یہ بیٹھے رہنے کا وقت نہیں!

چند ماہ قبل ڈاکٹر طاہرالقادری کی آمد اور ان کے دھرنے کا غلغلہ تھا۔ انہی دنوں قادری صاحب کی مخالفت میں مضامین اور ٹی وی پروگراموں کا ایک سیلاب سا امنڈ آیا تھا۔ صحافتی حلقوں میں اس قدر ’’یکسوئی‘‘ سے کسی سیاسی شخصیت کی مخالفت کبھی نہیں دیکھی گئی۔ اس کی وجوہات میں موصوف کا مخصوص اندازِ خطابت، ان کے غیرمعمولی اورمبالغہ آمیز دعوے اور ماضی کی تباہ کن غلطیاں بھی شامل تھیں مگر میڈیا میں بعض سیاسی جماعتوں کی حامی لابی نے اس تنقید میں بڑا حصہ ڈالا۔ ڈاکٹر قادری یا ان جیسے روایتی سوچ رکھنے والے علما ء نے مجھے کبھی متاثر نہیں کیا، اس قدر بلند بانگ دعوے ہضم کرنا ویسے بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اس سارے سلسلے میں مجھے ایک مثبت بات نظر آئی جس پر اپنی بساط کے مطابق لکھنے کی کوشش بھی کی، وہ الیکشن اصلاحات کا نعرہ اور آئین کے آرٹیکلز باسٹھ تریسٹھ کا امیدواروں پر نفاذ تھا۔ میرا موقف تھا کہ انٹیلی جنشیا اور سول سوسائٹی کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے الیکشن اصلاحات کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہیے کہ عام حالات میں یہ سب کچھ ہونا ممکن نہیں تھا۔ اسی دوران ایک بار درویش کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مختلف موضوعات پر بات کرتے رہے، پھر کسی نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے بارے میں سوال کیا۔ شاہ صاحب نے ایک لمحے کے لیے غور کیا اور پھر نرمی سے بولے: ’’ڈاکٹر صاحب تو غالباً یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے میدان مار لیا مگر ان کی حیثیت اس راکٹ کی سی ہے جو سپیس شٹل کو اڑانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور پھر خاصے فاصلے پر جا کر وہ الگ ہو کر گر جاتا ہے۔ اس کا کام صرف اپنی قوت کے ساتھ شٹل کو آگے دھکیلنا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ قدرت پاکستان میں مثبت تبدیلیاں لانا چاہتی ہے، علامہ صاحب اس بڑے ڈیزائن آف نیچر میں ایک چھوٹے سے کردار کے طور پر استعمال ہو ں گے۔ اس کے بعد ان کا کردار ختم ہو جائے گا تاہم تبدیلی کی لہر چلتی رہے گی، بتدریج اصلاحات آتی جائیں گی حتیٰ کہ مملکت خداداد میں دوبارہ سے معاملات بہتر ہوں گے اور یہ ملک ایک نئی قوت کے ساتھ دوبارہ اُبھرے گا‘‘۔ ویسے درویشوں کی محفلوں میں پاکستان کے حوالے سے ہمیشہ مثبت باتیں ہی ملتی ہیں۔ روحانی شخصیات اس پر متفق ہیں کہ پاکستان کی تخلیق ایک بڑے مقصد کے لیے ہوئی، اس کا عالمی سطح پر ایک بڑا کردار ہے جو انشا اللہ اس نے ادا کرنا ہے۔ یہ بات البتہ ہمیشہ کہی جاتی ہے کہ پاکستانی قوم کی اخلاقی حالت سدھرنی چاہیے، عوام کی تربیت کیے بغیر بڑی تبدیلی لانا ممکن نہیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جو ہماری دینی سیاسی جماعتوں کو سمجھ نہیں آتا، یا وہ جان بوجھ کر اس کام کا بیڑا نہیں اٹھانا چاہتیں۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ہونے والی تبدیلیاں دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری حقیقتاً کسی ناکارہ حصے کی طرح ایک سائیڈ میں ہو چکے ہیں۔ انہوں نے دھرنوں کا اعلان کیا، ساتھ ہی وضاحت کر دی کہ یہ دھرنے الیکشن کے عمل میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ پوچھا جانا چاہیے کہ پھر اس سوانگ کا کیا فائدہ؟ بہتر تھا کہ الیکشن کے معرکے میں حصہ لیتے یا پھر اپنے ایجنڈے سے قریب تر کسی جماعت کو سپورٹ کرتے۔ خیر قادری صاحب جانیں اور ان کے عقیدت مند۔ ایک بات میں ہم ان کے ممنون ہیں کہ دستور پاکستان میں عرصے سے موجود بھولی بسری دفعات باسٹھ تریسٹھ کو انہوں نے یاد دلا دیا۔ یاد بھی ایسا دلایا کہ اس نے قومی سیاست میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اچانک ہی سب سے اہم اور فیصلہ کن فریق کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ عدالتیں اپنی پوری قوت اور اخلاقی برتری کے ساتھ اس کی پشت پر کھڑی ہیں۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی جعلی ڈگری والوں کے خلاف سزائوں سے ہوئی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ’’رول آف لا‘‘ کی جھلک نظر آئی۔ جو لوگ اپنی طاقت اور تعلقات کے زعم میں قانو ن اور ضابطوں کا مذاق اڑاتے رہے اب وہ گرفت میں آ رہے ہیں۔ جمشید دستی کے خلاف سزا اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ موصوف اپنی چرب زبانی اور قوت لسانی کے زور پرعوامی ہیرو بننے کی کوشش کر رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر اس فیصلے سے گرما گرم بحث شروع ہوئی۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ دستی صاحب نے مظفر گڑھ کے روایتی ماحول میں جاگیرداروں اور نواب زادوں کو چیلنج کیا اورکامیاب ہوئے۔ انہیں لگا کہ ایک غریب آدمی کو اپنی جرأت کی سزا ملی ہے۔ جہاں تک جمشید دستی کی’’غربت‘‘ کا تعلق ہے، اس بارے میں تو گزشتہ جمعہ کو روزنامہ دنیا میں خالد مسعود خان کا کالم پڑھ لینا چاہیے۔ خالد صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں دستی صاحب کے دعوئوں کے جس طرح پرخچے اڑائے، وہ دیدنی ہیں۔ ہمارے خیال میں تو سیدھا سادا اصول بنانا چاہیے کہ جس نے قانون کا مذاق اڑایا، غلط کام کیا، اسے اس کی سزا ملنی چاہیے۔ باسٹھ تریسٹھ کے حوالے سے ایک اور اہم نکتے پر بات کرنا بڑا ضروری ہے۔ پچھلے تین چار دنوں کے دوران مختلف ریٹرننگ افسروں نے جس مضحکہ خیز طریقے سے امیدواروں سے سوالات کیے، وہ پریشان کن تھے۔ بہت سے قارئین نے ای میل اور میسج کر کے اس جانب توجہ دلائی۔ ان سب کا کہنا تھا کہ یہ سب آئین کی دفعات باسٹھ تریسٹھ کے خلاف ایک سازش محسوس ہو رہی ہے۔ منظم انداز سے ملک بھر میں امیدواروں سے ایسے غیرضروری اور غیرمتعلقہ سوالات کیے جا رہے ہیں کہ رائے عامہ آئین کی ان دفعات کے خلاف ہی ہو جائے یا پھر یہ تاثر ابھرے کہ ان کے ذریعے ایک خاص قسم کی ملائیت نافذ کرنے کا پروگرام ہے۔ کسی بھی امیدوار کے مسلمان ہونے کے دعوے پر یقین کر لینا چاہیے،کلمہ طیبہ پڑھ لینا ہی سب سے بڑی شہادت اور دلیل ہے جس کے بعد کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی۔ اگر کوئی شخص کھلم کھلا اسلامی شعار کا مذاق اُڑاتا ہو، عادی جواری، شرابی یا زنا میں ملوث ہو اور اس کے بارے میں ثبوت بھی موجود ہوں تو اسے ویسے ہی ملکی قوانین کے مطابق سزا مل جائے گی کہ پاکستان میں ان سب کاموں پر پابندی ہے۔ جس کسی کے پاس ایسے ثبوت موجود ہیں وہ ریٹرننگ افسر کے پاس جانے سے پہلے پولیس سے رجوع کرے۔ ایسے سوالات پوچھے گئے کہ اگر چار بیویاں ہوں تو کیسے انصاف کریں گے، موسم کون سا پسند ہے، بیٹے سے زیادہ پیار ہے یا بیٹی سے …وغیرہ وغیرہ، یہ سب مضحکہ خیز تھا۔ الیکشن کمیشن نے دانشمندی سے کام لیتے ہوئے ریٹرننگ افسروں پر پابندی لگا دی ہے کہ وہ قوانین کے مطابق متعلقہ سوالات کریں۔ معروف کالم نگار اور سیاستدان ایاز امیر کو جس طرح نااہل قرار دیا گیا اس کی کھلے لفظوں میں مذمت کرنی چاہیے۔ مجھے یہ عمل بھی کسی بڑے منصوبے کا حصہ لگا۔ جناب ایاز امیر معروف اور جانے پہچانے دانشور ہیں، ان کے بعض خیالات سے مجھے یا کسی اور کو اختلاف ہو سکتا ہے مگر انہیں نظریہ پاکستان کا مخالف قرار دینا صریحاً زیادتی ہے۔ اپیل میں یقیناً انہیں ریلیف مل جائے گا مگر ان کے ساتھ پہلے مرحلے پر بھی زیادتی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ الیکشن کمیشن کو ان سب معاملات پر نظر رکھنی ہو گی۔ سکروٹنی کا عمل جاری ہے، بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے مگر ایسی غلطیاں کی گئیں تو رائے عامہ خلاف ہو جائے گی۔ لگتا ہے بعض قوتیں ایسا چاہ رہی ہیں۔ انٹیلی جنشیا، سول سوسائٹی اور ملک میں مثبت تبدیلی لانے کے خواہش مند ہر شخص کو مستعد رہنے کی ضرورت ہے، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو اخلاقی سپورٹ دینے کی شدید ضرورت ہے۔ یہ وقت بیٹھے رہنے کا نہیں۔ دستور کے تحفظ کے لیے قومی اداروں کے ساتھ کھڑے ہو جائیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں