اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآنِ مجید کے بعد اللہ کے آخری رسول حضور کریمﷺ کی احادیث مبارکہ پر مشتمل جو صحیح ترین کتاب سمجھی جاتی ہے وہ ''صحیح بخاری‘‘ ہے۔ اس میں ایک حدیث شریف ہے جسے آج ہم بیان کرنے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے آج کے جو گمبھیر معاشی مسائل ہیں‘ اس حدیث پاک میں اس کا حل موجود ہے۔ چاہتا ہوں کہ پہلے اس حدیث مبارک کا پس منظر بیان کر دوں تاکہ حدیث شریف پڑھنے کا لطف اور اس کی لذت دوبالا ہو جائے۔ سعودی عرب کا ایک صوبہ ہے جسے آج کل ''الاحساء‘‘ کہا جاتا ہے۔ پرانے وقتوں میں اس کا نام ''بحرین‘‘ ہوا کرتا تھا جو خلیج عرب کے ساحل پر واقع ہے۔ اس کا ساحل 133 کلو میٹر طویل ہے۔ اس ساحل کے سامنے ''بحرین‘‘ نام کا ایک جزیرہ ہے جو اب ایک آزاد عرب مملکت ہے۔ تب یعنی اللہ کے آخری رسولﷺ کے زمانے میں ''الاحساء‘‘ یعنی بحرین کے حاکم کا نام منذر بن ساوی التمیمی تھا۔ اللہ کے رسولﷺ نے صلح حدیبیہ کے واقعے کے بعد بحرین کے حاکم کو خط لکھا اور اسلام کی دعوت دی۔ منذر بن ساوی مسلمان ہو گئے۔ اس خطے میں یہاں ایک شہر ہوا کرتا تھا جس کا نام جواثی تھا۔ امام بخاریؒ اپنی صحیح بخاری میں یہ حدیث شریف لائے ہیں کہ مدینہ منورہ سے باہر جو پہلی مسجد تھی وہ ''حواثی‘‘ میں تعمیر ہوئی تھی۔ بحرین یعنی ''الاحساء‘‘ کی ریاست قدیم زمانے سے ہی پانی سے مالا مال ہے۔ اس کی ریتلی اور غیر ریتلی زمین کے نیچے انتہائی مضبوط چٹانیں ہیں۔ زمینی سطح اور ان چٹانوں کے درمیان بارش کا پانی لمبے عرصے تک محفوظ ہو جاتا تھا۔ اس سے کنویں نکلتے تھے۔ چشمے بہتے تھے اور بحرین کی سرزمین سیراب ہوتی چلی جاتی تھی۔ لہٰذا آبپاشی کی وجہ سے زراعت خوب ہوتی تھی۔ کھجوروں کے درخت بھی یہاں بے شمار تھے۔ شام، فارس، حجاز، عراق اور ہندوستان کے لوگ یہاں تجارت کے لیے آتے تھے۔ سمندری اور خشکی کے راستے یہاں سے نکلتے تھے۔ یہ علاقہ سارے عرب میں امیر ترین علاقہ تھا۔ یہاں پر دولت‘ سونا اور چاندی بھی بکثرت تھی۔ یہاں کا ایک شہر ''حجر‘‘ ہوا کرتا تھا۔ اسے قبل مسیح میں عراق کے شہر بابل سے آئے ہوئے کلدانیوں نے آباد کیا تھا۔ یہاں قدرے نمکین مگر سفید رنگ کے پتھر بکثرت تھے جن سے انہوں نے اپنے گھر بنائے تھے‘ اسی لیے اس شہر کو ''حجر‘‘ (پتھر) کہا جاتا تھا۔ دو چشمی ھ سے اسے ''ھجر‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔
اللہ کے رسولﷺ جب معراج پر تشریف لے کر گئے تھے تو ''سدرۃ المنتہیٰ‘‘ کے مقام کا نقشہ آپﷺ نے یوں بیان فرمایا تھا ''پھر ''سدرۃ المنتہیٰ‘‘ میرے سامنے ظاہر کی گئی تو میں نے دیکھا اس کے جو بیر (پھل) تھے وہ ہجر شہر کے مٹکوں کی طرح تھے اور اس کے پتے ہاتھیوں کے کانوں کی طرح تھے‘‘ (بخاری:3887)۔ جی ہاں! ھجر یا حجر شہر کے مٹکے کافی بڑے ہوتے تھے جن میں لوگ پانی پیتے تھے‘ حضور کریمﷺ نے انہی کا ذکر فرمایا تھا۔ آج بھی سعودی عرب کے اس صوبے میں کھجوروں کے باغات ہیں۔ یہاں لگ بھگ 30لاکھ کھجوروں کے درخت ہیں اور ان کی سالانہ پیداوار ایک لاکھ ٹن کے قریب ہے۔ سعودی عرب کو سب سے زیادہ تیل اسی علاقے سے ملتا ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں سے زکوٰۃ و صدقات کا مال وصول کرنے کے لئے اللہ کے رسولﷺ نے اپنے صحابی ''حضرت علاء حضرمیؓ‘‘ کو بھیجا تھا۔ اس امیر ترین علاقے سے جو مال جمع ہو کر مدینہ منورہ میں آیا‘ اس کے بارے میں حدیث شریف ملاحظہ ہو:
حضرت انس بن مالکؓ بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں بحرین سے مال آیا (صحابہ کرامؓ نے حضورﷺ سے پوچھا کہ اسے کہاں اتاریں؟) آپﷺ نے فرمایا: اسے مسجد میں (ڈھیریاں لگا کر) پھیلا دو۔ مختلف علاقوں سے جو اموال آتے تھے‘ مذکورہ مال ان میں سب سے زیادہ تھا جو حضورﷺ کی خدمت میں لایا گیا تھا۔ اس وقت نماز کا وقت ہو گیا تو حضورﷺ نماز کے لیے نکلے تو مال کی طرف نظر اٹھا کر بھی دیکھا نہیں۔ (جائے نماز پر امامت کے لیے تشریف فرما ہو گئے) جب نماز پڑھا لی تو لوگوں کی جانب رخِ انور کیا۔ لوگ آپﷺ کے سامنے آتے گئے اور آپﷺ سب کو عطا فرماتے گئے۔ اتنے میں حضرت عباسؓ بھی آ گئے اور عرض کرنے لگے: اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے بھی عنایت فرمائیں (جب میں بدر میں قیدی بن گیا تھا) تو رہائی کے لیے اپنا بھی فدیہ دیا تھا اور (اپنے بھتیجے) عقیلؓ کا فدیہ بھی دیا تھا (جو حضرت ابو طالب کے بیٹے تھے) حضور کریمﷺ نے فرمایا ''لے لو!‘‘۔ اب انہوں نے دونوں ہاتھوں سے مال سمیٹ کر اک چادر میں ڈال لیا۔ جب وہ اسے اٹھانے لگے تو اٹھا نہ سکے۔ (کیونکہ وزن زیادہ تھا) اس پر عرض گزار ہوئے: اے اللہ کے رسولﷺ! کسی کوحکم دیں کہ وہ یہ چادر مجھے اٹھوا دے۔ آپﷺ نے فرمایا: نہیں! حضرت عباسؓ کہنے لگے: آپﷺ ہی اس گانٹھ کو اٹھا کر مجھ پر رکھ دیں۔ آپﷺ نے فرمایا ''نہیں‘‘۔ اب حضرت عباسؓ نے اس مال میں سے کچھ نکال دیا اور اسے دوبارہ اٹھانے کی کوشش کرنے لگے (مگر وہ نہیں اٹھایا گیا) اس پر وہ حضورﷺ سے دوبارہ عرض گزار ہوئے کہ کسی کو حکم دیں جو یہ چادر مجھے اٹھوا دے۔ فرمایا: نہیں! گزارش کی: آپﷺ ہی اٹھوا دیں۔ فرمایا ''نہیں‘‘۔ اب حضرت عباسؓ نے دوبارہ اس میں سے کچھ سامان نکال دیا اور چادر کو اٹھا کر اپنے کندھوں پر ڈال لیا اور چل پڑے۔ اب اللہ کے رسولﷺ انہیں جاتے ہوئے مسلسل اس وقت تک دیکھتے رہے جب تک کہ وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئے۔ حضورﷺ ان کو تعجب کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ پھر وہاں کا منظر ایسا تھا کہ حضورﷺ نہیں اٹھے جب تک کہ ایک درہم بھی باقی تھا‘‘۔ (صحیح بخاری:421)
قارئین کرام! سرزمین حرمین کے حکمران سرکارِ طیبہ و طابہ حضور کریمﷺ نے کمال کردیا کہ اپنے سگے چچا کا بھی کوئی لحاظ نہیں کیا کہ یہ مسلمانوں کا مال ہے۔ واضح رہے کہ درہم چاندی کا سکہ ہوتا ہے اور دینار سونے کا سکہ ہوتا ہے۔ اس مال میں درہم کے بھی ڈھیر تھے اور دینار کے بھی ڈھیر تھے۔ جو آتا تھا‘ اپنی جیسی ضرورت پیش کرتا تھا‘ اس کے مطابق بلکہ اس سے زائد ہی اسے ملتا تھا۔ حضرت عباسؓ نے ڈبل اخراجات کی بات کی۔ ضرورت تیسرا درجہ حاصل کر گئی تو حضورﷺ نے ان کی مانگ کے مطابق فیصلہ دیا کہ اٹھا لو مگر اس اٹھانے میں نہ کسی کو ہاتھ بٹانے دیا اور نہ خود ہی ہاتھ بڑھایا کہ یہ سامان اٹھانے میں ان کی کچھ مدد ہو جائے۔ یہ ایک مثال تھی جو حلال مال کی تھی۔ ریاستِ مدینہ کے حاکم خود اس مال کو تقسیم فرما رہے تھے، اس کے باوجود جب آپﷺ کے چچا کا معاملہ آیا تو آپﷺ نے ان کی مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ اس لیے انکار کر دیا کہ یہ مال وبال نہ بن جائے۔ کثرتِ مال اور مال و دولت کو گن گن کر رکھنے کی شریعت نے ممانعت فرمائی ہے۔ ہمارے پیارے حضورﷺ جو ہر چھوٹے بڑے‘ مالک و غلام کی مدد کیا کرتے تھے‘ مال اٹھانے کے معاملے میں اپنے چچا کو دراصل یہ تلقین کر رہے تھے کہ صرف اتنا مال اٹھائیں جتناآسانی سے اٹھا سکیں۔جو اگلے جہان میں انسان کے لیے وبال نہ بنے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ ایک طرف یہ حلال مال اور اس پر اس قدر احتیاط اور دوسری طرف میرے دیس کے حکمران‘ یہاں کی اشرافیہ‘ جی ہاں! اس پاکستان کے حکمران جو ''لا الٰہ الا اللہ‘‘ کے پاک اور مبارک کلمے پر بنا تھا‘ وہ اس ملک کے مال کو لوٹتے ہیں‘ مال بھی وہ جو سودی قرض پر حاصل کیا گیا ہوتا ہے۔ اس قرض کو ملک کے 23‘ 24کروڑ مردوں، عورتوں، بوڑھوں، بچوں، یتیموں، بیواؤں، معذوروں، نابیناؤں، ہسپتالوں میں تڑپتے بے بسوں نے ٹیکسز دے کر سود سمیت اتارنا ہوتا ہے۔ یہ حکمران اور اشرافیہ نامی مخلوق‘ چند دیانتداروں کے استثنا کے ساتھ‘ سود پر لیے گئے اس مال کو اجاڑتی ہے۔ ہر سڑک اور سرکاری تعمیرات کے ٹھیکوں میں اچھا خاصا کمیشن پہلے ہی رکھ لیا جاتا ہے۔ باقی بے شمار مدات کا بھی یہی حال ہے۔ رشتہ داروں اور دوستوں کو نوازنے کا الگ معاملہ ہوتا ہے۔ ڈالروں کی گانٹھوں کی گانٹھیں باہر جا چکی اور جا رہی ہیں۔ ہاتھ ڈلوانے والے ہاتھ ڈال رہے ہیں۔ اس کارِ بد میں سہولت کاروں کی سہولت کاری زوروں پر ہے۔ معاشی دہشت گردی کے بھوت نے کرپشن کا ایسا شیطانی جال بُن دیا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ اس کا علاج ایک ہی ہے کہ جس نے ریاستی ذمہ داری سے فائدہ اٹھا کر مال اس قدر بنا لیا ہے کہ وہ اس کے معاشی وجود سے کہیں زیادہ ہے‘ تو اس زائد مال کو ریاست واپس حاصل کرے۔ اسے وصول کرے مگر وصول کرنے والے حکمران اور اہم پوسٹوں پر تعینات افسر ایسے ہوں کہ جو خود دیانتدار ہوں، انہوں نے زندگی بھر ناجائز مال اٹھانے میں نہ تو اپنا ہاتھ ڈالا ہو اور نہ ہی کسی کے ساتھ ہاتھ ڈلوایا ہو۔ یقینا میرے دیس میں ایسے لوگ موجود ہیں۔ اقتدار ان کی خواہش نہیں ہے۔ ترلا منّت کر کے اقتدار ان کے حوالے ہو‘ تبھی ہمارا مسئلہ حل ہوگا۔
صدقے قربان جاؤں مدینہ کی سرکار‘ حضور عالی شانﷺ پر کہ آپﷺ مسجد میں تشریف لائے تو مال کی طرف دیکھا تک نہیں۔ اپنے اللہ کے حضور کھڑے ہو گئے۔ اپنے عمل سے اپنے پیروکاروں کو سبق دے گئے اور ا پنے سگے چچا جان کو 'لا، لا اور لا‘ کہتے ہوئے انکار، انکار اور انکار کرتے چلے گئے۔ نفی فرماتے چلے گئے اور اس وقت تک اپنی نشست پر جلوہ افروز رہے جب تک آخری درہم بھی تقسیم نہ کر دیا۔ آخر میں آپﷺ نے اپنے دستِ مبارک جھاڑے اور حجرئہ عائشہؓ میں تشریف لے گئے۔ آخر پر اپنے رب کریم سے دعا ہے کہ اے مولا کریم! حکمرانوں کے دلوں میں حقیقی ترس اور اپنے پیارے حبیبﷺ کی امت کے بارے رحم پیدا فرما دے۔ قبر کی اندھیری رات کا خوف پیدا کر دے تاکہ ملتِ اسلامیہ پاکستان کے دن بدل جائیں، آمین!