جب سسٹم مذاق بن جاتا ہے

ہمارے ایک سینئر صحافی اکثر کہا کرتے تھے کہ لکھنے والوں کو دو کام ضرور کرنے چاہئیں: طے شدہ لگے بندھے فرسودہ اصول و ضوابط کو چیلنج کرنا اور نئے سوالات اٹھانا۔ انٹیلی جنشیا کا اصل کام یہی ہے کہ ’آئوٹ آف باکس‘ سوچنا اور آگے بڑھنے کے نئے راستے کھولنا۔ ہمارے ہاں چند گھسے پٹے فقرے کلیشے بن چکے ہیں، ان ’’فرموداتِ عالیہ‘‘ کو چیلنج کرنے اور اسے مسترد کر دینے سے ہی آگے بڑھنے کے نئے راستے نکل سکتے ہیں۔ ایسے فقرے گھڑنے والے وہی ہیں جن کے مفادات اسی گلے سڑے سسٹم سے وابستہ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ’سٹیٹس کو‘ برقرار رہے اور ان کی موجیں لگی رہیں۔ اس مقصد کے لیے چند رٹے رٹائے فقروں کا سہارا لیا جاتا اور اُنہیں اس قدر زیادہ پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی اسے چیلنج نہ کر سکے۔ ایسے اقوالِ زرّیں میں سے چند ایک یوں ہیں: سیاست میں کوئی مستقل دوست، دشمن نہیں ہوتا۔ احتساب کا حق صرف عوام کو حاصل ہے۔ جمہوری سسٹم پر کرپشن کے الزامات سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، سسٹم چلتا رہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ایک اور دلچسپ قول سیاسی جماعتوں کے پے رول پر موجود بعض لکھنے والوں نے ایجاد کیا ہے کہ غیرجانبداری کا کوئی وجود نہیں۔ دنیا میں کوئی بھی سوچنے سمجھنے والا شخص غیرجانبدار نہیں ہو سکتا، وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے بعض باتیں بے وزن نہیں مگر ہمارے ہاں ان کا استعمال بدنیتی سے کیا جاتا ہے جیسے یہ بات اصولی طور پر درست ہے کہ مکمل طور پر غیرجانبدار کوئی شخص نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے سمجھ بوجھ رکھنے والا ہر آدمی کسی نہ کسی چیز کے بارے میں کوئی مثبت یا منفی رائے رکھتا ہو گا؛ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس فقرے کا استعمال بدترین جانبداری کے حق میں دلیل کے طور پر کیا جاتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ کسی لکھنے والے کو حق ہے کہ وہ کسی بھی نظریے یا جماعت کے حق میں لکھے مگر صحافیانہ دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ جب وہ جماعت یا تنظیم غلطی کرے تو اس پر گرفت بھی کی جائے۔ غیرجانبداری کا مطلب بھی یہی ہے کہ آپ اس جماعت کے ترجمان نہیں، اپنی آزادانہ رائے رکھتے ہیں۔ جو بات اچھی لگے، اس پر تعریف، جو غلط ہے، اس پر تنقید۔ جن لوگوں میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ وہ اپنی حامی جماعت کی بڑی سے بڑی غلطی پر اس کے خلاف ایک فقرہ بھی لکھ سکیں، پارٹی قائد پر تنقید کر سکیں، ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ باضابطہ طور پر ترجمانی سنبھال لیں، اپنی جانبداری کو پُرکشش الفاظ کی چادر تلے نہ چھپائیں۔ ’سیاست میں کوئی مستقل دوست دشمن نہیں‘ والی بات بھی اپنی سیاسی قلابازیوں کو سپورٹ کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ اصل بات ہے کہ جہاں بھی ڈھنگ کی سیاست ہو، وہاں دوستی یا مخالفت اصولوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ کسی اصولی نکتے پر جماعتیں ملتی اور جدا ہوتی ہیں۔ سیاستدانوں کو البتہ یہ سیکھنا چاہیے کہ مخالفت میں شائستگی برتیں اور تنقید اخلاقی حدود کے اندر رہ کر کریں۔ اگر کوئی سیاسی جماعت اپنی کسی مخالف جماعت پر ملک دشمن، سکیورٹی رسک ہونے یا فسطائیت اور کرپشن کے الزامات لگاتی ہے تو پھر کچھ عرصے کے بعد اسی جماعت سے اتحاد کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ اگر پچھلے الزامات غلط تھے تو جھوٹ بولنے کے باعث آپ کی آئندہ کسی بھی بات کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ الزامات درست تھے تو پھر اتحاد کس بات کا؟ اس بار انتخابات سے پہلے سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی ایسی ہی عجیب و غریب بنیادوں پر کی جا رہی ہے۔ جن جماعتوں پر پہلے تنقید کی جاتی رہی اب وہ اچانک ہی اچھی ہو گئی ہیں اور چند نشستوں کے حصول کے لیے سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو رہی ہے۔ بھلے مانسو! اگر وہ جماعت اتنی ہی اچھی ہے تو انتخابی اتحاد بنائو اور ایک نشان کے تحت الیکشن لڑو تاکہ آپ پر پارلیمنٹ میں جا کر اخلاقی اور قانونی ضابطوں کا عمل تو ہو سکے۔ اس حوالے سے دلچسپ صورتحال صالحین کی پارٹی جماعت اسلامی کی ہے۔ جماعت کی تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن دونوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات چل رہی ہے، ابھی تک فیصلہ نہیں ہو پایا اس لیے حق و باطل کا اعلان نہیں کیا گیا۔ جو پارٹی ان کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرے گی، وہ اچھی ہو گی اور دوسری کے خلاف مہم چلائی جائے گی یعنی اب حق کے لیے یہ پیمانہ ہے کہ ہمارے ساتھ کون مل رہا ہے، ہمیں زیادہ بہتر اور پُرکشش آفر کون کرے گا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اگر سیاسی عمل جاری رہا تو سسٹم ٹھیک ہو جائے گا، کرپشن ختم ہو جائے گی، یہ بھی ایک مغالطہ ہے۔ بھارت میں پچھلے ساٹھ برسوں سے سیاسی عمل بلاتعطل جاری ہے، کبھی مارشل لا نہیں آیا مگر کیا وہاں کرپشن کم ہو گئی؟ جواب نفی میں ہے۔ بھارت میں پچھلے دو برسوں کے دوران کئی وفاقی وزرا اور متعدد ارکان اسمبلی بدعنوانی کے مقدمات کی بنا پر جیلوں میں بھیجے گئے۔ کرپشن صرف کرپٹ افراد کے خلاف کارروائی کرنے سے ہی کم ہوتی ہے۔ مغرب کے جن ممالک میں احتساب کا نظام مضبوط، سیاسی نظام کی تطہیر جاری رہتی ہے، وہاں معاملات بہتر ہیں۔ ورنہ وہاں بھی اٹلی جیسے ممالک موجود ہیں، جہاں کرپشن اور اقربا پروری عروج پر ہے۔ اطالوی سیاسی نظام اپنے بدترین سیاستدان برلسکونی سے نجات نہیں پا سکا، حالانکہ وہاں کبھی مارشل لا نہیں آیا، انتخابات بھی تسلسل کے ساتھ ہوتے رہے ہیں۔ سیاستدانوں پر جب احتساب کا شکنجہ کسا جانے لگتا ہے تو ایک بات ہمیشہ دہرائی جاتی ہے: احتساب کا حق صرف عوام کو حاصل ہے۔ یہ بات ہر اعتبار سے غلط ہے۔ عوام اپنی رائے صرف اس حوالے سے دے سکتے ہیں کہ فلاںشخص نے پانچ سال میں ہمارے لیے کافی کچھ کام کیا، اس لیے ہم اسے دوبارہ منتخب کر رہے ہیں۔ عوام کو کیا خبر کہ اس شخص نے قومی خزانے کو کس قدر نقصان پہنچایا، ملکی قوانین کے ساتھ کیسا کھلواڑ کیا؟ اگر کوئی شخص جعلی ڈگری یا غلط حلف پر رکن اسمبلی بنا تو اس نے ملکی قانون کا مذاق اڑایا، جس پر وہ سخت سزا کا مستحق ہے۔ اسی طرح اگر وہ کرپشن میں ملوث رہا، قومی اداروں کی تباہی، حلقے کے لیے مختص فنڈز خورد برد کرنے میں اس کا حصہ رہا تو اس کا احتساب پولیس، انتظامیہ اور عدلیہ ہی کرے گی۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جن لوگوں کی ڈگریاں جعلی ہیں، انہیں ہر حال میں نشانہ عبرت بننا چاہیے۔ 189 ارکان اسمبلی کو پانچ اپریل تک کی مہلت ملی ہے۔ ان ارکان اسمبلی میں سے بعض نامور سیاستدان ہیں۔ ان کے قد کاٹھ کی پروا کئے بغیر فیصلہ آنا چاہیے۔ سپریم کورٹ کو اس حوالے سے سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ضروری ہے کہ ہماری سول سوسائٹی اور انٹیلی جنشیا ان جرات مندانہ فیصلوں میں عدالتوں کے ساتھ کھڑی ہو۔ جب جعلی ڈگریوں والا قضیہ کھڑا ہوا تو بعض ارکان اسمبلی جن میں مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین ارکان اسمبلی سرفہرست ہیں، خاموشی سے مستعفی ہو گئے تھے تاکہ ان کی جعلی ڈگریاں ایکسپوز نہ ہو سکیں۔ ’’رضا کارانہ‘‘ طور پر مستعفی ہو جانے والے ان ارکان اسمبلی کا بھی احتساب ہونا چاہیے کہ انہوں نے چار ساڑھے چار سال تک جعلی ڈگری کی بنیاد پر تمام سہولتیں حاصل کیں۔ اسی طرح وہ افراد جنہوں نے جعلی ڈگری ثابت ہونے کے بعد سیاسی جلسوں میں ڈگری کا مذاق اڑایا، ان کو بھی عدالتی شکنجے میں لانا چاہیے۔ اگر جمہوریت پر عوام کا اعتبار قائم رکھنا ہے تو ہمیں اپنے سسٹم کو مذاق بننے سے بچانا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں