کیا جماعت اسلامی اپنی غلطیو ں سے سبق سیکھ سکے گی؟

جماعتِ اسلامی کو اس بار اتحاد بنانے کے حوالے سے جو شرمندگی اٹھانا پڑی، دینی تحریکوں سے ہمدردری اور دلچسپی رکھنے والوں کو اس سے دکھ ہوا۔ جماعت کو ماضی میں بھی بڑے دھچکے لگے۔ ستر کے انتخاب میں انہیں توقع کے برعکس شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 93ء میں اسلامک فرنٹ کو جس طرح شکست ہوئی، اس گھائو کو مندمل ہوتے کئی برس لگ گئے۔ اس بار کا دھچکا البتہ قدرے مختلف نوعیت کا مگرخاصا پریشان کن ہے۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ جماعتِ اسلامی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود سیاسی میدان میں تنہا کیوں رہ گئی؟ یقینا اس کی وجوہات ہیں، ان پر بات ہونی چاہیے ،مگر اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی یہ اہم دینی سیاسی جماعت اس تجربے سے کچھ سیکھ پائے گی؟ ایک ضمنی سوال یہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا جماعتِ اسلامی اپنی حکمت عملی میں جوہری تبدیلی لاتے ہوئے سیاست کے بجائے سماج میں اصلاح اور دعوت وتربیت کے کام کو اپنی توجہ کا مرکز بنائے گی؟ اس سوال کا اپنا ایک پس منظر ہے۔ جماعتِ اسلامی سے دلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ ماضی میں بعض قدآور شخصیات جماعت سے اسی اختلاف پر الگ ہوئیں ،مولانا امین احسن اصلاحی ہوں یا ڈاکٹر اسرار احمد …ان سب کے اپنے دلائل تھے، جماعتِ اسلامی کی قیادت ، شوریٰ اورارکان کی اکثریت نے ان سے اتفاق نہ کیا اور یوں جماعت کی سیاسی جدوجہد جاری رہی ۔جا وید غامدی صاحب کا میں نے ایک بار کئی گھنٹوں پر محیط انٹرویو کیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ سید مودودی نے جودین کی سیاسی تعبیرکی ہے، وہ منفرد اور دوسروں سے مختلف ہے۔ظاہر ہے( غامدی صاحب کے خیال میں) مولانا مودودی کی سیاسی تعبیر غلط تھی۔ انہوں نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مولانا وحیدا لدین خان نے اس حوالے سے جو کتاب لکھی ،اس کا نام دانستہ’’تعبیر کی غلطی‘‘ رکھا کہ بنیادی طور پریہ سیاسی تعبیروتشریح (interpretation)ہی غلط ہے۔ سید مودودی کی وہ تعبیر غلط ہے یا درست، یہ بہرحال حقیقت ہے کہ اس وقت جماعتِ اسلامی کی پوری عمارت اسی نقطے پر استوار ہے۔ جماعت اسلامی کا ڈیزائن اور سٹرکچر ہی اس نوعیت کا بن چکا ہے کہ سیاسی جدوجہد اس کا لازمی جزو ہے۔ارکانِ جماعت کی ذہنی تربیت اس نہج پر ہوئی کہ اب جماعتِ اسلامی چاہے تو بھی اس کی حکمتِ عملی میں 180 کی ڈگری کی تبدیلی نہیں آسکتی۔ ممکن ہے مستقبل بعید میں کسی اور انداز سے اس کی کوئی شکل نکل آئے، سردست مجھے تو یہ امکان نظر نہیں آتا۔اس لیے میری ذاتی رائے میں اب یہ سوال بے معنی ہوچکاہے ۔ جماعتِ اسلامی کی سیاسی حکمت عملی، اس کی غلطیوںاور مستقبل میں امکانات کاالبتہ تجزیہ ہونا چاہیے۔جماعت اسلامی ایک اسلامی تحریک تھی اور ایک خاص حوالے سے آج بھی ہے۔ سیاسی جماعت یا مذہبی سیاسی جماعت کے طور پر اس کی خاص اہمیت تھی، گزرتے وقت نے اس پوزیشن کو نقصان پہنچایا،مگر اسے مکمل طور پر رائٹ آف کر دینا زیادتی ہوگی۔ جماعت اسلامی کو ایک این جی او تصور کر لینا درست نہیں ۔ جماعتِ اسلامی کی دو تین حوالوں سے بڑی اہمیت ہے۔ ایک تو یہ واحد دینی سیاسی جماعت ہے۔ باقی فرقہ ورانہ جماعتیں محسوس ہوتی ہیں۔ جماعتِ اسلامی ان معنوں میں اسلامی تحریک یقیناً ہے کہ اس نے پاکستانی سماج میں طاقتور مذہبی لہریں پیدا کیں۔اس پلیٹ فارم سے سماج کو بدلنے ، اس کی خرابیاں دور کرنے،دین کی جانب رشتہ جوڑنے کی کوششیں بھی ہوئیں۔ پچاس، ساٹھ ، ستر اور اسّی کے عشروں میں اس کا اثر نسبتاً زیادہ گہرا تھا ،جس کے مظاہر بھی نظر آتے رہے۔ سیاسی جدوجہد اور انتخابی سیاست پر توجہ زیادہ مبذول ہونے سے دعوت وتربیت کے کام کو نقصان پہنچا۔اسّی کے عشرے سے بتدریج انحطاط شروع ہوا، نوے کی دہائی اور اس کے بعد کے بارہ تیرہ برسوں میں یہ گراف پستیوں کو چھونے لگا ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اس گئی گزری پوزیشن کے باوجود سماج میں موجود دینی رجحانات قائم رکھنے، اس کی اخلاقی اقدار کی حفاظت اور مغرب سے چلی آتی تہذیبی یلغار روکنے میں جماعتِ اسلامی کا کچھ نہ کچھ ہاتھ رہا ہے۔اصل مسئلہ یہ ہوا کہ اٹھارہ سے تیس پینتیس سال کے نوجوانوں میں جماعت اسلامی کا اثربہت کم ہے۔پہلے دینی سوچ رکھنے والا ہر نوجوان کسی نہ کسی مرحلے پر جماعت اسلامی کے ساتھ جڑتا یا کم از کم اس کے ساتھ ہمدردی ضرور محسوس کرتا تھا۔ اس کی بڑی وجہ جماعت کا لٹریچر تھا۔ سید مودودی کے سحر سے دائیں بازو کے کم لوگ ہی باہر رہ سکے۔ جنہوں نے بعد میں مولانا کی تعبیر کے خلاف رائے قائم کی اور اس سوچ کو آگے بھی پھیلایا، وہ لوگ بھی ایک خاص وقت میں مولانا کے مداح رہے۔اب ایسی صورتحال نہیں۔ مولانا کے بعد جماعتِ اسلامی نے کوئی دوسرا قدآور سکالر پیدا نہیں کیا۔پچھلے دس پندرہ برسوں کے دوران رائٹ ونگ اور سنٹر آف دی رائیٹ ونگ کے لوگوں اور رائٹ کی انٹیلی جنشیا میں جماعتِ اسلامی کا اثر ونفوذ ختم ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے میڈیا میں نہ صرف جماعتِ اسلامی سے ہمدردی رکھنے والے نہیں رہے، بلکہ اینٹی جماعت سوچ رکھنے والے بڑھ رہے ہیں۔مجھے تو لاہور کے کسی تھنک ٹینک یا تھنکرز فورم میں جماعتِ اسلامی کا کوئی نوجوان دانشور نظر نہیں آیا، اس لیے کہ ان کے پاس پڑھے لکھے، انرجی رکھنے والے نوجوان کمیاب ہیں۔ یوتھ میں اثر ختم ہونے کا نقصان جماعتِ اسلامی کو حالیہ انتخابات کے حوالے سے بھی ہوا۔ جماعتِ اسلامی کو سیاسی اتحادوں میں اچھی جگہ صرف اس لیے مل جاتی تھی کہ ان کے پاس کارکنوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہوتی اور ہر حلقے میں ان کا ایک خاص ووٹ بینک تھا۔کارکن تو خیر اب بھی ہوں گے‘ مگر ان کا ووٹ بینک تحلیل ہو رہا ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کا تاثر کم ازکم یہی ہے۔ یہ الیکشن جماعتِ اسلامی کے لیے اس لحاظ سے بھاگوان ثابت ہوئے ہیں کہ انہیں اپنی قوتِ بازو پر بھروسہ کرنے کی عادت پڑے گی‘ اگر وہ محنت کر کے اپنا ووٹ بینک شو کر سکے تو آئندہ کے لیے انہیں اس کا فائدہ ہوگا۔ جماعت کو ایک نقصان اخلاقی حوالے سے بھی ہوا ہے۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے انہوں نے جو رویہ اور پالیسی اپنائی ،وہ اعلیٰ اخلاقی اصولوں کے مطابق نہیں تھی۔ ان میں اور ’’زیرک سیاستدان‘‘ ہونے کی شہرت رکھنے والے مولانا فضل الرحمن میں اس بار کوئی فرق نہیں رہا۔ جماعت اسلامی میاں نواز شریف پر مسلسل تنقید کرتی رہی کہ انہوں نے فرینڈلی اپوزیشن کی اورصرف ان کی وجہ سے زرداری صاحب کو پانچ سال حکومت کرنے کا موقعہ ملا۔ لاہور سے دو تین نشستیں حاصل کرنے کے لالچ میں انہوں نے اپنے تمام پچھلے بیانات بھلا دیے اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے متمنی رہے۔ میاں صاحب نے وہی کیاجو ان کی شہرت تھی۔ انہوں نے دانستہ جماعت کو اپنے ساتھ انگیج رکھا کہ وہ تحریکِ انصاف کی جانب نہ جا سکیں اور پھر بعد میں جھنڈی دکھا دی۔ بعد میں تحریکِ انصاف سے بھی بات نہ بن سکی۔ بہتر ہوتا کہ وہ پہلے سے یکسو ہو کر کسی ایک جانب جاتے۔ تحریکِ انصاف ان کی فطری اتحادی جماعت بنتی تھی۔ اگر جماعتِ اسلامی شروع سے واضح ذہن لے کر چلتی تووہ اس پریشانی سے بچ سکتی تھی۔ محسوس یہ ہوا کہ جماعت نے دانشمندی سے اپنے کارڈ نہیں کھیلے۔ کہا جا رہا ہے کہ جماعت کے اندر بھی اس پر بحث مباحثہ جاری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپنی غلطیوں سے وہ کیا سبق سیکھتے اور کس انداز سے ان کی تلافی کر پاتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں