) اور (نفرتوں بھرا) برا کردار برابر نہیں ہو سکتے لہٰذا (برائی کو برے طریقے سے نہیں بلکہ) احسن طریقے سے دور کرو۔ اس رویے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ شخص کہ تمہارے درمیان اور اس کے درمیان عداوت ہے (اس کا خاتمہ ہو جائے گا اور) وہ ایسا ہو جائے گا جس طرح گہرا دوست ہوتا ہے۔ (برداشت کی یہ عظیم نعمت) انہی لوگوں کو ملتی ہے جو صبر کرتے ہیں یہ تو اس کے حصّے میں آتی ہے جس کا نصیب انتہائی عظیم ہوتا ہے۔ (اے انسان! اس مقام کے حصول کی خاطر) اگر تجھے (بدتمیزی کے ماحول میں) شیطان کچوکا مارے (کہ اٹھ اور مقابلہ کر بدتمیزی کے ساتھ) تو اللہ کی پناہ طلب کر۔ بلاشبہ وہ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔ (حم السجدہ: 33 تا 35)
قارئین کرام! شیطان جب کچوکا مارے تو اللہ کی پناہ کا طریقہ جو اللہ کے رسولﷺ نے بتایا ہے وہ یہ ہے کہ بندہ اپنے بائیں کندھے پر تین بار تھو تھو کرے پھر تین بار اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ لے۔ میں نے پچھلے کالم میں حدیث شریف لکھی تھی کہ طاقتور اور پہلوان وہ ہے جو اپنے شیطان کو بھی زیر کرے اور مخالف کے شیطان کو بھی چاروں شانے چت کرے۔ قرآن مجید میں جو لفظ ''احسن‘‘ ہے۔ اسے عربی گرامر میں افضل التفضیل کہا جاتا ہے۔ جس طرح انگریزی میں Best کا لفظ سپر لیٹو (superlative) ڈگری کا حامل ہے‘ اسی طرح ''احسن‘‘ کا لفظ عربی زبان میں سپرلیٹو بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔
پیر کرم شاہ الازھری رحمہ اللہ نے تفسیر ''ضیاء القرآن‘‘ لکھی ہے۔ ان کا تعلق بھیرہ سے تھا۔ بھیرہ کے موٹروے پر ''طعام و قیام‘‘ مقام پر جناب احسن اقبال کے ساتھ ایسا رویہ پیش آیا کہ ایک پڑھی لکھی فیملی کی خاتون اور اس کی بارہ تیرہ سالہ بچی نے مل کر احسن اقبال صاحب کو برے لقب سے پکارا اور ساتھ ہی ہوٹنگ کرنے لگے۔ اس خاندان کا سربراہ اس منظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ احسن اقبال صاحب نے کچھ نہیں کہا بلکہ معاف بھی کر دیا یہ کہہ کر کہ مقدمہ کر سکتا ہوں مگر ایک خاتون اور بچی کا معاملہ ہے‘ معاف کرتا ہوں۔ نتیجہ کیا نکلا کہ وہی خاندان نارووال میں احسن اقبال صاحب کے ہاں معذرت کر رہا تھا اور یوں بیٹھا تھا جیسے وہ احسن صاحب کے فیملی ممبران ہوں۔ میں کہتا ہوں میرے رب نے آپا نثار فاطمہ کے خاندان کی لاج رکھی تو بھیرہ کے علاقے کی بھی لاج رکھی کہ بھیرہ کا نام ایک مفسر قرآن حضرت پیر کرم شاہ کے نام سے معروف ہے۔ جناب احسن اقبال اور جناب پیر امین حسنات‘ دونوں سے گزارش کرتا ہوں کہ ہمارا معاشرہ جس عدم حوصلہ، عدم برداشت کا شکار ہو رہا ہے‘ قرآن شریف کے مندرجہ بالا عظیم مقام کو موٹو بنا کر ملک بھر کے معاشرے کی اصلاح کریں۔ اسے ایک تحریک کی صورت میں اٹھا کھڑا کریں۔
ہمارے مذہبی اور سیاسی رویوں میں عدم برداشت اس طرح بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ سرگودھا اور فیصل آباد کے علاقوں میں مذہب کے نام پر قتل ہو چکے ہیں۔ نسلی بنیادوں پر یہی کام ابھی تک ہم پوری طرح روک نہیں سکے۔ مذہبی و سیاسی بنیادوں پر بھی خون کے چھینٹے ہمیں دکھائی دے چکے ہیں۔ میں گزارش کروں گا کہ اس کو رکنا اور تھمنا چاہیے۔ علماء کرام ہوں یا سیاسی رہنما، اداروں کے سربراہان ہوں یا دیگر زعماء‘ ان کے ساتھ رائے کا اختلاف احترام کو ملحوظِ خاطر رکھ کر ہونا چاہئے۔ اس بات کی صلاحیت اور فراست بھی ہونی چاہئے کہ کون سا اختلاف سرعام کرنا ہے اور کون سا اختلاف صرف موصوف کے ساتھ ہی کرنا ہے۔ اس کے لیے فون بھی کیا جا سکتا ہے‘ خط بھی لکھا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ کسی شخص یا چند اشخاص میں کوئی غلطی محسوس فرماتے تو منبر پر تشریف فرما ہو کر یوں ارشاد فرماتے ''مابال الناس‘‘ (لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اس طرح سے باتیں کر رہے ہیں یا اس طرح کر رہے ہیں؟)۔ اس انداز سے سب کی اصلاح ہو جاتی تھی اور پردہ پوشی بھی ہو جاتی تھی۔ یاد رہے کہ حضور کریمﷺ حکمران بھی تھے۔ عجیب بات ہے کہ آج ہر شخص ایسے بات کرتا ہے کہ گویا وہ وزیراعظم پاکستان سے بھی بڑھ کر کوئی بہت بڑی چیز ہے۔ یہ رویہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس میں تکبر ہے۔
محمد ضیاء الحق مرحوم کا زمانہ تھا۔ آپا نثار فاطمہ مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی کی ممبر منتخب ہوئی تھیں۔ 1986ء میں انہوں نے توہین رسالت کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ اس بل کو قانون بنا کر بعد میں 295 سی کا قانون بنایا گیا تھا۔ اس سے پہلے محترمہ نثار فاطمہ مرحومہ ملک بھر میں اس قانون کے لیے راہ ہموار کرتی رہیں۔ وہ ممبرانِ اسمبلی کے پاس جاتی رہیں۔ ننھا احسن اقبال اپنی والدہ آپا نثار فاطمہ کے جلسوں میں حضور کریمﷺ کی شان میں نعتیں پڑھتا رہا۔ آج وہ ایک بزرگ سیاستدان ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ حضور کریمﷺ کی حرمت اور ختم نبوت پر میرا سب کچھ قربان مگر جس نوجوان نے مجھے گولی ماری تھی‘ وہ اب بھی میرے بازو میں ہے‘ وہ تو مجھے قتل کرنے آیا تھا مگر میرے اللہ نے مجھے محفوظ رکھا۔ میں کہتا ہوں کہ قیامت کے دن اگر احسن اقبال نے اپنے رب کی عدالت میں انصاف مانگ لیا کہ مولا! تیرے حبیبﷺ کی حرمت اور ختم نبوت کی پاسداری میں میرا اور میری والدہ کا کردار آپ کے سامنے ہے‘ پھر یہ گولی کس جرم میں؟ تب تشدد پر ابھارنے والوں اور آگے بڑھ کر عملی اقدام کرنے والے کا کیا بنے گا؟ جناب احسن اقبال صاحب پروفیسر حافظ محمد سعید جیسی علمی شخصیت کے بھی شاگرد ہیں جن کی تفسیر ''تعلیم القرآن‘‘ مکمل ہو کر زیر طبع ہے۔ تحریک انصاف کے سینیٹر جناب اعجاز چودھری صاحب بھی حافظ صاحب کے شاگرد ہیں۔ جی ہاں! اسلامی تہذیب کا تقاضا ہے کہ تنقید کا انداز اصلاحی ہو۔ اس تقاضے پر اگر عمل نہیں تو واضح ہے کہ قربانی کے باوجود اندر کا حیوان قربان نہیں ہوا۔