نیا خیال

معلوم نہیں ’’موسیقی رُوح کی غذا ہے‘‘ والا جملہ کس نے ایجاد کیا اور یہ کس حد تک درست ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج کل کی بے ہنگم موسیقی سُن کر روح تروتازہ ہونے کے بجائے نیم مردہ ہو جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اصل کمال کسی آواز، کلام اور ساز میں نہیں بلکہ اُن سب کے خاص توازن اور ردھم میں پوشیدہ ہے۔ بعض اوقات معمولی کلام کو اِس انداز سے گایا جاتا ہے کہ سُننے والوں کے دل انبساط سے معمور ہو جاتے ہیں۔ شاید کچھ کمال مخصوص لمحوں کا بھی ہے۔ کسی خاص لمحے، وقت کے کسی مخصوص دورانیے میں روح کی فریکوینسی اور سُنی جانے والی آواز کا ردھم ایک ہی لیول پر آ جاتے ہیں۔ ایسے لمحے، ایسی محفلیں ذہن کے نہاں خانوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتی ہیں۔ رات کسی صحرا میں بسر کرنی پڑے۔ خُنک رات، تاروں بھرا چمک دار آسمان، الائو میں سلگتی لکڑیوں کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے دوستوں کی تُک بندی سُننا بھی اعلیٰ ترین کلام سے کم نہیں لگتا۔ بہت سال گزر گئے، پہاڑوں کے دامن میں ایک بستی میں رات گئے پٹھانے خان کو سننے کا موقع ملا۔ پٹھانے خان کی گائی ہوئی کافیاں ہم میں سے بہت سوں نے سُن رکھی ہوں گی۔ سرائیکی تو بوڑھے خان کو سروں کا دیوتا مانتے ہیں کہ اُنہوں نے خواجہ کے کلام کو امر کر دیا۔ وہی خواجہ غلام فرید جسے سرائیکی پیار سے فریدن سائیں کہتے ہیں۔ اُس رات پٹھانے خان موڈ میں تھے۔ اپنی لازوال کافیاں سناتے سناتے وہ چند لمحوں کیلئے رکے اور پھر کہا: ’’میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ پہاڑ بھی کلام کرتے ہیں، اگر غور کریں تو ان کی لے آپ بھی سُن سکتے ہیں‘‘ پھر یہ ہوا کہ جگمگاتی چاندنی رات میں ’’میڈا عشق وی تُوں، میڈا یار وی توں…‘‘ سُنتے سُنتے ہمیں سچ مچ یہی لگا جیسے پہاڑ اور شجر بھی کلام کر رہے ہیں۔ اُن لمحوں کے طلسم سے آج تک نہیں نکل سکا۔ بات رُوح کی غذا سے شروع ہوئی تھی۔ جس طرح جسم کو غذا کی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح ذہن کو بھی غذا چاہیے۔ کوئی فکر افروز بات، نیا خیال، سوچنے پر مجبور کر دینے والی کتاب، خوبصورت جملہ، اچھی تحریر، اچھی گفتگو اور ذہن کو جھنجھوڑ دینے والی ٹرانس میں لے جانے والی کوئی فلم، ڈرامہ یا منظر… یہ سب ہمارے دماغ کی غذائیں ہیں۔ اسے تروتازہ اور فعال بناتی ہیں۔ بعض اوقات کوئی نئی بات سُنے، نیا خیال سوچے مدتیں گزر جاتی ہیں۔ دماغ جمود کا شکار ہو جاتاہے، کہولت جمنے لگتی ہے۔ پھر کہیں کوئی اچھی چیز پڑھنے سے یکایک دماغ پر جمی برف پگھل جاتی ہے۔ شاہکار ادب کی مختلف تعریفیں بیان کی جاتی ہیں۔ ایک یہ بھی ہے کہ وہ تحریر جو نیا خیال پیدا کرے، تحریک پیدا کرے، بعض بہت مقبول لکھاریوں کو نقّاد اور سنجیدہ قاری اس لئے رد کر دیتے ہیں کہ ان کی تحریر میںچسکا تو ہوتا ہے لیکن وہ سماج میں کوئی تحریک پیدا نہیں کرتے‘ نیا خیال، نئی سوچ کی لہر داخل نہیں کرتے۔ کچھ عرصے قبل احمد بشیر کے خطوط کا ایک مجموعہ پڑھا۔ احمد بشیر تیز دھار قلم کار اور بہت بولڈ، مُنہ پھٹ صحافی تھے۔ جنرل ضیاء کے دور میں شمشیرِ برّاں بنے رہے۔ کئی بار نوکری سے نکالے گئے، نام بدل بدل کر لکھتے رہے مگر ہمت نہ ہاری۔ اُن کے نظریہ زندگی، جدلیاتی مارکسزم پر ہمارا یقین نہیں۔ اس مادہ پرستی نے آخر عمر میں اُنہیں شدید ڈپریشن سے دوچار بھی کیا۔ احمد بشیر کی جُرأت، صاف گوئی اور کمٹمنٹ مگر قابل تحسین تھی۔ یہ خط انہوں نے کراچی میں اپنے ایک شاگرد اور مُنہ بولے بیٹے کے نام لکھے۔ ایک خط میں انہوں نے ابن صفی کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ اُس کی تحریریں سماج میں کوئی تحریک پیدا نہیں کر سکیں۔ اُن کے جاسوسی ناولوں نے چسکا تو دیا مگر نیا خیال پیدا نہیں کیا، قاری کو سوچنے پر مجبور نہیں کیا۔ میں یہ خط پڑھ کر دیر تک سوچتا رہا۔ ابن صفی کے ہم مداح ہیں۔ ان کی عمران اور کرنل فریدی سیریز سے بچپن میں آشنائی ہوئی۔ مطالعے کا ذوق پیدا ہوا۔ بعض تحریریں ابھی تک یاد ہیں مگر احمد بشیر کی بات درست ہے کہ اُن میں وہ بات نہیں جو بڑے ادیبوں کو پڑھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ اُردو میں ایسے فسوں خیز ادیب موجود ہیں۔ عینی آپا کے ناولوں کے ٹرانس میں آنے کے بعد نکلنا آسان نہیں۔ ’آگ کا دریا‘ اور اُس سے بڑھ کر ’آخر شب کے ہم سفر‘… جسے پڑھ کر آدمی ہل کر رہ جاتا ہے۔ عینی کو عالمی سطح پر وہ پذیرائی نہیں ملی جو اُن کا حق بنتی ہے۔ یہ تو خیر اُردو کے ادیبوں کا مقدر ہے۔ ہمارے کتنے ہی ادیب ایسے ہیں جن سے کم تر درجے کے ادیبوں کو نوبل انعام مل گیا۔ اُردو کے ادیب محروم رہے۔ ابنِ صفی پر تنقید کا ممکن ہے بعض لوگ بُرا بھی مان جائیں، ہمارے ہاں آج کل اُنہیں دوبارہ سے اُٹھانے کی باقاعدہ ایک مہم جاری ہے۔ بعض ادبی حلقے کچھ زیادہ ہی جوش و خروش سے ابنِ صفی پر لکھ رہے ہیں، اُنہیں اُن کا ’’مقام‘‘ دلوانے کیلئے کوشاں ہیں۔ نیت پر شکّ نہیں، مگر کسی بھی ادیب اور شاعر کے حتمی مقام کا فیصلہ وقت ہی کرتا ہے۔ ایک زمانے میں جوش کو فیض کے برابر بلکہ زیادہ ثابت کرنے کی کوشش ہوتی رہی۔ جوش صاحب کے حامی کوشش کر کے ہار گئے۔ آج سب جانتے ہیں، کون زندہ ہے اور کون غیرمتعلق ہو چکا۔ یہی حال اُردو کے بعض بڑے شاعروں اور نثر نگاروں کا رہا۔ ایسے بھی تھے جنہوں نے باقاعدہ گروہ بنائے، اپنی دانست میں دبستان تخلیق کیے، اپنے ادبی جرائد کے زور پر خود کو منواتے، دوسروں سے برتر ثابت کرتے رہے۔ آج اُن کا کوئی نام بھی نہیں لینے والا۔ کوئی اُن کا ایک مصرع بھی نقل نہیں کرتا۔ حوالہ تک نہیں دیا جاتا۔ اُنہی میں شاعر بے نوا منیر نیازی بھی تھا۔ عجب شان بے نیازی سے جینے والا۔ ہر ایک کو رد کرتا، اپنے کاٹ دار جملوں سے اُن کا خون جلاتا۔ اس کی کوئی لابی نہ تھی، کوئی جریدہ زیر اثر نہ تھا جسے استعمال کرتا۔ منیر نیازی، مگر آج بھی اُسی قوت، شدّت اور تابانی سے زندہ اور متعلق (relevent) ہے۔ یہ کلام کی قُوّت ہے جو زند ہ رکھتی ہے۔ ہر ایک کا مقام طے کرتی، آنے والی نسلوں تک اس کا ورثہ منتقل کرتی ہے۔ ایسی کئی مثالیں بھی موجود ہیں جب کسی لکھنے والے کی اُس کے زمانے نے پذیرائی نہ کی۔ وہ شکوہ کیے بنا مٹی اوڑھ کے سو لیا۔ پھر وقت نے اُس کی قبر پر چھائی گرد ہٹائی اور اُس کی تخلیقی قوت آشکار ہوئی۔ مجید امجد کو اُن کے بعد از سر نو دریافت کیا گیا۔ مجید امجدکا قرض تھا جو چکا دیا گیا۔ سیّد رفیق حسین بھی ایک ایسے ہی عجب قلم کار تھے۔ انہوں نے جنگل، جانوروں کو موضوع بنایا، چند کہانیاں لکھیں مگر ایسی قوّت اُن میں پوشیدہ ہے کہ عالمی ادب کے مقابلے میں رکھی جا سکتی ہیں۔ سیّد رفیق حسین کو بھی اُن کے جانے کے بہت بعد دریافت کیا گیا۔ آج اُن پر کام ہو رہا ہے۔ ایک بات طے ہے کہ تخلیقی قوّت جس میں ہے‘ جہاں ہے، وہ زیادہ دیر تک نہیں چھپی رہ سکتی۔ قدیم زمانوں میں شاید وسائل کی کمی آڑے آتی ہو مگر عہدِ جدید میں یہ بات زیادہ اہم نہیں رہی۔ سوشل میڈیا نے لکھاری کو نئی قوّت اور لفظ کو نئی حُرمت دی ہے۔کوئی نظم، کہانی لکھ کر سوشل میڈیا پر ڈال دی جائے‘ اُس میں کچھ دم ہو گا تو منٹوں، گھنٹوں اور دنوں میں لاکھوں تک پہنچے گی۔ بات مگر وہی کہ نیا خیال ہو، نئی بات‘ سوچنے کا نیا ڈھنگ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں