پُرامید رہنے کی وجوہات موجود ہیں

اصل موضوع پر آنے سے پہلے دو مختصر سی کہانیاں یا حکایات۔ ایک واقعے کا تعلق سرمایہ دارانہ نظام کے چیمپیئن امریکہ کے صدر سے ہے اور دوسرے کے راوی استعمار کے خلاف لانگ مارچ برپا کرنے والے مائوزے تنگ ہیں۔ کہتے ہیں امریکی صدر کینیڈی نے ایک نایاب پودا کہیں سے منگوایا اور وائٹ ہائوس کے ہیڈ مالی کو ہدایت کی کہ اسے فرنٹ لان میں لگا دو۔ مالی نے پودے کا جائزہ لیا اور پھر مودبانہ انداز سے کہا ’’جناب صدر! آپ کو شاید معلوم نہیں کہ یہ پودا بڑا ہونے میں بہت زیادہ وقت لیتا ہے، ہر پانچ سال کے بعد یہ ایک انچ بڑھے گا، یوں اسے پروان چڑھنے میں ایک صدی لگ جائے گی‘‘ بین السطور وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ آپ زیادہ سے زیادہ وائٹ ہائوس میں آٹھ برس گزار سکتے ہیں، اس لئے ایسے لمبے خواب دیکھنے کا کیا فائدہ ۔ کینیڈی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی، اس نے برجستہ جواب دیا، ’’اوہ! اس کا مطلب ہے ،ہمارے پاس وقت نہیں ۔پھر آج ہی اسے لگا دو ۔‘‘ مائوزے تنگ نے اپنی کتاب میں ایک چینی حکایت بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے امید کا سبق اس چینی کسان سے سیکھا ۔ کہتے ہیں کہ ایک چینی کسان اپنے بیٹوں کے ساتھ ایک وادی میں رہتا تھا۔ اس کی جھونپڑی کے عین سامنے ایک پہاڑتھا، زاویہ ایسا تھا کہ دھوپ ان تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ایک روز وہ بیلچہ لے کر اٹھا اور پہاڑ کی جڑ کو کھودنا شروع کر دیا۔ کئی گھنٹوں تک لگا رہا۔ ایک راہ گیر وہاں سے گزرا تو پسینے سے شرابور بڑے میاں کو دیکھ کرحیران ہوا۔ اس نے پوچھا ، باباجی،آپ یہ پہاڑ کیوں کھود رہے ہیں، یہ تو ناممکن کام ہے۔ بوڑھے کسان نے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے جواب دیا،’’میں اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک روزانہ اس پہاڑ کو کھودتا رہوں گا، میرے بعد میرے بیٹے یہ کام کریں گے، ان کے بعد ان کے بیٹے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہے گا، آخر یہ پہاڑ شکست کھا جائے گا، ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے ‘‘ فتح اورشکست میں دوسرے عوامل کے علاوہ ایک بڑا فرق امید اورناامیدی کا ہے۔ جس فریق کے حوصلے بلند اور جیت کا یقین ہوتا ہے، وہ اپنے سے زیادہ کنفیوزڈ اور متزلزل فریق پر بازی لے جاتا ہے۔ ہر آئیڈیلسٹ صحافی کی طرح اپنے صحافتی کیرئر کے دوران ہمارا واسطہ بھی مایوسی اور ناامیدی کے کئی ادوارسے پڑا۔ صحافتی دنیا اور اس سے باہرمنفی ایجنڈے کے حامل لوگوں کو اوپر جاتے اوران سے کئی گنا زیادہ صلاحیت اور استعداد رکھنے والوں کو کارنر ہوتے دیکھتے رہے۔ اہل علم کے ساتھ بے توقیری کے عجب مظاہر دیکھے، دل کڑھتا رہا۔ گاہے ایسے وقت بھی آئے ،جب اپنے لئے بھی لکھنادوبھر ہوگیا،مگر پھر وہ دن بھی گزر گئے۔ تاریکی خواہ کتنی ہو، چھٹ ہی جاتی ہے۔ انہی دنوں ایک بات سیکھ لی کہ ناامید اور مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اندازہ ہوگیا کہ تبدیلی ایک دو یا چند ایک مضامین اور رپورٹوں سے نہیں آئے گی۔یہ کوئی ٹی ٹوئنٹی یا ون ڈے نہیں بلکہ طویل دورانیے کا میچ ہے، ٹیسٹ میچ سے بھی زیادہ طویل۔ اس کا موازنہ ایتھلیٹکس کی ریلے دوڑ (Relay Race)سے کیاجا سکتا ہے۔ ہر ایتھلیٹ اپنے حصے کا فاصلہ تیزرفتاری سے طے کر کے مخصوص رومال یا چھڑی کا ٹکڑا اگلے ایتھلیٹ کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے،جو تیزرفتاری سے آگے کی جانب دوڑنا شروع کر دیتا ہے۔ عام طور پر ایسی ریلے ریس میں چار کھلاڑی حصہ لیتے ہیں، ان میں سے ایک بھی اگر سست یا کمزور ہوتو پوری ٹیم کو شکست ہوجاتی ہے۔کسی کھلاڑی کو پتہ نہیں کہ ریس کا انجام کیا نکلے گا، اس کا کام صرف اتنا ہے کہ اپنی پوری استعداد اور صلاحیت استعمال کر کے اپنا کام کر دکھا ئے اور مشعل یا جھنڈا اگلے کے ہاتھ میں تھما دے۔ سچ تو یہی ہے کہ انٹیلی جنشیا یا اہل دانش کا بھی یہی کام ہے۔ اپنے حصے کا کام پوری قوت اورجرات سے انجام دیا جائے اور نتائج کا کام قدرت پر چھوڑ دیا جائے۔ ہمارے ہاں باسٹھ ، تریسٹھ کے حوالے سے شدید مایوسی کی جو لہر آئی، اس سے ہر کوئی کسی نہ کسی حد تک متاثر ہوا ۔ ہم سب بڑے پُریقین تھے کہ اس بار فلٹریشن کے عمل سے بہت سے طاقتور لوگ باہر ہوجائیں گے۔ سب جانتے ہیں کہ ہوا کچھ بھی نہیں۔ ٹیکس معاف کرانے والوں، ڈیفالٹر اور جعلی ڈگری رکھنے والوں کومسکراتے، فتح کانشان بناتے دیکھنا آسان کام نہیں تھا۔یوں لگا جیسے ہم سب اب تک جھک مار رہے تھے۔ الیکشن ریفارمز کی باتیں، الیکشن کمیشن کو اختیارات دینے کے مطالبے، اس حوالے سے کئے گئے تجزیے سب بے کار گئے۔ برادرم رئوف کلاسر نے تو بڑی جرات سے اس کا اظہار بھی کر دیا، ان کے کالموں سے ان کی دل گرفتگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ مایوس ہونے کی وجوہات موجود ہیں، مگر مجھے یوں لگتا ہے کہ پرامید رہنے کے لئے بھی بہت کچھ موجود ہے۔ اگر غور کیا جائے تو آئندہ کے لئے جدوجہد کا ایک نیا روڈ میپ سامنے آگیا۔ اندازہ ہوگیا کہ کس نہج پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پری الیکشن کے عمل نے کئی سبق سکھائے ہیں۔ یہ واضح کر دیا ہے کہ موجودہ قوانین ڈیفالٹر، ٹیکس چوروں اور جعلسازوں کو الیکشن سے باہر رکھنے کے لئے کافی نہیں۔عدالتیں صرف الزام پر سزا نہیں دے سکتیں۔ انصاف کے کچھ عدالتی تقاضے ہیں، جنہیں پورا کرنا لازمی ہے۔اس فیکٹر کو سامنے رکھ کر حکمت عملی بنانی چاہیے۔ قرضے معاف کرانے والوں کو بینک جس طرح تحفظ فراہم کرتے ہیں، وہ رعایت بھی ان سے واپس لینا ہوگی۔کرپشن روکنے کے لئے مضبوط اورقابل اعتماد ادارے بنانے ہوں گے جو دبائو سے بے نیاز مستقل بنیادوں پر کام کرتے رہیں۔ صرف الیکشن کے دنوں میں کوشش کرنے سے جعلساز اور لٹیرے نہیں روکے جا سکتے۔ سکروٹنی کا عمل سات دن سے بڑھا کرتیس روز کرنے کی بات اس وقت رد کر دی گئی، اب اس حوالے سے قانون سازی کے لئے دبائو ڈالنا ہوگا۔ سب سے بڑھ کر یہ اہم نقطہ سمجھ آ گیا کہ چیف الیکشن کمشنر اکیلا کچھ نہیں کر سکتا، کمیشن کے دوسرے ممبران بھی اتنے ہی اہم ہیں، حالانکہ ان کے تقرر پر کسی نے بات بھی نہیں کی تھی، سب کی نظر چیف الیکشن کمشنر پر ہی رہی ۔صوبائی الیکشن کمیشن کی اہمیت کا اندازہ بھی پہلے نہیں تھا۔ یہ اندازہ بھی اب ہوگیا کہ سیاستدان کس طرح اپنے مفادات کے لئے اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں جس طرح مصنوعی انداز سے اپوزیشن بنائی گئی اور پھر مل بیٹھ کر من پسند فیصلے کر لئے گئے، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ سیاستدانوںکے گٹھ جوڑ کو ناکام بنانے کے لئے انٹیلی جنشیا کو مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔ باسٹھ، تریسٹھ کے حوالے سے جو ابہام سامنے آئے، وہ بھی دُور ہونے چاہئیں تاکہ ریٹرننگ افسرمضحکہ خیز سوالات پوچھنے کے بجائے ٹھوس بنیادوں پر کام کر سکیں۔ ہمارے ہاں متناسب نمائندگی کے حوالے سے کبھی بات نہیں ہوئی،پہلی بار بہت سے لوگوں کو احساس ہوا کہ اگر پارلیمنٹ میں اچھے لوگ بھیجنے ہیں توموجودہ انتخابی نظام کے بجائے متناسب نمائندگی کو اپنانا ہوگا تاکہ ذات برادری اور پیسے کے زور پر جیتنے والے الیکٹ ایبل کے بجائے سیاسی جماعتوں کی اہمیت بڑھ سکے۔ متناسب نمائندگی پر تفصیلی مباحث ہونے چاہئیں۔ ایک اور نقطہ واضح ہوا کہ صرف قوانین کے ذریعے مکمل تبدیلی نہیں لائی جا سکتی،ووٹر کے مائنڈ سیٹ کو بھی بدلنا ہوگا۔ سماج میں تبدیلی کی اہمیت ایک بار پھر راسخ ہوگئی ۔ مجھے لگتا ہے کہ انتخابات کے بعد ہماری بعض مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو اس امر کا نسبتاً زیادہ احساس ہوجائے گا۔ حالیہ انتخابی مہم میں بھی بعض بڑے مثبت پہلو نظر آرہے ہیں، مگر ان پر پھر بات ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں