اللہ ذوالجلال نے دورِ حاضر کے سب سے بڑے اور عالمی شہرت یافتہ سائنسدان کو امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں پیدا کیا۔ اس سائنسدان کے دادا جاپان چھوڑ کر کیلیفورنیا میں آ بسے تھے۔ جاپانی جوڑے کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے سے نوازا۔ جوان ہونے پر اس بچے کی شادی ہوئی تو 24 جنوری 1947ء کو اس کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ اس کا نام ''مشیو کاکو‘‘ (Michio Kaku) رکھا گیا۔ مشیو کاکو ہائی سکول میں سائنس کی آخری کلاس کا طالب علم تھا جب کلاس روم میں اس کے استاد نے اپنے طلبہ کو بتایا کہ آج دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان آئن سٹائن فوت ہو گیا ہے۔ وہ بیچارہ اپنی تھیوری ''ایوری تھنگ‘‘ کو مکمل نہیں کر سکا تو طالب علم کاکو نے اپنے استاد کی یہ بات سنتے ہی عزم کر لیا کہ وہ اس تھیوری کو مکمل کرے گا۔ آئن سٹائن یہودی تھا۔ وہ ایک خدا کو ماننے والا تھا اور جرمنی کا رہنے والا تھا۔ ہٹلر‘ جو یہودیوں کا دشمن تھا‘ جرمنی کے لاکھوں یہودیوں کو قتل کرنے کا ذمہ دار تھا۔ اس کے ظلم کو دیکھ کر آئن سٹائن جرمنی سے امریکہ چلا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کے ایٹمی پروگرام میں اس کا بھی نمایاں کردار تھا۔ اگرچہ براہِ راست وہ ان ایٹم بموں کی تیاری میں شریک نہیں تھا جن سے جاپان کے دو شہروں کو تباہ کیا گیا تھا اور جاپان امریکہ سے شکست کھا کر اس کا فرمانبردار ملک ہو گیا جبکہ ہٹلر بھی شکست سے دوچار ہو گیا تھا مگر بہت سے درپیش مسائل کا حل اس نے ضرور پیش کیا۔
مشیو کاکو کا دادا سمجھدار جاپانی تھا۔ وہ ایٹم بم گرنے سے پہلے ہی حالات بھانپ چکا تھا؛ چنانچہ وہ امریکا چلا آیا۔ اس دادا کو خالق کائنات نے 1947ء میں جس پوتے سے نوازا‘ وہ امریکہ ہی نہیں دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان بنا۔ آئن سٹائن کو ایک خدا اور ایک خالق کو ماننے کا عقیدہ اپنے ماں باپ سے وراثت میں ملا تھا۔ جب وہ عالمی شہرت یافتہ سائنسدان بن گیا‘ تب بھی وہ کبھی خدا کو ماننے کی بات کرتا تھا اور کبھی شک و شبہے کا اظہار کرتا تھا۔ آئن سٹائن کے بعد دنیا کا جو سب سے بڑا سائنسدان تھا وہ سٹیفن ہاکنگ تھا۔ اس نے کائنات کے خالق کا وجود نہیں مانا لیکن مکمل طور پر خالق کے وجود کا انکار بھی نہیں کیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ کافی حد تک شک میں مبتلا تھا۔
شک میں مبتلا لوگوں کی دماغی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ''ایسے لوگوں نے حق کو اس وقت جھٹلا دیا جب وہ ان کے پاس آ چکا تھا چنانچہ وہ (ایک خالق کو) ماننے (اور) نہ ماننے کی اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ کیا وہ اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھتے ہم نے اسے کس طرح بنا ڈالا۔ اسے (ستاروں، کہکشاؤں سے مزین کر کے) خوبصورت بنایا۔ اس بناوٹ میں کہیں کوئی رخنہ نہیں‘‘۔ (ق:5 تا 6)
''مشیو کاکو‘‘ نے اپنی جوانی میں آئن سٹائن کے عروج کو دیکھا تو اس کے بعد خود ایک بڑے سائنسدان کی حیثیت سے سٹیفن ہاکنگ کے عروج کو بھی دیکھا۔ ایک خالق کے بارے میں شک کے شکار دونوں سائنسدان اس دنیا سے جا چکے ہیں۔ مشیو کاکو نے 1968ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے فزکس میں گریجوایشن کی تو فرسٹ پوزیشن لی۔ پھر کیلیفورنیا یونیورسٹی اور پھر برکلے ریڈی ایشن لیبارٹری کو جوائن کر لیا۔ وہ پی ایچ ڈی ہو گئے تو انہوں نے برنسٹن یونیورسٹی میں لیکچرر شپ حاصل کرلی۔ اس کے بعد جناب کاکو نے نیو یارک کی سٹی یونیورسٹی سے سٹی کالج میں کوانٹم میکانکس پر ریسرچ کا کام شروع کر دیا۔ 1973ء سے 1990ء تک انہوں نے برنسٹن یونیورسٹی میں ''انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانس سٹڈی‘‘ میں خدمات سرانجام دیں۔ اسی ریسرچ پر انہوں نے نیو یارک یونیورسٹی میں بھی کام کیا۔ 2014ء میں انہوں نے نیویارک یونیورسٹی کے سٹی کالج میں نظریاتی فزکس پر سیماٹ چیئر اور پروفیسر شپ کی ذمہ داریوں کو سنبھالا۔ مشیو کاکو کئی میڈلز، اعزازات اور انعامات حاصل کر چکے ہیں۔
قارئین کرام! مجھے انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ عالمی سروے کے مطابق نیٹ پر سب سے بڑھ کر ہم لوگ حیا سوزی پر مبنی مواد دیکھتے ہیں۔ ہماری سیاست میں جھوٹ اور فراڈ ہوتا ہے اور ہم وہ لوگ ہیں جو ایسے لوگوں کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہوئے ان کی تعریفوں کے پُل باندھتے ہیں جو اپنی مفاداتی سیاست کے لیے ہر غیر اخلاقی حد کو پھلانگنا معمولی بات سمجھتے ہیں۔ وہ ہمارے ہاں علمی کلچر کو فروغ نہیں دیتے جبکہ ترقی یافتہ ملکوں کی قدر علم کی بنیاد پر ہے۔ وہاں سائنس دانوں کی قدر کی جاتی ہے؛ چنانچہ مشیو کاکو کو بی بی سی، ڈسکوری یا دی ہسٹری اور دی سائنس چینل جیسے عالمی چینلز پر بلایا جاتا ہے۔ وہاں ان کے خیالات اور سائنسی و علمی گفتگو کو سننے والے لوگوں کی تعداد کروڑوں میں ہوتی ہے۔ مشیو کاکو بیس سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی کچھ مشہور کتابیں یہ ہیں:
Beyond Einstein، Hyperspace، Introduction to superstrings، Visions، Einstein's Cosmos، Quantum Supremacy، A Journey Through the Tenth Dimension ، Physics of the Future، Parallel Worlds اور The God Equation ۔ قارئین کرام! ان کتابوں کے نام پڑھنے سے ہی یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ مشیو کاکو بہت ساری کائناتوں کے وجود کے قائل ہیں اور جو ان کی آخری اور Latest کتاب آئی ہے‘ اس میں وہ تمام کائناتوں اور ہر کائنات میں موجود دنیاؤں کے خالق کو ماننے کا اعلان کرتے ہیں اور ایک خالق کی بات کرتے ہیں۔
سٹیفن ہاکنگ نے کائنات کے خالق کے وجود پر شک کا اظہار اس طرح کیا تھا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ یہ پھیلاؤ ہمارے سامنے کی بات ہے۔ اس کے پیچھے جائیں تو اس کا ایک آغاز ہے۔ مزید پیچھے جائیں تو ساری کائنات ایک نکتے میں بند تھی۔ نہ وہاں ٹائم تھا اور نہ ہی خلا (Space) تھی۔ دھماکہ یعنی بگ بینگ ہوا اور ٹائم پیدا ہوا۔ اسی ٹائم میں کائنات کی پیدائش ہوئی۔ خدا (God) کے پاس ذرا بھی ٹائم نہ تھا کہ وہ کائنات کو بنا سکے کیونکہ کائنات بنانے کے ساتھ ہی وقت نے جنم لیا۔ اس سے پہلے وقت کا وجود تھا نہیں۔ جب وقت نہ تھا تو خدا نے کیسے کائنات بنا ڈالی‘ لہٰذا یہ بات کہ خدا نے کائنات کو بنایا یہ کہنا ٹھیک نہ ہوگا۔ دنیا کا ایک بڑا سائنسدان خدا کے وجود پر اس لیے اعتراض اٹھا رہا ہے کہ وہ خدا کو بھی عقل کی کسوٹی پر پرکھ رہا ہے۔ اب اس کا جواب دیا گیا ہے۔ جی ہاں! سٹیفن ہاکنگ کے برعکس مشیو کاکو نے کہا کہ ہاکنگ کی دلیل بالکل غلط ہے۔ تمام سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ بگ بینگ اور بلیک ہول کی کیلکولیشن یعنی حساب کتاب کرتے ہوئے یکتائی، واحدانیت یعنی توحید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس بات کا ادراک آئن سٹائن کو بھی تھا؛ چنانچہ انہوں نے اپنی زندگی کے 30سال اس کی تلاش میں گزارے کہ کوئی ایسی حقیقت سامنے آئے کہ جس سے زمان و مکان کے ہر حصے کی وضاحت ہو سکے۔ اسے انہوں نے ''تھیوری آف ایوری تھنگ‘‘ کا نام دیا۔ مشیو کاکو نے ایک خالق کو ماننے کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ کائنات ایک بہت بڑے بلبلے کی طرح ہے۔ یہ آواز سے وجود میں آئی ہے۔ ایسے بلبلے یعنی کائناتیں بے شمار ہیں۔ یہ آواز سنتے رہتے ہیں اور پھٹتے رہتے ہیں۔ ہر بلبلے میں ایک کائنات ہے۔ ہر کائنات کی اپنی فزکس ہے۔ دیگر کائناتوں کے فطری قوانین ہمارے جیسے نہیں بلکہ مختلف ہیں۔ ہر کائنات کی بیالوجی بھی ایک نہیں ہے۔ بے شمار کائناتیں ہماری کائنات سے عمر میں بڑی ہیں اور یقینا ہم سے چھوٹی بھی بہت ہوں گی۔ یہ سب اپنے اپنے بگ بینگ سے شروع ہوئیں (ہر ایک کا بگ بینگ بھی منفرد ہوگا)۔ ہر بگ بینگ میں ٹائم اور سپیس‘ دونوں موجود ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ خدا کے پاس وقت کی عدم دستیابی تھی‘ یہ بات بالکل غلط ہے۔ خالق کے پاس کسی بھی شئے کی کوئی کمی نہیں۔
کاکو نے مزید کہا کہ جومیں کہہ رہا ہوں اسے ٹیسٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے خلا میں آلات بھیجے جا رہے ہیں جو نقلی لہروں کو جانچیں گے کہ کیایہ لہریں ہمارے بگ بینگ سے آ رہی ہیں یا کسی دوسری کائنات کے بگ بینگ سے آ رہی ہیں کیونکہ ہمارے بگ بینگ کی لہریں ہمارے سپیس ٹائم میں آج بھی موجود ہیں‘ ہم ان کو حاصل اور چیک کر چکے ہیں۔ ہم Gravitational Detectors بنا چکے ہیں جو ہمارے ہمسایے میں موجود کائناتوں کے بگ بینگ سگنلز کو بھی حاصل کر لیں گے۔ یہ اگرچہ کمزور ہوں گے مگر ہم نئے آلات کے ذریعے ان کو حاصل کر لیں گے۔
قارئین کرام! وہ ساری باتیں جو حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہونے والا قرآنِ مجید بتاتا ہے‘ آج کا سب سے بڑا سائنسدان وہی باتیں کر رہا ہے کہ ایک خالق نے یہ کائنات بنائی ہے۔ آواز سے کائنات بنائی ہے یعنی 'کُنْ‘‘ کی آواز سے کائنات وجود میں آئی ہے۔ جس طرح ایک کائنات کی تمام مخلوقات ایک دوسرے کے ساتھ نتھی ہیں یعنی محتاج ہیں اسی طرح تمام کائناتوں کے ''کُن‘‘ کی آواز بھی ہر کائنات میں موجود ہے۔ یہ Detect ہو سکے تو مزید انکشاف ہوگا کہ سب کائناتیں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ سب باہم متعلق ہیں اور سب کا خالق ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں ایک کائنات میں موجود نعمتوں کا قدرے تفصیلی ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
''کیا ہم پہلی تخلیق وجود میں لا کر تھک گئے ہیں (ہرگز نہیں!) بلکہ یہ لوگ نئی تخلیق سے متعلق شک شبہے میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔ (ق:15)
جی ہاں! ہمارے حضورﷺ پر جو آخری کتاب نازل ہوئی اس نے واضح کر دیا کہ ''ایوری تھنگ تھیوری‘‘ ایک خالق کو ماننے سے ہی مکمل ہوتی ہے اور یہ کہ اللہ کے ہاں تھکاوٹ یا وقت کی عدم دستیابی کا تصور غیر علمی اور غیر سائنسی ہے۔ یہاں تو ہر دم نہ جانے کتنی کائناتیں ''کُن‘‘ کے بعد ''فیکون‘‘ کی شکل اختیار کر رہی ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں
صدقے قربان حضور کریمﷺ پر اور آپﷺ پر نازل ہونے والی آخری آسمانی کتاب پر۔