اللہ رحمان سے ملاقات کے لیے وہ بے حد بے تاب ہو گئے تھے۔ مولا کریم کے حضور عرض گزار ہوئے: میرے رب کریم! میں آپ کے پاس آنے کو مکمل طور پر تیار ہوں‘ اب تاخیر ہے تو آپ کی طرف سے ہے۔ آج سے کوئی پندرہ سال قبل یہ الفاظ تھے ایک ایسی شخصیت کے جو کتاب و سنت کے علم کا ایک بہتا ہوا دریا تھا۔ وطنِ عزیز پاکستان میں اور بیرونی ملکوں میں ان کے سفر کافی زیادہ تھے۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں ان کی آمد و رفت بہت زیادہ تھی۔ برطانیہ سمیت یورپ کے ملکوں میں بھی ان کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ مشرقِ بعید کے ملکوں میں بھی وہ محوِ سفر رہا کرتے تھے۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ عبداللہ بن عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ کے دفتر سے ان کو ماہانہ مشاہرہ ملتا تھا۔ وہ بلند قامت تھے‘ جسم بھرا ہوا تھا‘ سرخ و سفید رنگ تھا۔ چہرے پر وجاہت اور جلال تھا اور اخلاق انتہائی باکمال تھا۔ صحابہ کرام اور صحابیات کی زندگیوں پر انہوں نے درجنوں کتابیں لکھیں۔ یہ کتابیں تمام مکاتبِ فکر کی لائبریریوں کی زینت بنیں اور علماء کرام کے خطباتِ جمعہ کی پراثر تاثیر بن گئیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ رائلٹی کی رقم یہاں سے بھی معقول تھی۔ وہ مسجد میں خطیب تھے اور مدرسے میں استاذ بھی تھے۔
لاہور میں علامہ اقبال ٹاؤن کی ہاؤسنگ سکیم جب آباد ہونا شروع ہوئی تو انہوں نے یہاں ایک گھر بھی بنا لیا تھا۔ سب سے بڑی نعمت یعنی اللہ کے دین کی نعمت تو ان کے پاس تھی ہی‘ دنیا کی نعمتوں کی بھی کوئی کمی نہ تھی۔ وہ چاہتے تو مال و دولت کے ڈھیر جمع کر لیتے مگر اس سب کچھ کے برعکس ایسا ہوا کہ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے پاس رہنے کو ایک انچ زمین بھی نہ تھی۔ بینک میں کوئی ان کا اکاؤنٹ نہ تھا۔ وہ مقروض تھے۔ انہوں نے یہ قرضہ اپنی ذات یا اپنی اولاد کے لیے نہ لیا تھا‘ اپنے رب کے گھر کی خاطر لیا تھا۔ وہ قرضہ تقریباً اتر چکا تھا اور اب ان کے رب کریم نے انہیں اپنے پاس بلا لیا تھا۔
چار روز قبل میرا ''پیغامِ رسالتِ مصطفیﷺ‘‘ کانفرنس کے سلسلے میں بوریوالہ کے نواحی قصبے ماچھیوال کے ایک نواحی گاؤں میں جانا ہوا۔ وہاں جا کر مجھے علم ہوا کہ یہ گاؤں مولانا محمود احمد غضنفر رحمہ اللہ کا سسرالی گاؤں ہے۔ جی ہاں! جس شخصیت پر آج میں قلم اٹھا رہا ہوں‘ یہ میرے استاذ گرامی حضرت محمود احمد غضنفر اللہ رحمہ اللہ ہیں۔کانفرنس میں تقریر سے قبل ان کے اخروی سفر کا تذکرہ شروع ہو چکا تھا۔ ان کے اکلوتے اور چھ بیٹیوں سے چھوٹے بیٹے ضیاء الرحمن مجھے اپنے والد اور میرے استاذِ محترم کے آخری لمحات کے بارے میں بتا رہے تھے۔ بتایا کہ حضرت استاذِ گرامی یہیں سے اپنے اللہ تعالیٰ کے پاس گئے تھے۔ جب انہوں نے اپنی تیاری کی التجا کی تو چند ہی دنوں بعد اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے انہیں لینے آ گئے تھے۔ انہوں نے کلمہ شہادت پڑھنا شروع کر دیا۔ وہ کلمہ شریف پڑھتے چلے گئے اور آواز آہستہ ہوتی چلی گئی۔ انہوں نے اپنے فانی اور ترابی جسم کو ایسے چھوڑا کہ ان کے جانے کا پتا ہی نہ چلا۔ روح نے پرواز کی تو مکمل سکوت اور جسمانی جمود طاری تھا۔ بس حرکت تھی تو صرف اس قدر کہ ان کے دائیں ہاتھ کی مٹھی بند تھی اور شہادت کی انگلی کھلی ہوئی تھی۔ زبان پر شہادت کا کلمہ ''اشہد ان لا الہ الا اللہ‘‘ تھا، ساتھ انگشتِ شہادت کی عملی گواہی تھی۔
احباب کی موجودگی میں ضیاء الرحمن بتا رہے تھے کہ ابّا جی کا سارا وجود انتہائی نرم تھا۔ ان کا دائیاں بازو سینے پر تھا۔ انگشتِ شہادت دل پر تھی۔ ہم نے بازو سیدھا کرنا چاہا تو وہ سخت پایا‘ وہ سیدھا نہیں ہوا۔ ہاتھ کی انگلیاں کھولنے کی کوشش کی تو وہ بھی نہیں کھلیں؛ چنانچہ سب نے رائے دی کہ حضرت مولانا کا بازو سینے پر ہی رہنے دو‘ انگشتِ شہادت کو کھلا اور ہاتھ کی باقی انگلیوں کو بند رہنے دو۔ اللہ‘ اللہ! حضور کریمﷺ کے فرمان کے مطابق‘ جو شخص جس حال میں فوت ہوگا قیامت کے دن اسی حال میں اٹھے گا۔ صحیح بخاری میں ایک روایت ہے کہ ایک شخص احرام باندھے ہوئے‘ لبیک کا ترانہ پڑھ رہا تھا اور اسی حالت میں اپنی سواری سے گرا اور فوت ہو گیا۔ اس پر ہمارے رسول کریمﷺ نے فرمایا: یہ قیامت کے دن اسی طرح لبیک کہتا ہوا اٹھے گا۔
مولانا محمود غضنفر رحمہ اللہ نے اپنی زندگی میں پانچ مساجد بنوائیں۔ اس کے لیے انہوں نے علامہ اقبال ٹاؤن والا اپنا گھربھی بیچ دیا اور جو کچھ بنایا تھا وہ مساجد کی تعمیر میں لگاتے رہے۔ وہ مسجد کے حجروں میں ہی رہائش رکھتے رہے۔ آخری مسجد انہوں نے لاہور کے علاقے اعوان ٹائون میں بنائی۔ مسجد بناتے ہوئے ان پر قرضہ چڑھ گیا۔ مسجد کے بالا خانے پر ایک جانب ان کی رہائش تھی اور دوسری جانب خواتین کی مسجد تھی۔ خواتین کے احاطے کی جانب جو سیڑھیاں تھیں وہ ماربل کی شاندار سیڑھیاں تھیں اور جو سیڑھیاں ان کے گھر کو چڑھتی تھیں وہ ماربل کے بغیر تھیں۔ بڑھاپا سر پر آ گیا تھا‘ چھ بیٹیوں کی شادیاں ہو چکی تھیں۔ بیٹے ضیاء الرحمن کی شادی بھی ہو چکی تھی اور وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ بحرین میں مقیم تھا۔ اب مولانا نے سوچا کہ میں سب ذمہ داریوں سے فارغ ہو گیا ہوں۔ میں نے اپنے لیے جنت میں پانچ محلات بھی بنا لیے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو بحرین سے بلوایا ا ور کہا: بیٹا! مجھے معاف کر دینا‘ میں نے تمہارے لیے کوئی جائیداد نہیں چھوڑی، کوئی مکان نہیں چھوڑا۔ محلات بنا دیے ہیں؛ البتہ فردوس میں بنا ئے ہیں (ان شاء اللہ)۔
آخری مسجد کی تعمیر کے لیے انہوں نے جو قرضہ لیا تھا‘ وہ ان کے سر پر تھا۔ یہی قرضہ اتارنے کے لیے انہوں نے مجھے بلوایا اور فرمایا: آپ یہ مسجد اپنی جماعت کے لیے رکھ لیں مگر ا س کا قرضہ اتار دیں‘ میں یہاں سے چلا جاتا ہوں۔ میں نے پروفیسر حافظ محمد سعید سے بات کی۔ ان کا قرض ادا کردیا گیا۔ میں استاذِ محترم حضرت محمود احمد غضنفر کی خدمت میں عرض گزار ہوا کہ آپ یہ گھر نہ چھوڑیں‘ اس کو اپنے پاس رکھ لیں مگر وہ نہ مانے۔ دنیا کے لالچوں سے آزاد یہ تھے جنت کے بادشاہ!محمود بادشاہ (ان شاء اللہ)۔
وہ کچھ عرصہ صاحبِ فراش بھی رہے مگر کسی اور گھرمیں۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کو دبانے لگ گیا۔ جو ہو سکا‘ ان کی خدمت کی۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ فرمانے لگے: مجھے آپ جیسے شاگرد پر فخر ہے۔ انہوں نے دعا دی کہ اللہ تعالیٰ آپ سے دین کا کام مزید لے۔ ان کے صاحبزادے ضیاء الرحمن اب اپنی والدہ کے ساتھ بوریوالہ میں کرائے کے ایک مکان میں رہائش پذیر ہیں۔ دس مرلے کا ایک پلاٹ انہوں نے لیا ہے اور کسی دن ذاتی گھر بھی بن جائے گا مگر انہیں اپنے عظیم بابا کے کردار پر فخر ہے۔ شکوہ نہیں‘ بلکہ وہ فخر کا اظہار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان شاء اللہ ابو جی کے پانچ عدد محلات میں سے ہم بھی کچھ حصہ لے لیں گے‘ جنت میں ان سے اپنی وراثت لے لیں گے، ان شاء اللہ!
لوگو! رمضان المبارک کا چاند طلوع ہونے والا ہے۔ جب یہ پیدا ہوتا‘ جنم لیتا ہے تو کمان کی صورت میں ہوتا ہے اور پھر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آگاہ کیا ہے۔ سورئہ یونس کے آغاز میں اور دیگر مقامات پر آگاہ کیا ہے کہ اس چاند کی منزلیں ہیں یعنی یہ زندگی کا سفر شروع کر دیتا ہے۔ یہ بچپن سے لڑکپن اور جوانی کی منزل میں داخل ہوتا ہے۔ چودھویں کا چاند ''بدر‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کی روشنی تاروں کی روشنی کو ماند کر دیتی ہے۔ اس کے بعد اس کا سفر الٹی سمت میں شروع ہو جاتا ہے۔ منزلیں زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ بڑھتے بڑھتے روشنی ماند پڑنا شروع ہو جاتی ہے اور سائز گھٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ آخر کار وہی کمان کی شکل بنتی ہے اور پھر چاند غائب ہو جاتا ہے؛ یعنی موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ ہر مہینے چاند کا یہ سفر انسان کو یاد کراتا ہے کہ اے انسان! جب تو اپنی ماں کے شکم میں تھا تو اسی کمان کی شکل میں تھا۔ پیدا ہوا تو ماں کی گود میں اسی کمان کی شکل میں خوراک حاصل کرتا تھا۔ پھر جوان ہوا۔ بھرپور جوانی میں تیرے سامنے بچے اور بوڑھے سب ماند تھے۔ پھر آہستہ آہستہ تیرے جسم نے گھٹنا شروع کر دیا۔ کمر جھک گئی اور اسی کمان کی سی صورت میں تُو زمین پر چلنے لگ گیا اور پھر ایک دن زندگی کا چراغ ایسا بجھا کہ قبر کے اندھیرے میں جا چھپا۔
لوگو! اب نور ہے تو نیک اعمال کا۔ دولت اور محلات ہیں تو نیک اعمال سے ممکن ہیں۔ میرے استاذِ گرامی کی زندگی اور ان کا آخری وقت ایک ایسا آئینہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اخروی کامرانی کی ایک جھلک آخری سفر پر روانگی کے وقت دکھلا دی۔ ہمارا اپنے اللہ سے گمان ہے کہ وہ کامران ہیں‘ ان شاء اللہ۔ آئیے! ہم بھی کچھ ایسا ہی بن جائیں۔